آخر یہ طوفان کب تھمے گا؟


انسان ذہن میں کوئی بھی چیز ڈالنا در حقیقت باہر سے کسی بھی چیز کا اس میں ڈالنا نہیں ہے بلکہ اس کے ذہن کے سوتوں کو کھولنا ہے آج کل ہمارے سیاست باز اپنی خالی خولی باتوں میں تو جمہوریت اور عوامی مسائل کی بہت ڈینگیں مارتے ہیں۔ بھاری بھر کم لباس برانڈڈ جوتے مگر اصلیت ڈھونڈو تو کچھ بھی نہیں ہے۔ تکبر و غرور میں لپٹے ہوئے لہجے میں ہر پارٹی اپنے آپ کو بے مثال ثابت کرنے کی تگ و دو میں لگی رہتی ہے۔ نئے امکانات کے دروازے کھولنے کی کوئی بات نہیں کرتا۔

ماضی کے فضول قصوں کو چھوڑ کر آگے بڑھنے کی باتیں ہونی چاہئیں۔ 75 سالوں کے لمحوں کو گنتے گنتے عمریں بیت چلی ہیں۔ کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ اب عمر کی کتنی نقدی بچ گئی ہے۔ سیاسی جنگل، سیاسی دلدل اور سیاسی بند گلیوں سے کوئی راہ تو نکلتی ہو گی جو باقاعدہ حل کی طرف جاتی ہو۔ اگر ریاست اور رعایا کا مفاد اور مذہب ایک ہو گا تو ملک ترقی کر سکے گا۔ برطانوی راج میں چونکہ مسلمان اور دوسری قومیں اقلیت میں تھیں تو سب نے انگریزی قوانین کی پیروی کی۔

اس دور میں انگریز فوجداری قوانین بلاتفریق مذہب و ملت کے پورے ملک میں نافذ کر دیے البتہ سول قوانین میں مذہبی عقائد کے مطابق الگ الگ قانون وضع کیے گئے۔ آج بھی جمہوریت اور آمریت چکی کے وہ دو پاٹ ہیں جن کے درمیان عوام پستے رہتے ہیں۔ دیکھا جائے تو دونوں کے اختیارات کا سرچشمہ ان کے ذاتی مفادات ہیں۔ آج تک ایک بھی فائدہ نہ تو نام نہاد جمہوریت نے دیا اور آمریت تو بولنے تک کی طاقت چھین لیتی ہے۔ بس یہی کہ نقابوں پر نقابیں چڑھی ہیں اور عوام کی آنکھوں پر کھوپے۔

آج بھی عوام روندے ہوئے لوگوں کی طرح سڑکوں پر اپنے حقوق حاصل کرنے کو نکلے ہیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان عوام کی نظروں میں ایک نجات دہندہ کا مضبوط کردار دکھائی دیتے ہیں۔ مگر افسوس! عوامی فیصلوں کی نہ داد ہے نہ فریاد۔ سیاست کی آلودہ ہواؤں نے جس میں سموگ بھی شامل ہے عوام کے ذہنوں کو مفلوج کر دیا ہے اور ہر کوئی حقیقی آزادانہ سوچ سے محروم ہے۔ جو لوگ ایک نظریاتی تحریک کے زیر اثر اپنی قومی اور شخصی آزادی کو حاصل کرنے اس تحریک میں شامل ہیں انہیں کبھی یوتھیا اور کبھی نجانے کیا کیا القابات سے نوازا جاتا ہے۔

اپنا پن جو کبھی ہماری تہذیب کا حصہ تھا اب وہ صرف یادوں کا حصہ ہے۔ سوچیں! یہ سیاست باز تو آتے جاتے رہیں گے۔ یہ وطن ہمارا ہے اور ہم اس وطن سے ہیں۔ اس کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ریاست اور حکومت میں فرق کیا ہوتا ہے۔ سیاست کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاسی طور پر ایک منظم آبادی ریاست کہلاتی ہے۔ حکومت ریاست کا ایک حصہ ہے۔ حکومتیں عارضی ہوتی ہیں یعنی ہر پانچ سال بعد حکومت بدل جاتی ہے مگر ریاست مستقل ہوتی ہے۔

جمہوری مملکتوں میں کم و بیش پانچ سال کے بعد لوگ اپنے ووٹ کے ذریعے حکومت کو بدل سکتے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں کوئی حکومت اپنے پانچ سال پورے نہیں کر سکی۔ کبھی کہیں سے کوئی انوکھا لاڈلا آ جاتا ہے اور کبھی ایک انوکھی لاڈلی آ کر کہتی ہے کہ اگر نواز شریف کو زندگی، صحت، انصاف اور سیکورٹی دیں تو میں انہیں شام کو ہی بلا لوں گی۔ لیں جی نہ وہ شام آئی اور نہ نواز شریف بلکہ وہ خود ہی یہاں سے چلے گئیں کیونکہ اب ان کی اپنی زندگی، صحت اور حفاظت خطرے میں ہے۔

(ایک مبینہ تسنیم حیدر کے تہلکہ خیز بیان و انکشاف ) کے بعد لندن کی فضا بھی اب اس پورے خاندان کے لیے خطرناک ہو گئی لہذا وہ سب کے سب وہاں سے اٹلی کی تحفظ بھری ہواؤں میں ہلکورے لے رہے ہیں۔ ادھر 26 تاریخ کو چیئرمین تحریک انصاف عمران خان صاحب کا پنڈی میں جلسہ تھا۔ یہ جلسہ اسی لانگ مارچ کا حصہ تھا جس میں ان پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا۔ عمران خان نجانے کس مٹی کا بنا ہے جس کی بوڑھی ہڈیوں پر نہ موسم کا اثر ہوتا ہے نہ دشمنوں کے وار کارگر ثابت ہوتے ہیں۔

واکر سے چلتا ہوا ایک 70 سالہ جواں ہمت شخص جو بزرگی کی دہلیز پر کھڑا ہے جب پنڈال میں پہنچتا ہے تو اپنے خطاب میں کہتا میں خون کے آخری قطرے تک اس ملک کے گندے نظام کے لیے لڑوں گا۔ پارلیمانی پارٹی سے مشاورت کر کے اسمبلیوں سے نکلنے کی تاریخ کا اعلان کروں گا۔ ملکی معیشت کے حالات پہلے ہی برے ہیں ہم ملک میں انتشار پھیلا کر مزید بحران کی کیفیت نہیں پیدا کرنا چاہتے۔ انسانوں کے معاشرے میں انصاف ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں جنگل کا قانون اور طاقت کی حکمرانی ہے۔

تاریخ لکھی جا رہی ہے کہ دو خاندانوں نے کس طرح اداروں کو کمزور گیا۔ پاکستانیوں ملک میں قانون توڑ کر مارشل لا لگایا جاتا تھا۔ جب ہم نے 2018 میں اقتدار سنبھالا تو 20 ارب ڈالر کا تاریخی خسارہ تھا۔ ہمارے دور میں کرونا بھی آیا مگر ہم نے معیشت کا سنبھالا دیے رکھا۔ دوست ممالک سے پیسے مانگتے ہوئے مجھے سب سے زیادہ شرم آئی۔ ہمارے احساس پروگرام کو دنیا نے سراہا۔ ہماری حکومت میں 50 سال بعد ڈیم بننے شروع ہوئے۔ آج میں سوال پوچھتا ہوں ہمارا کیا جرم تھا کہ سازش کے تحت ہماری حکومت گرائی گئی۔

میں طاقتوروں اور بڑے چوروں کو قانون کے نیچے نہیں لا سکا۔ مجھے پیغام ملتا تھا احتساب چھوڑیں اکانومی پر توجہ دیں۔ عمران خان نے مزید کہا ہمارے دور میں 32 ارب ڈالر کی ریکارڈ ایکسپورٹ تھی اور مہنگائی 14 فیصد تھی آج مہنگائی 45 فیصد ہے۔ ملک میں بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔ فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں۔ کھانے پینے کی بنیادی اشیا لوگوں کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ آخر میں کہنا چاہوں گی یہ قوم اتنی عظیم اور سخت جان ہے کہ سب ظلموں کے باوجود چلے جا رہی ہے۔ سیاسی افراتفری کی وجہ سے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری بھی شدید خطرے میں ہے۔ آخر یہ طوفان کب تھمے گا؟ ملک میں کب سیاسی استحکام اور شفاف الیکشن ہوں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments