سید عاصم منیر کا عہد!


سردیوں کا مختصر سا دن ہو یا دہکتی گرمیوں کا طویل، سورج کو غروب ہونا ہی ہوتا ہے۔ تین سال ہوں یا توسیع یافتہ چھ برس، ایک دن وردی اتار کر آبنوسی چھڑی نئے سپہ سالار کے حوالے کرنا ہی ہوتی ہے۔ سو! جنرل قمر جاوید باجوہ، اقتدار کلی کے قصر پرشکوہ سے نکل کر، ریٹائرڈ جرنیلوں کے حجرہ بے آب و رنگ میں جا بیٹھے ہیں۔ جاتے جاتے وہ آبنوسی چھڑی کے ساتھ ساتھ پہاڑ جیسا چیلنج بھی سید عاصم منیر کے سپرد کر گئے۔ اپنے آخری رسمی خطاب میں انہوں نے غیر مبہم الفاظ میں، قدرے تفاخر کے ساتھ اعلان کیا کہ فروری 2021 کے بعد سے فوج ’apolitical‘ ہو گئی ہے اور اب اس کا سیاست سے کوئی تعلق واسطہ نہیں۔

اس سے قبل ڈی۔ جی۔ آئی۔ ایس۔ پی۔ آر جنرل بابر افتخار اور ڈی۔ جی۔ آئی۔ ایس۔ آئی، جنرل ندیم انجم یہی بات اپنی مشہور زمانہ پریس کانفرنس میں زیادہ وضاحت اور تفصیل سے کرچکے ہیں۔ واضح کیا گیا کہ یہ کوئی جزوقتی، لمحاتی یا انفرادی نہیں بلکہ ادارہ جاتی فیصلہ ہے جو طویل داخلی مباحثے کے بعد کیا گیا ہے۔ مزید کہا گیا کہ آئندہ بارہ پندرہ برس تک آنے والی فوجی قیادت بھی اس فیصلے میں شریک ہے۔ ایک خلیجی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے جنرل باجوہ نے یقین کامل کے ساتھ اعلان کیا کہ اب پاک فوج صرف اپنے آئینی پیشہ ورانہ کردار تک محدود رہے گی۔

فیصلے اور اعلان کی حد تک یہ ہماری تاریخ کی بہت بڑی پیش رفت ہے لیکن اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک موثر، واضح اور قابل عمل پالیسی تراشنا اور قوم کے دل و ماغ میں راسخ ہو جانے والے تصور کو کھرچ ڈالنا، کار آساں نہیں۔ نئے آرمی چیف کے لئے ایک تاریخ ساز ایجنڈا طے کر دیا گیا ہے اور اس ایجنڈے کی تکمیل، ان کی کارکردگی جانچنے کا سب سے بڑا پیمانہ ہوگی۔ ایک بات طے ہے۔ پاکستان کے لوگ فطرتاً اپنی فوج سے محبت کرتے ہیں۔ اپنے شہیدوں اور غازیوں کو اپنا محسن سمجھتے ہیں۔ فوج کی دفاعی صلاحیتوں کو مستحکم بنانے کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہتے ہیں۔ فوج اور عوام کے مابین اگر فاصلے بڑھے ہیں تو اس کے اسباب ڈھکے چھپے نہیں۔ ان اسباب و محرکات کے تدارک کے لئے فوج جس فیصلے پر پہنچی ہے، اس پر عمل درآمد کے دو پہلو ہیں۔ ایک داخلی اور دوسرا خارجی۔

نئے سپہ سالار کو اپنے رفقا کے تعاون سے جائزہ لینا ہو گا کہ فوج کے اندرونی نظام کی کون سی چولیں کسنے کی ضرورت ہے۔ کون سی باتیں فوج کے وقار کو مجروح کرتی اور چوپالوں کا موضوع بنتی ہیں۔ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹیز کے وسیع و عریض اور مسلسل فروغ پذیر نیٹ ورک، درجنوں صنعتی و کاروباری منصوبے، پلاٹوں کی خریدوفروخت کا کاروبار، پرکشش سول عہدوں کا حصول، مارشل لاؤں کے باعث سول معاملات میں تجاوزات کا معاملہ، عمومی عالمی جمہوری روایات کے برعکس دفاعی بجٹ کا پارلیمنٹ سے پوشیدہ رہنا، ریٹائرمنٹ کے بعد وسیع زمینی رقبوں کا تحفہ اور ایسے دیگر معاملات اور مفادات کا جائزہ لینا ہو گا جن کا دوسرے جمہوری ممالک میں کوئی تصور نہیں۔ شہداء، غازیوں اور جوانوں کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کو خصوصی استثنا دیا جاسکتا ہے۔

اصلاح احوال کا دوسرا اور نہایت اہم پہلو خارجی نوعیت کا ہے جسے ہم سیاسی بھی کہہ سکتے ہیں۔ بلاشبہ تخلیق پاکستان سے ہی اس کا آغاز ہو گیا تھا۔ ایوب خان کا طویل مارشل لاء، یحییٰ خان سے ہوتا ہوا سقوط ڈھاکہ پر منتج ہوا۔ سات دہائیوں پر مشتمل سول ملٹری تعلقات کے عدم توازن نے آج تک پولیو زدہ جمہوریت کو اپنے قدموں پر کھڑا نہیں ہونے دیا۔ مجھے نہیں معلوم فوج کے نزدیک، غیرسیاسی ہونے کا مفہوم کیا ہے؟ قرین قیاس یہی ہے کہ آئندہ ہم کسی سیاسی جماعت کی حمایت و سرپرستی نہیں کریں گے، کوئی سیاسی بت نہیں تراشیں گے، انتخابات میں دخل نہیں دیں گے، حکومتوں کے جوڑ توڑ سے لاتعلق رہیں گے اور معاملات قوم و ملک کی صورت گری عوام کے منتخب نمائندوں کی حکومت پر چھوڑ دیں گے۔

یہ انتہائی اہم اور نہایت ہی خوش آئند اقدامات ہوں گے۔ لیکن جمہوری حکومت یعنی عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل نظام کو پر وقار بنانے کے لئے یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ مہذب ممالک کی روایات کیا ہیں؟ کیا وہاں سفارتی نمائندے آرمی چیف سے مسلسل اور تواتر کے ساتھ ملاقاتیں کرتے ہیں؟ کیا بیرون ملک سے آنے والے عمائدین صدر، وزیراعظم کے علاوہ آرمی چیف سے بھی ملتے ہیں؟ کیا مشاورت کے دائرے سے آگے نکل کر کوئی سپہ سالار اپنی مرضی کی خارجہ پالیسی وضع کر سکتا ہے؟ کیا وہاں فوج کا سربراہ میڈیا میں ریاست و حکومت کے سربراہ جیسی (یا ان سے بڑھ کر ) تشہیر پاتا ہے؟ کیا وزیراعظم یا صدر کی طرح ہر موقع پر آرمی چیف کی طرف سے بھی بیانات جاری ہوتے ہیں؟ یہ فہرست خاصی طویل ہے۔

بہت دور جانے کی ضرورت نہیں۔ گزشتہ بارہ چودہ سال میں جو کچھ ہوا، اس نے عملاً سارے دستوری ڈھانچے کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ نامطلوب افراد کے خلاف مطلوب فیصلے لینے کے لئے وہ کچھ ہوا کہ عدلیہ پر مشرف کا برہنہ حملہ بھی گرد پا ہو گیا۔ ماضی میں شاید ہی یہ تاثر اتنا قوی رہا ہو کہ کہیں اور کے فیصلے کسی اور کے کنج لب سے پھوٹتے ہیں۔ صحافت کو ایسے بے ننگ و نام تجربوں کی لیبارٹری بنا دیا گیا کہ قرطاس و قلم کی آبرو جاتی رہی۔ سیاست کے بعد ایک بت کدہ صحافت میں بھی سجایا گیا۔ بیوروکریسی کبھی اتنی توانا نہیں رہی کہ دستوری نظام اور جمہوری اقدار کی پاسبانی کرتی۔ اس دور میں تو وہ بالکل ہی کاٹھ کا گھوڑا بن کر رہی گئی۔ ریاست کے سبھی عناصر ترکیبی ناتواں اور منتشر ہو گئے۔ نہیں کہا جاسکتا یہ زنجیریں کب اور کیسے کٹیں گی۔ محسن داوڑ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کا چیئرمین ہوتے ہوئے بھی ملک سے باہر نہیں جاسکتا۔ پیچ در پیچ مقدمات میں جکڑے علی وزیر کی خطا معاف ہونے میں نہیں آ رہی۔ لاپتہ افراد کا سراغ پانا محال ہے۔ اس سارے بکھراؤ کو سمیٹنے کے لئے خاصی ریاضت مقصود ہے۔

فوج کے سیاست میں ملوث ہونے کا سب سے زیادہ نقصان خود فوج کو ہوتا ہے۔ لاتعداد ناکردہ گناہ بھی اس کے کھاتے میں لکھ دیے جاتے ہیں۔ زیر سرپرستی قائم ہونے والی نا اہل حکومتوں کی نا اہلیت بھی فوج کے نامہ اعمال کی سیاہی بن جاتی ہے۔ سیاست کی آلائشوں سے پاک، اپنے حلف، آئینی تقاضوں اور پیشہ ورانہ فرائض سے جڑی فوج پر انگلی اٹھانے والوں سے عوام خود نبٹ لیں گے۔

کیا نئے آرمی چیف، جنرل سید عاصم منیر یہ سب کچھ کر پائیں گے؟ فوج پہلے ہی ایک فیصلہ کرچکی ہے، اسی لئے انہیں یقیناً اپنی سپاہ سے بھرپور تعاون ملے گا۔ عوام اور جمہوری فکر کے حامل سیاستدان ان کے شانہ بہ شانہ رہیں گے۔ میڈیا کی توانائیاں ان کا دست و بازو بنیں گی۔ اللہ کے فضل وکرم سے تین سال بعد وہ ایک ایسے سپہ سالار کے طور پر رخصت ہوں گے جو تاریخ میں دیر تک زندہ رہے گا۔ یہ تین سال سید عاصم منیر کا ”عہد“ قرار پائیں گے۔ خدانخواستہ ایسا نہ ہوا تو وہ سولہویں کے بعد محض سترہویں کے طور پر جانے جائیں گے اور ایک دن ریٹائرڈ جرنیلوں کے حجرہ بے آب و رنگ میں جا بیٹھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments