جنگ عظیم اول۔ اسباب اور نتائج


20 صدی کے آغاز تک یورپی اقوام پچھلے 30 سال سے نسبتاً باہمی امن سے رہی تھیں۔ 19 ویں صدی کے وسط سے یورپی رہنما اور مختلف امن تنظیمیں یورپ میں جنگوں سے گریز اور مستقل امن کے قیام کے لیے کوشاں تھیں۔ جس کے باعث عمومی تاثر یہ بن گیا تھا کہ مادی اور فکری ترقی نے یورپ میں جنگوں کے کلچر کا خاتمہ کر دیا ہے مگر 20 ویں صدی کی دوسری دہائی میں یورپ ایک ایسی جنگ سے دوچار ہوا۔ جس کو جنگ عظیم کا نام دیا گیا۔ کیونکہ یہ یورپ سے باہر تک پھیل گئی۔

یورپ میں جنگی تناؤ کے اسباب۔

20 ویں صدی کے آغاز میں یورپ میں بظاہر امن نظر آ رہا تھا مگر اس کے عقب میں کچھ امن مخالف عوامل یا قوتیں بھی موجود تھیں جن نے بالآخر متحرک ہو کر براعظم کو جنگ میں دھکیل دیا۔

1۔ ان میں ایک بڑا عامل قوم پرستی تھا۔ صدی کے شروع ہوتے ہوئے یورپ کی بڑی طاقتوں ( جرمنی، آسٹریا ہنگری، برطانیہ، روس، اٹلی فرانس) کے مابین شدید قوم پرستانہ رقابت پیدا ہو گئی۔ اس رقابت کا ایک اہم محرک منڈیوں کے لیے مسابقت تھی۔ دوسرا سرحدی تنازعات تھیں۔ مثلاً فرانس کو اپنے علاقوں (ایلسیے اور لوراین) پر جرمنی کے قبضہ کا غصہ تھا۔ آسٹریا ہنگری اور روس کے درمیان بلقان پر غلبے کے سلسلے میں کشمکش تھی۔ بلقان میں مختلف قوموں اور نسلی گروہوں ( سرب، بلغاری، رومینی وغیرہ) کی طرف سے آزادی کے مطالبات کیے جا رہے تھے

2 سامراجیت۔ یورپ میں جنگ کا ایک اور عامل سامراجیت تھا۔ افریقہ اور ایشیاء میں کالونیوں کے لیے یورپی اقوام کے مابین شدید کشمکش تھی۔ سمندر پار مقپوضات کے لیے ہونی والی مسابقت کے باعث یورپی ممالک میں باہمی بداعتمادی گہری ہوتی گئی

3۔ اسلحہ کی دوڑ۔ ایک اور سبب 20 ویں صدی کے ابتدائی سالوں میں یورپ میں اسلحہ کی خطرناک دوڑ تھی۔ طاقتور فوج رکھنا عظمت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ 1914 تک برطانیہ کے علاوہ تمام بڑی طاقتوں نے بڑی بڑی فوجیں بنا لی تھیں۔

4۔ مختلف اتحاد۔

1870 کی دہائی سے یورپ کی بڑی طاقتیں باہمی رقابتوں اور بداعتمادی کے باعث مختلف فوجی اتحاد قائم کرتی چلی آ رہی تھیں۔ اس اتحادی بندوبست کا مقصد یورپ میں طاقت کے توازن سے قیام امن کو یقینی بنانا تھا۔ مگر بعد میں اتحادوں کا یہ رجحان جنگ کا ایک سبب بنا۔

ا) بسمارک اور اتحاد۔ 1864 تا 1871 کے دوران پرشیا کے چانسلر ”بسمارک“ نے جرمنی کو متحد کرنے کے لیے ”خون اور لوہا“ نام کی پالیسی پر عمل کیا۔ 1871 میں جرمنی کو متحد کرنے کے بعد سے وہ یورپ میں امن قائم کرنے پر متوجہ ہوا۔ ”بسمارک“ فرانس کو امن کے لیے بڑا خطرہ سمجھتا تھا۔ اس کو خدشہ تھا کہ فرانس پرشیا سے اپنی شکست کا بدلہ لینے کی کوشش کرے گا۔ اس لیے فرانس کو تنہا کرنے کے مقصد کے تحت اس نے آسٹریا ہنگری ”سے اتحاد کر لیا۔ چند سال بعد اس میں“ اٹلی کی شمولیت سے یہ ”سہ فریقی اتحاد“ بن گیا۔ 1881 میں ”بسمارک“ نے روس کے ساتھ معاہدہ کر لیا۔

ب) بدلتے اتحاد۔ امن کے لیے خطرہ۔ 1890 میں جرمنی کی پالیسی ڈرامائی طور پر تبدیل ہو گئی۔ جرمنی میں جب ولیم دوم ”قیصر بن گیا تو اس نے بسمارک کو ہٹایا۔ ہٹ دھرم“ ولیم ”کو جرمنی کی طاقت دکھانے کا جنون تھا۔ اس نے 1890 میں روس سے معاہدہ ختم کر دیا۔ ردعمل کے طور پر روس نے فرانس کے ساتھ دفاعی اتحاد کر لیا۔ یہ ایسا اتحاد تھا جس کا بسمارک کو خدشہ تھا۔ کیونکہ ان دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ جنگ میں پڑنے پر جرمنی کو دونوں کی دشمنی سے سابقہ پڑنا تھا

ولیم دوم ”کا جرمنی بحریہ کو طاقتور بنانے کے عمل نے“ برطانیہ کو تشویش میں مبتلا کر دیا اور اس کے تحت فرانس سے اتحاد کر لیا۔ 1907 میں برطانیہ نے فرانس اور روس سے ایک اور اتحادی معاہدہ کے تحت یہ یقین دہانی کرائی کہ وہ روس اور فرانس کے خلاف جنگ نہیں کرے گا۔ یوں 1907 تک یورپ میں دو مخالف کیمپ بن گئے تھے ایک جرمنی، آسٹریا ہنگری اور اٹلی کا سہ فریقی اتحاد تھا اور دوسرا برطانیہ، فرانس اور روس کا اتحاد تھا۔

بلقان کا بحران۔ 5

یورپ کے جنوب مشرقی سرے کا پہاڑی جزیرہ نما خطہ ( بلقان) مختلف اقوام اور نسلی گروہوں کی آماجگاہ تھا۔ قومی بغاوتوں اور نسلی فسادات کی طویل تاریخ رکھنے کے باعث بلقان کا خطہ یورپ کا بارودی آتش فشاں گردانا جاتا تھا۔ 20 صدی کے آغاز تک سلطنت عثمانیہ ( بلقان کا جس کا حصہ تھا) روبہ زوال تھا۔ بلقان کے بعض اقوام جیسے بلغاریہ، یونان، مانٹو نیگرو، رومانیہ اور سربیا ترکوں سے آزادی حاصل کر کے الگ ریاستیں بنا گئیں تھیں۔ جبکہ بقیہ بعض گروہ اس سے آزادی کے لیے جدوجہد کر رہی تھیں۔ ان گروہوں کا طاقت ور محرک قوم پرستی تھا۔ ترکوں سے آزادی حاصل کرنی والی اقوام اپنی سرحدیں وسیع کرنے کی خواہاں تھیں۔

سربیا جزیرہ بلقان کی تمام ہم نسل۔ ”سلاوک“ آبادی کو اپنے ملک کا حصہ بنانا چاہتا تھا۔ روس سربیا کے اس قوم پرستانہ سوچ کا حامی تھا۔ جبکہ سربیا کا طاقتور شمالی ہمسایہ ”آسٹریا ہنگری سلطنت“ سربیا کی ایسی کاوش کے خلاف تھا کیونکہ اس کو خدشہ تھا کہ سلاوک ریاست کی تشکیل سے اس کی سلطنت میں موجود سلاوک آبادی آمادہ بغاوت یو جائے گی۔ 1908 میں آسٹریا نے بوسنیا اور ہرزیگوونیا پر قبضہ کر لیا۔ یہ سلاوک آبادی کے اکثریتی علاقے تھے۔ آسٹریا کے اس اقدام نے سرب رہنماؤں کو مشتعل کر دیا جس کی وجہ سے اگلے سال ان کے درمیان تناؤ بڑھ گیا۔

فوری سبب۔ 6

باہمی عناد کی اس فضا میں 28 جون 1914 کو آسٹریا ہنگری کے ولی عہد ”ڈیوک فرڈیننڈ“ اور اس کی بیوی کو بوسنیا کی دارالحکومت ”سرجوا“ کے دورے کے دوران ایک سرب نوجوان نے ہلاک کر دیا۔ جو جنگ کا فوری سبب بنا۔ اسی واقعہ پر مشتعل ہو کر آسٹریا نے 28 جولائی کو سربیا کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے یورپی طاقتوں کی امن کاوشیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ اور یورپ کو ایک بڑی جنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ 1914 تک یورپ چونکہ دو مخالف اتحادی کیمپوں میں تقسیم تھا۔ سربیا کے خلاف آسٹریا کے اعلان جنگ سے دونوں اتحادی کیمپوں کو اتحادی معاہدوں کے تحت ایک دوسری کی مدد کے باعث تقریباً سارے یورپ کو تباہ کن جنگ میں شریک ہونا پڑا۔ سربیا کی حمایت کے لیے روس نے اپنی فوجوں کو آسٹریا کے علاوہ جرمنی کی سرحد پر بھی متحرک کر لیں۔ جس کے ردعمل میں جرمنی نے یکم اگست 1914 کو روس کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ دو دن بعد جرمنی نے فرانس کے خلاف بھی جنگ کا اعلان کر دیا۔ اس کے ساتھ برطانیہ نے بھی جرمنی کے خلاف جنگ شروع کردی۔ برطانیہ کے ساتھ اس کی ڈومینین ریاستیں ( آسٹریلیا۔ نیوزی لینڈ۔ اور جنوبی افریقہ) بھی مددگار رہیں۔ بلقان کے خطے میں ”سربیا“ روس کا اتحادی تھا جبکہ وسطی طاقتوں ( جرمنی اور آسٹریا ہنگری) کے کیمپ کے ساتھ بلغاریہ اور سلطنت عثمانیہ شامل ہو گئے جبکہ دوسری اتحادی کیمپ ( برطانیہ، روس اور فرانس) کی حمایت میں جاپان اور کچھ عرصے بعد اٹلی آ گئے۔)

یورپ میں زمینی محاذ دو تھے۔ مغربی محاذ پر جرمنی فرانس کے خلاف لڑ رہا تھا اور مشرقی محاذ ہر وہ روس سے نبرد آزما تھا۔ بحری جنگ کا محاذ زیادہ تر شمالی بحر اوقیانوس رہا جہاں جرمنی اور برطانیہ باہمی مقابل تھے۔ اگرچہ جنگ کا میدان زیادہ تر یورپ رہا تاہم جلد یہ ایشیا، مشرقی وسطی اور افریقہ تک بھی پھیل گیا۔ مشرقی وسطی میں برطانیہ نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف عرب قومی تحریکوں کی سرپرستی کر رہا تھا۔ اس سلسلے میں اہم کردار مشہور برطانوی ایجنٹ ”ٹی اے لارنس“ کو سونپا گیا تھا۔ 1914 ہی میں جاپان نے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا اور اس کے چین اور اور بحرالکاہل کے مقپوضات پر قبضہ کر لیا۔ جبکہ برطانیہ اور فرانس نے افریقہ میں جرمنی کے چار مقپوضات پر حملہ کر دیا۔ ایشیا اور افریقہ میں اپنی جنگی مہمات کے لیے برطانیہ اور فرانس سپاہی اپنی کالونیوں ( انڈیا، جنوبی افریقہ، سنیگال، مصر، الجیریا اور ہند جینی) سے بھرتی کراتے تھے۔ برصغیر نے اپنے برطانوی حاکموں کے لیے تقریباً 13 لاکھ ( سپاہی اور مزدور فراہم کیے جو فرانس، افریقہ اور مشرقی وسطی کے محاذوں پر لگائے گئے) ۔ جنوبی امریکہ میں صرف برازیل واحد ملک تھا جو جنگ میں شریک ہوا۔ یہ اتحادیوں کا حامی تھا۔ آسٹریا اور جرمنی کا خیال تھا کہ وہ برق رفتاری سے فتح حاصل کریں گے اور یوں جنگ کا جلد خاتمہ ہو جائے گا۔ مگر ان کا اندازہ غلط نکلا۔

مغربی محاذ پر جرمنی نے بیلجیئم پر قبضہ تو کر لیا لیکن ”پیرس“ کی طرف پیش قدمی کے موقع پر تعطل پیدا ہوا۔ تین سال تک فریقین کے درمیان خندقوں ( مورچوں) سے شدید لڑائی ہوتی رہی جس میں لاکھوں سپاہی مارے گئے۔ مغربی محاذ موت کا میدان بن گیا تھا۔ یہ محاذ شمالی بحیرہ سے سوئٹزرلینڈ تک تقریباً 500 میل تک علاقے پر پھیلا تھا۔ یہ قتل گری 1918 میں عروج پر پہنچی اسی سال صرف فروری کے مہینے میں جرمنی کا فرانس پر حملے کے دوران دونوں فریقین میں ہر ایک اپنے 3 لاکھ فوجی مروا بیٹھا۔ سال کے اخیر تک ہر فریق کے 5 لاکھ سے زیادہ فوجی شکار ہوئے۔

مغربی محاذ پر بے پناہ جانیں مروانے کے باوجود دونوں فریق مشرقی محاذ پر بھی لاکھوں کی تعداد میں سپاہی بھیج رہے تھے۔ اگرچہ اس محاذ پر روس کی پوزیشن زیادہ تر کمزور رہی تاہم اپنی بڑی آبادی کے باعث مزید سپاہی فراہم کرنا اس کے لیے زیادہ مسئلہ نہیں تھا۔ مسلسل تین سال تک جرمنی کو اس محاذ پر الجھائے رکھا۔ یوں کئی سال تک شدید قتل و غارت اور تعطل اس محاذ کا بھی خاصہ رہا۔ ۔

اتحادیوں نے فرورئی 1915 میں قسطنطنیہ (ترکی) کے بحری راستے ”ابنائے داردانیلس“ پر قبضہ کرنے کی مہم شروع کی۔ ابنائے کے جنوبی جانب واقع جزیرہ نما ”گیلی پولی“ پر مسلسل حملے کیے مگر ترک فوج کے سخت دفاع کے باعث اتحادی کامیاب نہ ہو سکے اور دسمبر 1915 میں قریبا ڈھائی لاکھ فوجی جانوں ( جن میں زیادہ تر آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے تعلق رکھتے تھے) کے ضیاع کے بعد اس مہم کو ترک کرنے پر مجبور ہوئے۔ جنگ میں امریکہ کی شرکت۔ 1917 میں جنگ کا فوکس بڑے سمندروں کی جانب منتقل ہو گیا۔ شمالی بحر اوقیانوس میں جرمنی نے جنگی آبدوزوں سے بے دریغ حملوں کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اس پر امریکہ کو تشویش تھی۔ کیونکہ بحری جہازوں پر ان حملوں سے امریکی شہریوں کا جانی اور مالی نقصان ہو رہا تھا۔ امریکی صدر کی تنبیہ کے باوجود جرمنی نے کان نہیں دھرے۔ جب جرمنی نے امریکہ کے تین بحری جہاز ڈبو دیے تو اپریل 1917 میں ”صدر ولسن“ کا کانگریس کی تائید سے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ سے امریکہ اتحادیوں کی طرف سے جنگ میں کود پڑا۔ جنگ میں امریکہ کے در آنے سے پلڑا اتحادیوں کے حق میں دکھائی دینے لگا۔ اگرچہ اس سے پہلے روس میں ہونے والے واقعات ( زار روس کی تخت سے دستبرداری) نے مشرقی محاذ پر جرمنی کی کامیابی کی راہ ہموار ہوئی

مارچ 1917 میں زار روس کی جگہ لینے والی عبوری حکومت اگرچہ جنگ جاری رکھنے کے حق میں تھی مگر جنگ سے نڈھال روسی فوج مزید لڑنے سے انکاری تھی۔ نومبر 1917 میں وہاں بالشویک انقلاب آیا۔ نیا قائد ”لینن“ جنگ کے خاتمے کے حق میں تھا۔ چنانچہ مارچ 1918 میں روس اور جرمنی نے ”بریسٹ لٹوفیسک“ سمجھوتے کے تحت باہمی جنگ کا خاتمہ کر دیا۔ روس کا جنگ سے دستبرداری کے بعد رومانیہ بھی مئی 1918 میں جرمنی سے معاہدہ کر کے جنگ سے نکل گیا۔ مشرقی محاذ پر جنگ سے روس اور رومانیہ کی کنارہ کشی کے بعد جرمنی نے تقریباً اپنی تمام فوج مغربی محاذ پر لگا دی اور مارچ 1918 میں فرانس پر آخری بڑا حملہ کر دیا۔ مئی کے اخیر تک اس سے ”پیرس“ صرف 40 میل دور تھا۔ مگر اس مہم جوئی میں جرمنی افواج تھک چکی تھیں۔ وسائل کی سپلائی مشکل ہو رہی تھی۔ اسی صورت حال میں اتحادیوں نے بمعہ ایک لاکھ 40 ہزار تازہ دم امریکی افواج کے ساتھ جوابی حملہ کر دیا۔ جولائی 1918 میں فریقین کے درمیان ”مارن“ کی دوسری لڑائی جاری تھی۔ 2 لاکھ مزید امریکی کی آمد سے اتحادی بتدریج جرمنی کی طرف بڑھنے میں کامیاب ہونے لگے۔ اور جلد ہی وسطی طاقتیں ڈانوں ڈول ہونے لگیں۔ بلغاریوں کے بعد عثمانی ترک سرنگوں ہو گئے۔

اکتوبر 1918 میں آسٹریا بادشاہت کے خلاف اندرونی انقلاب برپا ہوا۔ جرمنی میں فوجی اور عام شہری قیصر جرمنی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ 9 نومبر 1918 کو قیصر کو ہٹا کر جرمنی کو جمہوریہ قرار دیا گیا۔ نئی حکومت کے نمائندوں نے فرانسیسی کمانڈر ”مارشل فوش“ سے مل کر جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ یوں 11 نومبر 1918 میں جنگ عظیم اول کا اختتام اتحادیوں کی فتح پر منتج ہوا۔

جنگ کے نتائج اور اثرات۔

1۔ جانی نقصان۔ 85 لاکھ فوجی ہلاک ہوئے۔ 2 کروڑ سے زخمی ہوئے۔ جبکہ قحط۔ بیماریوں اور قتل و غارت سے مرنے والے عام شہریوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔

2۔ صنعت اور زراعت پر تباہ کن اثرات پڑنے سے یورپ کو شدید معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ یورپی صنعتی نظام کی تباہی کے باعث عالمی مارکیٹ پر امریکہ اور جاپان کا قبضہ ہو گیا۔

3۔ اس ہولناک جنگ نے یورپی معاشرے میں عدم تخفظ اور مایوسی کے احساسات پھیلا دیے۔ عقل، ترقی اور اعلی اقدار سے متعلق توقعات پر اعتماد متزلزل ہو گیا۔ جس کا اظہار اس دور کے یورپی ادب و فن میں کیا گیا۔ تین سلطنتوں ( روس، آسٹریا ہنگری، اور عثمانی ترک کا خاتمہ ہوا اور یورپ کا سیاسی نقشہ بدل گیا

جنگ کے بعد جنوری 1919 میں منعقد ہونی والی ”پیرس امن کانفرنس“ میں طے کیے جانے والے 5 معاہدات کے تحت یورپ میں بڑی اہم جغرافیائی تبدیلیاں لائی گئیں۔ آسٹریا سلطنت سے کئی علاقے الگ کر کے تین نئی آزاد ریاستیں۔ ہنگری، چیکوسلاوکیہ، اور یوگوسلاویہ بنا دی گئیں۔ اسی طرح روس سے کچھ علاقے لے کر رومانیہ اور پولینڈ میں شامل کیے گئے۔ جبکہ فین لینڈ، اسٹونیا، لیٹویا اور لتھونیا کو روس سے الگ کر کے آزاد ریاستوں کی حیثیت دی گئی۔ مگر ایشیائی، افریقی اور لاطینی امریکہ کی اقوام کو حق خودارادیت دینے کے بجائے فاتحین کے زیر نگرانی رکھے

معاہدہ سیورس ”کے تحت ترکی سلطنت کا خاتمہ کر کے“ اس کے جنوب مغربی علاقوں میں لبنان اور شام کو فرانس جبکہ اردن، فلسطین اور عراق کو برطانیہ کے کنٹرول میں رکھا گیا۔

حجاز کی ساحلی پٹی کے علاوہ، جہاں پر شریف حسین مکہ کو سلطان بنایا گیا باقی تمام عرب خطہ یورپی تسلط میں رہا۔ ترکی کے پاس صرف ایشیا کوچک کے کچھ علاقے رہنے دیا گیا۔

پیریس کانفرنس کا سب سے اہم معاہدہ جرمنی سے متعلق معاہدہ ورسیلز ”تھا۔ جس کے تحت جرمنی پر کڑی بلکہ“ تضحیک آمیز شرائط عائد کی گئیں۔ اس کو نہ صرف بعض علاقوں اور افریقی اور مشرقی ایشیا کے مقپوضات سے محروم کر دیا گیا بلکہ بھاری تاوان جنگ عائد کرنے کے علاوہ اس کو بے جان قسم کی فوج رکھنے کا بھی پابند کر دیا۔ اگرچہ اس پیرس کانفرنس نے ”لیگ اف نیشن“ کے نام سے ایک تنظیم بھی تشکیل دی جس کا ایک اہم مقصد اجتماعی سیکورٹی اور تخفیف اسلحہ کے ذریعے آئندہ جنگوں کی رک تھام اور بین الاقوامی تنازعات کو مذاکرات سے حل کرنا تھا مگر یہ تنظیم اپنے بنیادی مقصد ( جنگوں کی روک تھام کے حوالے سے زیادہ موثر ثابت نہ ہو سکی۔

معاہدہ ورسیلز کے وقت اگرچہ حالات کے تحت جرمنی کو ان کے عائد کردہ کڑی شرائط اور پابندیوں اور ہتک آمیز۔ سلوک کو برداشت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا تاہم جرمنوں کو اپنے ساتھ یہ اپنے ساتھ ہونے والا سلوک گوارا نہ تھا جس کا ردعمل جلد جرمن قوم پرستی کی طرف سے آنے لگا۔ اگلی دہائی میں ہٹلر اس کا انتہا پسند ترجمان بن کر ابھرا۔ دوسری جنگ عظیم کا ایک سب سے بڑا سبب معاہدہ ورسیلز کے تحت جرمنی سے روا رکھا گیا سلوک تھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments