کار سے اترے تو شان میں کمی ہو جائے گی


پوش علاقوں کے رہنے والے ایلیٹ اور اپر کلاس کے لوگوں کی دو منٹ کی سہل پرستی نے انہی علاقوں کے کونوں کھدروں اور ان سے ملحقہ علاقوں میں رہنے والی مڈل کلاس گھرانوں کی ایک وقت کی ہنڈیا بنانا مشکل کی ہوئی ہے۔ میں ان واقعات کا کوئی درجن بھر سے زائد بار عینی شاہد ہوں، اور اس تواتر سے ان واقعات کا مشاہدہ کر رہا ہوں کہ کڑھ کڑھ کر آخر کار اس پر لکھنے کے لئے مجبور ہو گیا ہوں۔

گزشتہ ہفتے میں اپنی سوسائٹی کے مین گیٹ کے پاس واقع دکان سے سبزی لینے گیا تو میرے موٹر سائیکل کو بریک لگاتے اور اترتے اترے تصویر میں نظر آنے والی اس گاڑی نے دکان کے عین سامنے بریک لگائی۔ کار کو ایک ماڈرن قسم کی لڑکی ڈرائیو کر رہی تھی جبکہ برابر کی سیٹ میں ایک نفسی سی خاتون بیٹھی تھیں، غالباً یہ خاتون کار چلانے والی لڑکی کی والدہ لگ رہی تھیں۔ کار دیکھتے ہی دکاندار نے کار کی طرف دوڑ لگائی، دکاندار کے پہنچنے پر لڑکی نے انگلی کی جنبش سے کھڑکی کا خودکار شیشہ ہلکا سا نیچے کیا۔ دکاندار جس طرح سے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگ کر کار کے قریب گیا یہ بالکل کمپیوٹرائزڈ عمل لگ رہا تھا، اور واضح نظر آ رہا تھا کہ کار والیوں اور دکاندار کے درمیان یہ پریکٹس پہلے بھی کافی بار ہو چکی ہے، دکاندار نے خوشی خوشی سلام کیا۔

اب خاتون کا سبزی فروش سے مکالمہ کچھ ایسا تھا،

وعلیکم اسلام۔ ایسا کرو، 5 کلو ٹماٹر دے دو، 5 کلو پیاز، 5 کلو آلو، 1 کلو ادرک دے دو۔ فروٹ میں 2 کلو سیب، 2 درجن کیلے، 1 کلو انگور بھی پیک کر دو۔ اور 100 کے روپے کی ہری مرچیں اور دھنیا بھی دے دینا۔

یہ کہہ کر خاتون نے گاڑی کا شیشہ چڑھا دیا کہ اے سی کی کولنگ باہر نکل رہی تھی۔

دکاندار نے چھوٹے کو ملا کر سب کچھ پیک کیا، اپنے سامنے رکھا اور لگا کیلکولیٹر پر حساب کرنے اور کاغذ پر لکھنے۔ گرینڈ ٹوٹل کر کے سامان اٹھا کر کار کی پچھلی سیٹ پر رکھا، خاتون سے پیسے لیے، تھوڑے سے پیسے (تقریباً 40 یا 50 روپے تک) جو بقایا بنتے تھے، خاتون نے وہ بھی لینے گوارا نہیں کیے، کار کے ٹائر چرچرائے اور خاتون یہ جا اور وہ جا۔

حساب کرتے وقت میں نے اپنی پوری توجہ دکاندار کی جانب مرکوز کر رکھی تھی، اس دکاندار نے خاتون کو ٹماٹر 380 روپے کلو کے حساب سے فروخت کیے تھے اور مجھے یہ بات بہت اچھی طرح یاد تھی۔ اب دکاندار میری جانب متوجہ ہوا۔ جی چھوٹے ویر جی حکم کرو۔ دکاندار نے مجھ سے کہا۔ میں نے فوراً کہا یار تم نے ریٹ لسٹ تو لگائی نہیں، ریٹ لسٹ دکھاؤ مجھے۔ دکاندار نے بڑی ہی ناگواری کے ساتھ پیسوں والے لوہے کے گلے سے تہہ کی ہوئی ریٹ لسٹ نکال کر مجھے تھما دی

میں نے ٹماٹر کا ریٹ پوچھا تو دکاندار نے جواب دیا ویر جی، 280 روپے ریٹ ہے آپ کو 260 لگا دیں گے، ہور دسو۔

میرے صرف موٹر سائیکل سے اتر کر آنے اور ٹماٹر کا ریٹ پوچھنے سے ٹماٹر 380 سے 260 کا ہو گیا اور ابھی بھی دکاندار یقیناً اپنا مارجن رکھ کر ہی فروخت کر رہا تھا۔

ایلیٹ اور اپر کلاس کے اس عمل نے پوش علاقوں کے تمام کے تمام سبزی فروشوں کو اس حد تک شیر اور چھری مار کر دیا ہے کہ وہ اپنی دکان پر آنے والے ایک ایک گاہک کو اسی نظر سے دیکھتے اور اسی چھری سے کٹ لگاتے ہیں جو چھری وہ ایلیٹ اور اپر کلاس کو پھیرتے ہیں، ان کو بخوبی علم ہے کہ گاہک کار سے اترتا نہیں، ریٹ لسٹ چیک کرتا نہیں، ریٹ پوچھنا تک گوارا نہیں کرتا تو ہم کیوں نا اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئیں۔ دکاندار ایلیٹ، اپر اور مڈل کلاس میں کوئی فرق نہیں کرتا، وہ مڈل کلاس گاہک کے بارے میں بھی یہی سوچ رکھ کر اس کے ساتھ برتاؤ کرتا ہے کہ جیسے اس کا اس جگہ پر مکان ہونا اس بات کی علامت ہے کہ اس کے مکان کی قیمت کے برابر اس کی روز کی کمائی گھر آتی ہی ہو گی، بھلے وہ اس سوسائٹی کے کسی کونے کھدرے، کسی انڈر ڈویلپ بلاک میں بمشکل مکان بنا پایا ہو، یا بھلے وقتوں میں اس نے جیسے تیسے کر کے پلاٹ یا مکان کا بندوبست کر لیا ہو

ہم جو ساری زندگی سبزی کے ساتھ دھنیا اور ہری مرچیں جھونگے میں لیتے رہے ہیں، اپر کلاس نے تو 100 روپے کی ہری مرچیں اور دھنیا سبزی کے ساتھ لے لے کر، مڈل کلاس سے یہ حق بھی چھین لیا ہے کیونکہ دکاندار کو انہوں نے نئی راہ جو دکھلا دی ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اب ان علاقوں میں دکاندار سے اگر کہو کہ ہری مرچیں اور دھنیا بھی دے دینا تو اس کا فوراً سوال یہی ہوتا ہے کہ باؤ جی کتنے کا؟ اچھا اگر کہہ بھی دیں کہ اتنے کا دے دو تو اگلا سوال ہوتا ہے باؤ جی مرچیں کتنے کی؟

میرا آفس لاہور سے باہر مضافات میں ہے، ایک طرح سے آپ گاؤں ہی کہہ لیں، ایک بار میں آفس سے نکلا تو دیکھا ایک لوڈر رکشے میں ایک شخص پیاز بیچ رہا ہے، رہٹ ان کا 60 روپے کلو تھا، میں نے 5 کلو پیاز خرید لیے۔ اس روز گھر جانے سے پہلے پہلے میں نے اپنی سوسائٹی کے سارے دکانداروں سے پیاز کا ریٹ پوچھا تو سب نے کہا ویر جی 160 روپے کلو ہیں آپ کو 150 لگا دیں گے۔ اس روز مجھے یہ بھی تجربہ ہو گیا کہ سوسائٹی کے اندر اور باہر بیٹھے ان سب دکانداروں نے ایکا کیا ہوا ہے اور سب مل کر لوٹ رہے ہیں ایک ہی ریٹ بنا کر۔

دوستو میں سوسائٹی کے باہر دکانوں سے سبزی لینے شازو نادر ہی جاتا ہوں، یا اگر جاؤں بھی تو مجھے ایک ایک چیز کا سرکاری ریٹ معلوم ہوتا ہے، تصویر میں نظر آنے والی دکان پر بھی میں شاہد دوسری یار یا شاید تیسری بار گیا ہوں گا، لیکن اس روز اس دکاندار نے مجھے یہی کہا کہ باؤ جی آپ نے جو لینا ہوا لے لیا کریں لیکن شور نا ڈالا کریں، میرے گاہک بھاگ جاتے ہیں۔ کیوں؟ صرف اس لیے کہ میں جانچ پڑتال کرتا ہوں، آنکھیں بند کر کے یقین نہیں کرتا۔ مجھے اگر ٹماٹر لینے ہیں تو مجھے سبزی منڈی کے ریٹ سے لے کر عام بازار اور ایلیٹ سوسائٹیز کے ریٹس بھی پتہ ہوں گے

دوستو! میں ایلیٹ اور اپر کلاس سے کہنا چاہتا ہوں، صرف اور صرف اتنی درخواست ہے، پلیز، تھوڑی پوچھ گچھ، جانچ پڑتال کر لیا کریں، ریٹس ضرور پوچھیں، کار سے اتر کر دکان کے اندر تک آئیں، آپ کے اس عمل سے دوسرے بہت سارے لوگوں کا، گھرانوں کا بھلا ہو جائے گا، دکاندار قابو میں آ جائے گے۔ صرف اس وجہ سے کہ ریٹس پوچھنے سے یا کار سے اتر کر آنے سے آپ کی شان پر کوئی فرق آ جائے گا، دوسرے متعدد گھرانوں کا کچن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments