ابوالکلام آزاد کو اب بخش دینا چاہیے


ذوالفقار احمد چیمہ معروف کالم نویس، ادیب، اور مزاح نگار ہیں۔ معروف اس لیے لکھا ہے کہ یہاں ہر قلیم گھسیٹ معروف اور ہر تجزیہ کار سینیئر ہے۔ چیمہ صاحب کی نیک نامی کی وجہ ان کی پولیس کے لیے وہ خدمات ہیں جو تاریخ کے قرطاس پر دائمی نقوش چھوڑ چکی ہیں۔ تاہم کچھ ناہنجار اس بات پہ معترض ہیں کہ آپ غیر قانونی پولیس مقابلوں میں لوگوں کو مار دیتے تھے، ایسے لوگوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے کہ قنوطی ذہن ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔

خامہ فرسا چوں کہ مثبت ذہن رکھتا ہے اس لیے ان کے غیر قانونی پولیس مقابلوں ایسے معمولی جرائم کچھ حیثیت نہیں رکھتے۔ میری ان سے محبت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کا گاؤں میرے گاؤں سے فقط ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس لیے رواداری کا تقاضا ہے کہ ان کے ہر لفظ و عمل کو پارسا گردانا جائے۔

ان دنوں آپ مختار مسعود صاحب کی تحریروں پر کالم لکھ رہے ہیں۔ مختار صاحب کے پر لکھے جانے والے کالم کے دوسرے حصے میں ان کا ایک جملہ نقل کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں کہ ”ایک مسلم رہ نما کو جس قدر گاندھی پر ایمان تھا اسی قدر اگر اللہ پر ہوتا تو وہ ولی ہوتے“ ، سب سے پہلے تو گاندھی جی کا نام لکھنے کا طریقہ دیکھیے کہ کیسے ایک گلی کھلنڈرے لونڈے کی طرح ان کا نام لکھا جا رہا ہے۔ کیا یہاں یہ شکوہ کیا جا سکتا ہے کہ گاندھی جی کو وہ عزت نہیں دی جاتی جس کے وہ مستحق ہیں؟ شاید نہیں، کیوں کہ عزت کا مستحق صرف وہ ہو ہو گا جو ہمارا ہم مذہب ہے یا تھا۔

مگر ابوالکلام کے بارے میں تو یہ رویہ بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ گاندھی جی پر ایمان رکھنے والے مسلم رہ نما کون تھے؟ نام لکھنے کا شاید انہیں حوصلہ نہ تھا۔ مگر ہم بتائے دیتے ہیں۔ یہ بات مولانا ابوالکلام آزاد کی ہو رہی ہے۔ مولانا ہر اس دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں جو مسلم لیگ کا شیدا ہے۔ ان پر طعن و تشنیع ہر مسلم لیگی کے ایمان کا جز لاینفک ہے۔

ان ایسوں کا ایمان تب تک کاملیت کے درجے کو نہیں پہنچتا جب تک مولانا  محی الدین ابو الکلام آزاد پر دشنام کا کیچڑ نہ اچھالا جائے۔ یہ جب کیچڑ اچھالتے ہیں تو خود ہی اپنے لباس کو داغ دار کرتے ہیں، کیوں کہ مولانا کی صفات کی سنگین فصیل ان کی ذات تک کیچڑ پہنچنے ہی نہیں دیتی۔ کوئی اگر گالی دے تو جواب میں فقط خاموشی اختیار کی جائے تو یہ صفت نہیں تو اور کیا ہے۔

سنتے ہیں کہ مسلم لیگ کے ایک بڑے رہ نما نے مولانا کو گالی دی تھی، کسی ممدوح نے عرض کی کہ مولانا مخالف کو گالی کا جواب ملنا چاہیے، مگر وہ فرشتہ صفت کہہ سکا تو صرف اتنا کہ مجھے گالی دے کر انہوں نے اپنی عزت میں کون سا اضافہ کر لیا ہے۔ مسلم لیگ کے یہ رہ نما کون تھے اور گالی کیا تھی، آغا شورش کی کتاب ”ابوالکلام آزاد“ میں پڑھی جا سکتی ہے۔

ابوالکلام آزاد کی صفات بحر عمیق میں وہ موتی ہیں جو مسلم لیگیوں کو نظر آئے، نہ کبھی آئیں گے۔ ان کی ذات روز اول سے نشانہ تھی اور رہے گی۔ ہارون الرشید بھی ایک سینیئر تجزیہ نگار ہیں، صحافت کے کوچے میں نصف صدی سے مکین ہیں اور مختلف سیاسی پارٹیوں کے گھاٹ سے جام نوشی بھی فرما چکے ہیں۔

آپ نے قائد اعظم کی محبت میں مغلوب ہو کر لکھا تھا کہ مولانا اس قدر اپنی شخصیت کے اسیر تھے کہ ان کا بس نہ چلتا تھا وگرنہ وہ اپنی تصویر کو سجدہ کر دیتے۔ اللہ اللہ کیسے لوگوں کے ہاتھ قلم لگ گیا جن کا فریضہ اس دنیا میں فقط دشنام طرازی ہے۔ مولانا کا جرم کیوں معاف نہیں کر دیا جاتا کہ انہوں نے قائد کی مخالفت کی تھی۔

قائد کی مخالفت کی وجہ سے مولانا پر تنقید کی جا سکتی ہے۔ تنقید سے کوئی بھی مبرا نہیں ہوتا۔ مگر جب بہتان کو تنقید کہا جانے لگے تو لفظ کی آبرو کیا باقی رہے گی۔ مسلم لیگی امت مولانا پر تنقید ضرور کرے مگر ان پر بہتان تو نہ لگائے۔ ان کی صفات کو نظر انداز تو نہ کرے۔

کیا ایسا ممکن ہے کہ باد جہالت چلے اور مولانا کا لکھا مٹ جائے اور ان کے نقوش اذہان سے محو ہو جائیں۔ اگر یہ ممکن نہیں تو پھر ان پر کیچڑ اچھالنے کا سلسلہ رک کیوں نہیں جاتا۔ آزاد کی غلطی اس قدر بڑی تو نہیں ہے کہ اس کی ذات ہر طفل کوچہ کا نشانہ بنے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اسے بخش دیا جائے۔ اس کی خوبیوں کا اعتراف نہ کیجیے مگر خدا کے لیے اسے بخش دیجیئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments