ادیبوں کے لطائف ( 2 )۔


دلی کے ایک مشاعرے میں حفیظ جالندھری اپنی غزل سنا رہے تھے کہ فراق گورکھپوری نے بلند آواز سے کہنا شروع کیا: حفیظ پیارے کیا گلا پا یا ہے۔ یا ر میرا سارا کلام لے لو مگر اپنی آواز مجھے دے دو۔ حفیظ فوراً شعر ادھورا چھوڑ کر بولے : فراق صاحب میں آپ کا نیاز مند ہوں۔ میری آواز تو کیا آپ مجھے بھی لے لیں۔ لیکن خدا کے لئے مجھے اپنا کلام نہ دیجئے۔

مو لانا عبد المجید سالک نے سید زیڈ اے بخاری اور جگن ناتھ آزاد کو ایک محفل میں بتایا کہ جن دنوں حفیظ جالندھری شاہنامہ اسلام لکھ رہے تھے تو وہ بیمار پڑ گئے۔ ڈاکٹر کیفیت معلوم کی اور نبض لکھ کر دوا لکھ دی۔ حفیظ چلنے لگے تو ڈاکٹر سے دریافت کیا، ڈاکٹر صاحب کوئی پرہیز وغیرہ؟ ڈاکٹر نے جواب دیا کوئی خاص نہیں بس دماغی کام مت کیجئے گا۔ یہ کیسے ممکن ہے میں ان دنوں شاہنامہ اسلام لکھ رہا ہوں۔ اس پر ڈاکٹر نے بڑے اطمینان سے جواب دیا آپ شاہنامہ اسلام شوق سے لکھیے مگر دماغی کام سے پرہیز کیجئے۔

1947 میں تقسیم ہند کے بعد حسرت موہانی سے کسی نے سوال کیا آپ پاکستان کیوں نہیں چلے جاتے؟ ٹھنڈی سانس لے کر حسرت نے جواب دیا: دونوں طرف جنونیت کا دور دورہ ہے اپنی تو دونوں جگہ جان خطرے میں رہے گی۔ یہاں نہ رہے تو نہ جانے کب کوئی ہندو انتہا پسند مسلمان کہہ کر مار ڈالے اور پاکستان میں یہی کچھ جوشیلے مسلمان کے ہاتھوں ہو سکتا ہے۔ وہ مجھے گستاخ یا کافر کہہ کر مار دے گا۔ پاکستان میں رہ کر کافر کی موت مرنے سے میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان میں رہ کر مسلمان کی موت مرنا ہی بہتر ہے۔

جگر مراد آبادی اپنی رندی اور سر مستی کے زمانے میں بھی مذہبی عقائد کی سختی سے پا بندی کرتے تھے۔ وہ جوش ملیح آبادی کے ساتھ تانگے میں کہیں جا رہے تھے اچانک ان کے منہ سے یا اللہ کی آواز بلند ہوئی۔ جوش نے ازراہ تمسخر کہا جگر صاحب آپ نے مجھے پکارا؟ جگر صاحب کب چونکنے والے تھے فوراً بولے میں نے تو اپنے رب کو پکارا تھا۔ یہ شیطان کہاں سے بول اٹھا۔

جوش ملیح آبادی نے جگر مراد آبادی کو چھیڑتے ہوئے کہا : کیا عبرت ناک حالت ہے آپ کی؟ شراب نے آپ کو رند سے مولوی بنا دیا اور آپ اپنے مقام کو بھول بیٹھے۔ مجھے دیکھئے کہ میں ریل کے کھمبے کی طرح اپنے مقام پر آج بھی اٹل کھڑا ہوں جہاں آج سے کئی سال پہلے تھا۔ جگر صاحب نے جواب دیا: بلا شبہ آپ ریل کے کھمبے ہیں اور میری زندگی ریل گاڑی کی طرح ہے جو آپ جیسے ہر کھمبے کو پیچھے چھوڑتی ہوئی ہر مقام سے آگے اپنا مقام بناتی جا رہی ہے۔

مولانا مودودی کے جوش ملیح آبادی سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ کئی روز کی غیر حاضری کے بعد ملنے آئے تو جوش صاحب نے وجہ پوچھی۔ کیا بتاؤں جوش صاحب پہلے ایک گردے میں پتھری تھی اس کا آپریشن ہوا، اب دوسرے گردے میں پتھری ہے۔ مولانا نے جواب دیا۔ میں سمجھ گیا، جوش نے مسکراتے ہوئے کہا : اللہ تعالیٰ آپ کو اندر سے سنگسار کر رہا ہے۔

مشہور مصنف اور ایڈیٹر سردار خوشونت سنگھ بمبئی سے سنگار پور کی فلائٹ میں سفر کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ کی سیٹ پر جو عورت بیٹھی تھی وہ ان کو بار بار غور سے دیکھ رہی تھی۔ انہوں نے سوچا شاید اس نے کوئی سردار پہلی بار دیکھا ہے۔ جب چائے ناشتہ ہو گیا تو انہوں نے اس عورت سے جس کا نام مارگریٹا اور سپین کی رہنے والی تھی، اس سے بات چیت شروع کی۔ اس نے سردار صاحب سے پوچھا آپ کیا ہیں؟ خوشونت سنگھ نے جواب دیا میں سکھ ہوں۔ وہ نوجوان عورت بولی مجھے افسوس ہے امید کہ آپ جلد صحت یاب ہو جائیں گے۔ اس پر خوشونت سنگھ نے کہا میڈم میں بیمار نہیں میں مذہب سے سکھ ہوں۔ اس نے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اور بولی: میں بھی مذہب سے بہت بیزار ہوں I am also sick of religion

کسی شاعر نے دیوان سنگھ مفتوں سے پوچھا: شراب پینے کا انسان پر کیا اثر ہوتا ہے؟ مفتوں نے جواب دیا: شراب کا اثر مختلف لوگوں پر الگ الگ صورتوں میں ہوتا ہے۔ اس نے پوچھا مثلا۔ امیر لوگ شراب پی کر قہقہے لگاتے ہیں، گرفتاران محبت شراب پی کر روتے ہیں۔ اور شاعر حضرات شراب پی کر شاعری شروع کر دیتے ہیں۔

ایک ادیب نے راجندر سنگھ بیدی سے سوال کیا : آپ اچھے افسانے کیسے لکھ لیتے ہیں؟ بیدی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا یہ سب پنجاب کی دین ہے اکثر پنجابی اچھے کاریگر ہوتے ہیں۔ زندگی کا کوئی بھی کام کیوں نہ ہو پنجابی خون میں یہ بات ہوتی ہے کہ چاروں کونوں کے ہیچ مضبوطی سے کس لیتا ہے۔

دلی کی ایک نشست میں کسی نے کرشن چندر کی بے حد تعریف کرتے ہوئے کہا: کرشن چندر لکھتے کیا ہیں جادو جگاتے ہیں۔ راجندر سنگھ بیدی سے دھیرے سے کہا: جادو ہی جگاتا رہے گا یا کدی کہانی وی لکھے گا؟

ساحر لدھیانوی 1960 میں پٹیالہ کالج کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ کافی لوگ جمع تھے۔ ہربنس سنگھ تصور ان کا انٹرویو لینے کے لئے آئے۔ ساحر اس کے سوالوں کے جواب بھی دیتے رہے اور آملیٹ بھی کھاتے رہے۔ تصور نے سوال کیا: آپ کی آملیٹ سے رغبت دیکھ کر مجھے غالب کے آم یاد آرہے ہیں؟ ساحر نے جواب دیا میرا آملیٹ غالب کے آموں سے بہتر ہے کیونکہ اسے گدھے بھی کھا لیتے ہیں۔

حفیظ جالندھری بیمار ہو کر لا ہور کے ہسپتال میں داخل ہو گئے۔ احمد ندیم قاسمی مشاعرے میں شمولیت کے لئے گجرات آئے تو ملاقات پر ضمیر جعفری نے پوچھا: حفیظ کا کیا حال ہے؟ قاسمی نے جواب دیا بیماری کی وجہ سے کافی کمزور ہو گئے ہیں۔ ضمیر جعفری نے پوچھا کیا اپنے شعروں سے بھی؟

عصمت چغتائی کو تاش کھیلنے کا بہت شوق تھا۔ اس لئے ہر شام ان کے گھر پر تاش کھیلنے کی محفل جمتی تھی۔ ایک دن محفل جمی ہوئی تھی کہ ان کے شوہر شاہد لطیف سست ہونے کی وجہ سے کمرے میں لیٹے ہوئے تھے۔ انہوں نے ؑعصمت کو آواز دی کہ میرے سینے میں بہت درد ہو رہا ہے۔ مجھے کوئی دوائی دے دو۔ میرا بادشاہ مر رہا ہے تم خود ہی اٹھ کر ہاضمے کی دوا لے لو۔ عصمت نے اپنے تاش کے بادشاہ کو تو بچا لیا لیکن اس دوران اس کے اپنے بادشاہ شاہد لطیف ہارٹ اٹیک وجہ سے موت کی نیند سو گئے۔

ممبئی کی ایک دعوت میں تمام قابل ذکر ادیب موجود تھے۔ ایک اینگلو انڈین خاتون بھی دعوت میں شریک تھیں جو کرشن چندر سے واقف تھیں۔ کرشن چندر نے سب سے پہلے اس کا تعارف سردار جعفری سے کرایا اور اسے بتایا کہ یہ میرے دوست ہیں اور نامور شاعر ہیں۔ اس قتالہ نے فوراً سردار جعفری سے فرمائش کردی کہ اس پر ایک نظم لکھیں۔ جعفری نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا: تم اتنی خوبصورت ہو کہ تم پر نظم نہیں بلکہ پوری کتاب لکھنی پڑے گی۔

مولانا اشرف علی کا قیام تھانہ شہر میں تھا۔ کسی معاملے میں پروفیسر عبد العلیم کو ایک رات پولیس تھانے میں قید و بند کی صعوبت جھیلنی پڑی تو ایک صاحب نے ان سے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا: کہ انہیں نا حق پوری رات تھانے میں گزارنی پڑی۔ مولانا اشرف علی نے تو ساری عمر تھانے میں گزار دی۔ اگر میں نے ایک رات گزار دی تو کیا ہوا۔ علیم صاحب نے جواب دیا۔

لال قلعے کے مشاعرے میں فراق گورکھپوری کی ملاقات ساحر لدھیانوی سے ہوئی۔ فراق نے ساحر سے کہا آج کل تم آثار قدیمہ کے بارے میں بہت اچھی شاعری کر رہے ہو۔ تاج محل کے بارے میں کیا خوب لکھا ہے :

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
میرے محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
ایسا کرو اب ایک نظم جامع مسجد پر بھی لکھ دو:
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر ہم فقیروں کی عبادت کا اڑایا ہے مذاق
میرے اللہ کہیں اور ملا کر مجھ سے

سلام مچھلی شہری مشاعرے میں شمولیت کے لئے جب علی گڑھ جاتے تو کلام پیش کرنے سے پہلے علی گڑھ سے اپنے خلوص اور دیرینہ تعلقات کا ذکر ضرور کرتے تھے۔ ایک دفعہ مشاعرے میں ان کو دعوت سخن دی گئی تو حسب عادت انہوں نے جذبات سے معمور الفاظ میں حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: جب بھی میں علی گڑھ آتا ہوں اپنی روح میں جانے کیا چیز تیرتی ہوئی محسوس کرتا ہوں۔ اس سے آگے وہ کچھ بولتے کہ حاضرین میں سے آواز آئی۔ مچھلی

رشید احمد صدیقی کے ماتحت ڈاکٹر آمنہ خاتون علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں انشا پر پی ایچ ڈی کے لئے کام کر رہی تھیں۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی وہاں صدر شعبہ تھے۔ اسی دوران آمنہ خاتون کے یہاں بچے کی ولادت کا وقت قریب آ گیا تو انہوں نے چھٹی کے لئے درخواست دی۔ رشید صاحب نے چھٹی لینے کی وجہ دریافت کی۔ معلوم ہوا کہ یہ ماں بننے والی ہیں تو انہوں نے فرمایا: ہم نے تو انہیں تحقیق کے لئے بلایا تھا لیکن انہوں نے تو تخلیق شروع کر دی۔

بہ شکریہ: نارنگ ساقی 2019، شگفتگی و برجستگی قلم کاروں کی، ایم آر پبلی کیشنز نئی دہلی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments