فہد مصطفی کا گووندا کے پاؤں چھونا


فلم فیئر مڈل ایسٹ ایوارڈز کی تقریب ابھی حال ہی میں دبئی میں منعقد ہوئی۔ تقریب میں انڈیا اور پاکستان کے بھی فن کار موجود تھے جن میں پاکستان کی طرف سے فہد مصطفی اور ہمایوں سعید کو ایوارڈ سے بھی نوازا گیا جب کہ انڈیا کی طرف سے رنویر سنگھ، ارجن کپور، ایوشمن کھرانا اور دوسرے بالی ووڈ ستارے تقریب میں موجود تھے۔ مشہور فلمی اداکار گووندا بھی مہمان خصوصی کے طور پر محفل میں موجود تھے۔

فہد مصطفی نے ایوارڈ وصول کرنے کے بعد تقریر کی اور سامنے بیٹھے گووندا کی تعریف کرنی شروع کر دی کہ گووندا نے کس طرح انہیں انسپائر کیا۔ مزاحیہ اداکاری انہوں نے گووندا کی فلمیں دیکھ کر شروع کی۔ پھر فہد مصطفی اسٹیج سے اترے اور گووندا کے پیروں کو ہاتھ لگایا۔ گووندا نے بھی کھڑے ہو کر فہد مصطفی کو مبارکباد دی اور دونوں گرم جوشی سے گلے ملے۔

لیکن ہم جنتی مسلمانوں کو یہ بات اچھی نہیں لگی کہ فہد مصطفی نے گووندا کے پیر کیوں چھوئے۔ لوگوں کی بڑی تعداد نے فہد مصطفی کے اس عمل پر ان کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ لیکن جب مشہور مسلمان طبلہ نواز استاد ذاکر خان کے پیر انڈیا میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے چھوتے ہیں تو اس وقت ہم کوئی اعتراض نہیں کرتے۔ اس وقت ہمارا سینہ فخر سے چوڑا ہو جاتا ہے۔ ہم خوش ہوتے ہیں اور اس کو اسلام کی فتح سمجھتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ عزت فن کی ہوتی ہے۔ عزت آپ کی صلاحیتوں سے ہوتی ہے۔ اس کو کسی مذہب کا لبادہ پہنانا ایک معیوب فعل ہے۔ فن کاروں کا کام آپس میں محبت کو فروغ دینا ہے نا کہ نفرت کو پھیلانا۔ کھلاڑیوں اور فن کاروں کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ ان کا کوئی دین مذہب نہیں ہوتا اور ہونا بھی نہیں چاہیے۔

یورپ اور امریکہ میں مسجد بنے تو ہم خوشی سے نہال ہو جاتے ہیں لیکن ابو ظہبی میں ایک مندر بن جائے تو دل پر خنجر چلنے لگتے ہیں۔ یہ منافقت ہے، ہمیں اس سے نکلنا ہو گا۔ کرسمس کی آمد آمد ہے۔ اگر کوئی مسیحی بھائی کرسمس کے تہوار پر بیکری سے کیک خرید کر ”میری کرسمس“ لکھوانا چاہتا ہے تو کیا حرج ہے؟ اس میں ہم کہاں سے کافر بن جائیں گے؟ ہاں اگر لکھنے سے انکار کرتے ہیں تو ہماری منافقت، تنگ نظری اور نفرت دوسرے مذاہب کے لوگوں پر ضرور عیاں ہو جائے گی۔ جس طرح ہم نے فہد مصطفی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، میری سمجھ سے بالاتر ہے۔

فہد مصطفی نے صحیح کیا کہ اپنے ہمسائے ملک کے فن کار کو عزت دی۔ یہ ایک احترام، انسانیت اور محبت کا اشارہ ہے، استعارہ ہے۔ اس کو مذہب سے جوڑنا اور شرک قرار دینا، تنگ نظری ہے۔

مشہور شاعر اور ادیب جاوید اختر کہتے ہیں کہ ”میں مذہب کے بارے میں زیادہ تو نہیں جانتا لیکن جتنا جانتا ہوں، وہ چھوڑنے کے لئے کافی تھا“ ۔ میں قطعی یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ آپ اپنا مذہب چھوڑ دیں لیکن دوسرے مذاہب اور عقیدہ رکھنے والوں کے لئے بھی رواداری اور گنجائش ہونی چاہیے ورنہ سری لنکن شہری کا ناموس رسالت کے نام پر قتل ابھی کل کا واقعہ ہے۔

فہد مصطفی کو پاکستان چھوڑنے اور انڈیا چلے جانے کا بھی طعنہ دیا گیا۔ یہ وہی طرز عمل ہے جب ہم نے ترکی کی ارطغرل ڈرامے کی اداکارہ کو واقعی میں پکی مسلمان سمجھ لیا تھا۔ پھر جب اس نے دوسرے ڈرامے میں کچھ عریاں مناظر فلم بند کروائے تو ہم نے اسے اپنے مذہب اور اپنی خلافت عثمانیہ کی توہین سمجھا۔

آپ کو یہ بات اچھی لگے یا نہ لگے، انڈیا بہرحال دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے جا رہا ہے۔ ہمارے پاس دوستی اور اچھے تعلقات کے علاوہ کوئی اور دوسرا راستہ نہیں ہے۔ ہماری معیشت اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ دبئی اور قطر کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ اور ہم یہی فیصلہ نہیں کر پاتے کہ عید کس دن ہو گی۔ روزے تیس ہوں گے کہ انتیس۔ مغرب کے بعد جھاڑو دینا شرعی ہے یا غیر شرعی۔

کہا جاتا ہے کہ ایک تبلیغی جماعت کے سربراہ نے ایک مشہور امام سے پوچھا کہ ہم تبلیغ کے لئے نکل رہے ہیں کچھ رہنمائی فرما دیجئے۔ امام نے جواب دیا کہ ”کوشش کرنا کہ تبلیغ کے لئے تمہیں اپنی زبان زیادہ نہ استعمال کرنی پڑے“ ۔ ہر چیز کو مذہب کے چشمے سے دیکھنا بند کیجئے۔ دوسروں کو ہر وقت تبلیغ کرنا اور دعوت دینا بند کیجئے۔

ہر انسان کی جائز عزت ہونی چاہیے چاہے وہ انڈیا کا فنکار ہو، کھلاڑی ہو یا شاعر۔ وہ یہودی ہو، احمدی ہو یا کوئی بھی عقیدہ رکھتا ہو۔ احمد فراز ہمیں ہندوستان سے اور دوسرے انسانوں سے دوستی اور محبت کا سبق پڑھا کر گئے تھے۔ کہتے ہیں،

بہت دنوں سے ہیں ویراں رفاقتوں کے دیار
بہت اداس ہیں دیر و حرم کی دنیائیں
چلو کہ پھر سے کریں پیار کا سفر آغاز
چلو کہ پھر سے ہم ایک دوسرے کے ہو جائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments