جنرل باجوہ کا دور اور تحریک انصاف کی تنقید


کمان کی چھڑی جنرل عاصم منیر کے سنبھالنے کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ کا چھ سالہ دور اپنے اختتام کو پہنچا۔ یوں تو ماضی میں بھی بہت سے آرمی چیفس کی ذات سیاسی نظام میں مداخلت کے سبب متنازعہ بنتی رہی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کا دور اس لحاظ سے مگر منفرد تھا کہ ان کے دور ملازمت میں ہی ان کی حمایت سے اقتدار میں آنے والی جماعت نے ان کی کردار کشی کی مہم شروع کر دی تھی۔ حالانکہ تحریک انصاف کو اقتدار دلوانے میں جنرل باجوہ اور ان کی ٹیم کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

یہ درست ہے کہ عمران خان کو اقتدار میں لانے کا پراجیکٹ دو ہزار گیارہ سے جاری تھا لیکن جنرل قمر جاوید باجوہ نے ورثے میں ملنے والے اس پراجیکٹ کو کامیاب بنانے میں اپنی اور ادارے کی تمام صلاحیتیں صرف کر دیں۔ یہی نہیں بلکہ تحریک انصاف کو دوران اقتدار بھی جنرل باجوہ نے جتنی سپورٹ مہیا کی خود عمران خان بارہا تسلیم کر چکے ہیں کہ اس کا عشر عشیر بھی ماضی کے کسی حکمران کو نصیب نہیں ہوا۔ تحریک انصاف کی حکومت کو سازگار ماحول دینے کی خاطر ریاستی اداروں نے مخالف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو کھل کر ہراساں کیا۔

یہ بھی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ کسی جمہوری حکومت کے خلاف بھی میڈیا میں تنقید ممکن نہ رہی اور تحریک انصاف کے تین سالہ دور میں سب سے زیادہ صحافیوں سے روزگار چھینا گیا۔ اس حوالے سے بھی انگلیاں عسکری قیادت کی طرف اٹھتی رہیں اور یہ الزامات بے بنیاد بھی نہیں تھے۔ آئی ایس پی آر کی طرف سے ذرائع ابلاغ کو واضح الفاظ میں حکومت پر تنقید سے منع کر کے مثبت رپورٹنگ کی ہدایات جاری ہوئیں۔ اس کے باوجود مگر تحریک انصاف کارکردگی کے ہر میدان میں بری طرح ناکام ثابت ہوئی۔

لیکن تحریک انصاف کی حکومت کے آخری چند ماہ میں ملکی معیشت دیوالیہ پن کے کنارے پہنچ گئی تو ریاستی اداروں کو احساس ہوا کہ اب بھی حکومت کی سپورٹ جاری رکھی گئی تو یہ عمل نہ صرف خود ان کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہو گا بلکہ ملک کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہو گا۔ اس کے بعد تحریک انصاف کی حکومت سے مناسب فاصلہ اختیار کر کے دیگر سیاسی کھلاڑیوں کو کسی حد تک لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کی گئی۔ جیسے ہی عسکری اداروں کا سہارا ختم ہوا تحریک انصاف کی حکومت تیزی سے تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی۔

صرف یہی عمل ثابت کرنے کے لیے کافی تھا کہ عمران خان صاحب کس قوت کے سہارے اقتدار پر ساڑھے تین سال قابض رہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج تک دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے عسکری اداروں پر تنقید سیاسی نظام میں مداخلت نہ روکنے کے سبب ہوتی تھی تحریک انصاف پہلی سیاسی جماعت ہے جس کی تنقید کی بنیاد یہ ہے کہ ریاستی ادارے مداخلت کیوں ترک کر رہے ہیں؟ وسیع تر تناظر میں یہ صورتحال ریاست کے دائمی اداروں کے لیے لمحہ فکر ہونی چاہیے۔

عمران خان صاحب جب مسلسل تین سال سے یہ کہہ رہے تھے کہ انہیں اداروں کی اتنی سپورٹ حاصل ہے جو ماضی کے کسی حکمران کو نہیں ملی تو اس وقت ہم ایسے اسی لیے دہائی دے رہے تھے کہ نہ صرف یہ بات اپوزیشن کے موقف کی تصدیق ہے بلکہ خود اداروں کے خلاف چارج شیٹ ہے۔ اس کے ساتھ ہماری تحریریں گواہ ہیں ہم نے ایک سے زائد بار خبردار کیا تھا کہ محض چند مخصوص مقاصد کی تکمیل کی خاطر تمام انڈے ایک ٹوکری میں رکھنے کا عمل دانشمندانہ ہرگز نہیں اور آج نہیں تو کل یہ ضرور گلے پڑے گا۔

بہرحال ہمارے کہنے سے پہلے کچھ ہوا نہ آئندہ ہو گا اس ملک کا نظام انہی کی مرضی سے چلے گا آج تک جن کی مرضی سے چلتا آیا ہے۔ اس ہائبرڈ نظام کی ابتدا میں کچھ لوگوں کو امید تھی کہ شاید سیاسی استحکام سے ملکی معیشت بہتر ہو جائے گی اور غریب آدمی کے دکھ درد کا مداوا ہو جائے گا۔ لیکن تحریک انصاف نے اس نظام کے تحت ملنے والی اداروں کی سپورٹ کو سیاسی مخالفت کچلنے کے لیے استعمال کیا۔ جس سے نہ صرف سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہوا بلکہ غریب آدمی کا معیار زندگی بہتر ہونے کے بجائے پہلے سے بھی بدتر ہو گیا۔

یہ سچ ہے کہ ملک میں دودھ شہد کی نہریں کبھی نہیں بہتی رہیں۔ لیکن مہنگائی و بیروزگاری کی شرح تحریک انصاف کی حکومت میں جہاں پہنچی اور اس کی معاشی پالیسی سے کاروباری سرگرمیاں جس قدر ماند اور بازار جتنے سنسان آج ہو چکے ہیں یہ صورتحال پہلے کبھی نہ تھی۔ آج غریب آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول نا ممکنات میں شامل ہو چکا ہے۔ ملک کی بڑی آبادی دیہاڑی دار افراد پر مشتمل ہے۔ اس وقت اس دیہاڑی دار طبقے کی حالت نہایت قابل رحم ہے۔

کیونکہ ان کے پاس کچھ پس انداز نہیں ہوتا اور ملک میں روزگار کے مواقع بہت محدود ہو چکے ہیں۔ کئی کئی دن گزر جاتے ہیں مزدور کی دیہاڑی نہیں لگتی۔ یہ لوگ روز کمانے اور روز کھانے والے ہیں۔ جس دن ان کی دیہاڑی نہ لگے ان کے لیے بچوں کا پیٹ بھرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ دن بھر کی محنت مشقت کے عوض جو معمولی رقم ملتی ہے اسی سے گھر لوٹتے وقت اپنے گھرانے کی ضرورت کے لیے انہیں راشن لے کر جانا ہوتا ہے۔ اس ہائبرڈ نظام کے آغاز کے ساتھ ہی ملک میں معاشی بحران پیدا ہو گیا تھا جس سے نہ صرف بیروزگاری میں اضافہ ہوا بلکہ مہنگائی بھی آسمان چھونے لگی۔

اسی عرصے میں پٹرول، گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہونا شروع ہوا جس سے عوام کی زندگی اجیرن ہوئی اور اشیائے خور و نوش کی گرانی سوہان روح بنی۔ تحریک انصاف کی حکومت کے وزیروں مشیروں کے بیانات بھی بے حسی و سنگدلی کا ساتھ عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف تھے۔ کوئی وزیر کہتا تھا غریب آدمی روٹی کے نوالے بھی گن کر کھانا شروع کردے کوئی چینی کے دانے چائے میں کم ڈالنے کا مشورہ دے رہا تھا۔ لغو بیان بازی اور بیہودہ یاوہ گوئی کے علاوہ تحریک انصاف کے پاس نا اہلی کو جسٹیفائی کرنے کا کوئی جواز تھا اور نہ ملک کو گرداب سے نکالنے کی پالیسی۔

نہایت معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان حالات میں بھی اپنا پراجیکٹ ترک کرنے اور تحریک انصاف کی کھلم کھلا سرپرستی ترک کرنے کا فیصلہ خوشی نہیں بحالت مجبوری کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود جنرل باجوہ اور افواج پاکستان کے خلاف کردار کشی کی جو مذموم مہم تحریک انصاف کی طرف سے جاری ہے اس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس ملک میں آمریت کا تجربہ بھی ہو چکا، نام نہاد جمہوری ادوار بھی دیکھ لیے اور اب ہائبرڈ نظام بھی انجام کو پہنچ چکا۔ دس سال کے لیے حقیقی جمہوریت کو بھی آزما کر دیکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments