وقت کی پابندی کا درس


دوپہر ساڑھے گیارہ بجے پارکنگ میں گاڑی لگا کے اسکول کے دروازے کی طرف جاتے ہوئے میں نے فون پر ایک نمبر ملایا۔

ہیلو! السلام علیکم!
جی! وعلیکم السلام۔
میڈم! آج بچوں کی سالانہ تقسیم انعامات ہے۔
جی۔

جو نوٹس ہمیں ملا ہے، اس پر چھوڑنے کا وقت تو درج ہے لیکن واپس کب لے جائیں؟ براہ مہربانی متعلقہ ہیڈ مسٹریس سے پتہ کر کے مجھے بتائیں۔ یا میں خود تھوڑی دیر میں دوبارہ کال کرتا ہوں۔

سر! آپ چھ بجے بچوں کو لے لیں۔ بچہ اپنے کام سے تب تک فارغ ہو جائے گا۔ تقریب ویسے بھی ساڑھے چھ سے زیادہ نہیں چلنی۔

میڈم! آپ پھر بھی ایک دفعہ کنفرم کریں اور مجھے مطلع کریں تاکہ پھر کوئی مسئلہ نہ ہو۔
ٹھیک ہے سر! میں معلومات لے کر آپ سے تھوڑی دیر میں رابطہ کرتی ہوں۔
اور چند گھڑیوں کے بعد مجھے برقی پیغام پر چھ بجے، بچے کو اسکول سے پک کرنے کا کہا گیا۔

بچے کو تین بجے اسکول میں اور چھوٹا بیٹا چھوڑ آئے۔ ساتھ ہی بچوں کی والدہ اور اپنی بیگم کو بس اڈے پر چھوڑا۔ جن کی کل دوسرے شہر میں ایک دفتری میٹنگ تھی۔ اور پھر ہم دونوں باپ، بیٹا گھر آ گئے۔

اب شام کے پونے چھ بجے ہیں۔ نومبر کا آخری ہفتہ چل رہا ہے۔ شامیں جلدی ہونے لگی ہیں اور ٹھنڈی بھی۔ چھوٹے کا مزاج باہر جانے کو نہیں۔ کمبل کی حدت، اور صبح سے اب تک جاگے رہنے کی تھکن اس کی آنکھوں میں اتر رہی ہے۔ لیکن میری مجبوری ہے کہ اسے اکیلے گھر میں چھوڑ نہیں سکتا۔ بیوی کو آج جانا تھا۔ ورنہ ہم سے کوئی ایک ضرور اس کے پاس رہ جاتا اور دوسرا بچے کو اسکول سے لے آتا۔ خیر اس کو بہلا، پھسلا کے اور اس کی بنتی بگڑتی شکل کو نظر انداز کر کے میں نے گھر کو تالا لگایا۔ اسے گاڑی میں بٹھایا۔ اور اسکول پہنچ گئے۔

شام کی تاریکی بتدریج گہری ہو رہی تھی تو بجائے پارکنگ میں جانے کے، میں اسکول کے اس دروازے کی طرف آیا جو مرکزی شاہراہ پر کھلتا ہے۔ اور جہاں سے وہ آڈیٹوریم بہت قریب پڑتا ہے، جہاں سے بچے کو لینا تھا۔ فٹ پاتھ کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کی لمبی قطار تھی۔ جس میں کوئی گاڑی کبھی نکل رہی تھی، کبھی پارک ہو رہی تھی۔ میں نے بھی گاڑی بند کی۔ چھوٹے کا ہاتھ پکڑا اور چوکیدار سے بچے کو باہر بھیجنے کا کہا۔

جس پر اس نے کہا، آپ خود اندر آجائیں۔ ابھی تو تقریب شروع ہی نہیں ہوئی۔ اور میں اپنی جگہ بھی خالی نہیں کر سکتا۔ ہم دروازے سے مزید اندر گئے، تو ایک نئی ہلچل۔ آڈیٹوریم اور گارڈ کے کمرے کے درمیانی حصے میں مہمانوں کے لئے ہائی۔ ٹی کا انتظام تھا۔ نہ آگے جانے کی جگہ، نہ پیچھے مڑنے کا راستہ۔ بچے کو تو ساتھ لینا تھا۔ سامنے ایک انتظامی اسٹاف کھڑا نظر آیا۔ اسے بلانے، پوچھنے پر، اس نے لاعلمی کا اظہار کر کے ایک اور خاتون کی طرف اشارہ کر دیا۔

جب ان تک پہنچے، تو انھوں نے بھی معذرت کر دی کہ آپ اتنی جلدی کیسے؟ ابھی تو کچھ آغاز ہی نہیں ہوا۔ جس پر ساری کہانی ان کے گوش گزار کی۔ کہ ہمیں یہی وقت دیا گیا تھا۔ پندرہ بیس منٹ انھیں سمجھانے میں لگ گئے۔ جس پر یہ سننے کو ملا کہ میری ڈیوٹی تو یہاں لگی ہے۔ آپ خود ہی اوپر سیکنڈ فلور پر چلے جائیں۔ جس پر میں نے اپنے گھریلو حلیے کی طرف دیکھا، جو کام کرتے کرتے صرف آدھے گھنٹے کے لئے درمیانی وقفہ لے کر اٹھا تھا اور اب تقریب میں جانے اور بچے کا پتہ کرنے کی فرمائش سن رہا تھا۔

اپنی معذرت پیش کی اور اس خاتون سے درخواست کی کہ فون پر کسی سے رابطہ کروائیں۔ اسی اثنا، میں خود بھی سیکشن کوآرڈینیٹر اور کلاس استاد سے رابطہ کر رہا تھا۔ لیکن یا تو کوئی موصول ہی نہیں کر رہا تھا یا مصروف کر رہا تھا۔ چھ پینتیس ہو رہے تھے۔ چھوٹا ادھر ادھر بھاگ رہا تھا۔ وہ جو ابھی کھانا کھا کے میرے ساتھ بھائی کو لینے آیا تھا۔ اس کی بھوک کھاتے پیتے لوگوں کو دیکھ کے پھر چمک رہی تھی۔ اللہ اللہ کر کے اس خاتون کا کسی استاد سے فون پر بات ہوئی اور پھر موبائل میرے حوالے کر دیا۔ پیچھے اس قدر شور تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ بہرحال چیخ چیخ کر انھیں سارا قصہ سمجھایا۔ ایک جاننے والی اسکول پبلک ریلیشن افسر سے بات کروانے کو کہا۔ جس نے کہا میں پوچھ کر بتاتی ہوں۔ اور پھر اگلے آدھے گھنٹے کے دوران بچے کے فارغ ہونے کا بتایا۔

میں نے چھوٹے کے ساتھ باہر گاڑی میں ہی انتظار کرنے کو بہتر جانا۔ کہ اتنی دیر کو واپس گھر جانا اور پلٹنا مشکل تھا۔ چھوٹا خود ہی کبھی کھیل رہا تھا، کبھی مجھ سے باتیں اور کبھی بھوک کی شکایت۔ لیکن سوائے صبر کے چارہ نہ تھا۔ میں خود بھی بار بار فون کی جانب دیکھتا۔ اتنے میں اس کلائنٹ کی کال آنا شروع ہو گئی۔ جس کے ساتھ سوا سات کی میٹنگ طے تھی۔ سمارٹ فون پر کنیکٹ ہو بھی جاتی تو ساری تفصیلات لیپ ٹاپ پر تھیں۔ اس لئے ان کو معذرتی جواب ارسال کیا۔

اور ادھر ان پی۔ آر۔ او کو پھر کال ملائی۔ بات نہیں ہوئی۔ جب ملی، تو سمجھ کچھ نہیں آ رہا تھا۔ پھر پیغام آیا کہ ابھی دیر ہے۔ بیس منٹ بعد ۔ یوں کرتے کرتے سڑک پر گاڑی کے اندر، سرد، اندھیری شام میں انتظار، مجھے کوفت اور چھوٹے کو بے چینی اور اذیت میں مبتلا کر رہا تھا۔ آخر اس پر وہ بار بار یہ کہنے لگا۔ بابا، چلتے ہیں۔ مجھے اسکول اچھا نہیں لگ رہا۔ اور اس طرح رات کے آٹھ بج کر پندرہ ہو گئے۔

جب ہم بیزار ہو گئے۔ قطار میں لگی گاڑیاں آہستہ آہستہ رخصت ہونے لگیں۔ اور لائن میں ہم اور ہماری طرح کے کچھ اور والدین رہ گئے تو میرا بیٹا آ گیا۔ ہم نے اسے بٹھایا اور گھر کی راہ لی۔ یہ تو صرف وہاں کا حال تھا، جہاں ہم کھڑے تھے۔ مرکزی پارکنگ لاٹ میں کیا منظر تھا؟ اس کا اندازہ میں بخوبی لگا سکتا تھا۔

اگلی صبح آٹھ بجے۔

اسی اسکول کے دروازے کے باہر اور اندر دیر سے پہنچنے والے بچوں کا رش تھا جن کو ڈیوٹی استاد اور ملازم وقت کی پابندی کا درس دے رہے تھے۔

آج وہیں کی پرائمری، مڈل اور ہائی جماعتوں میں وقت کی اہمیت پر مضمون نویسی کی مشق ہو رہی تھی۔

اسی درس گاہ کی سربراہ اپنے دفتر میں ان ملازمین کی کڑی خبر لے رہی تھیں جن کے تاخیر سے پہنچنے پر آج اسمبلی میں ان کی تقریر وقت پر شروع ہوئی تھی۔

اور میرے موبائل پر اسی اسکول کی طرف سے خود کار پیغام آرہے تھے کہ اسکول کے اوقات کار کا خیال رکھا جائے تاکہ بچوں میں احساس ذمہ داری اور وقت کی قدر کا احساس پیدا ہو سکے۔

میں جو اگلے پورے ہفتے ان تمام اسٹاف ارکان کی طرف سے ایک کال کی امید رکھے ہوئے تھا کہ اس دن میں نے کیوں اتنی دفعہ ان کا نمبر شام کے وقت ملایا؟

میں جو توقع رکھتا تھا کہ اس درجے کے بڑے اسکول کو اس قسم کی تقریبات میں ایک فوکل پرسن مختص کرنا چاہیے جس سے والدین رابطہ کر سکیں۔

میں جو چاہتا ہوں کہ تمام تعلیمی اداروں کو اپنی تقریبات بغیر کسی بہانے کے وقت پر کرنی چاہیے اور عملاً وقت کی پابندی کا پیغام متعارف کروانا چاہیے۔

یا کم از کم کسی بھی تاخیر کی صورت میں ایک پیغام ضرور بھیجنا چاہیے تاکہ بچوں کے گھر والے کسی قسم کی پریشانی سے بچ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments