قاسم علی شاہ اور عمران ریاض خان یوتھ کنونشن میں ایک ساتھ


بلند آواز یا چیخ چنگھاڑ سے حقائق تبدیل نہیں ہو جاتے اور نا ہی آپ اپنے اندر چھپے ہوئے خوف یا جہالت کو منظر عام پر آنے سے زیادہ دیر تک روک کے رکھ سکتے ہیں، کچھ وقت تک کے لیے تو کھوکھلے جذبات کے سہارے ایک پھس پھسا سا ”شخصی اورا“ قائم رہ سکتا ہے مگر زیادہ دیر تک یہ چھپن چھپائی نہیں چل سکتی۔ بالکل اسی طرح سے جذباتی یا اساطیری طرز کی کہانیاں سنا کر لوگوں کی آنکھوں سے چند آنسوؤں کا اخراج وصول کر کے کچھ عرصہ تک تو ان کے دماغوں کو ماؤف کیا یا سلایا جا سکتا ہے زیادہ دیر تک یہ کارستانیاں نہیں چل سکتیں آخر کار دانشمندی ہی غالب آتی ہے۔ اور لوگ سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ جو بندہ محض باتوں کے ذریعے سے کروڑ پتی بننے کا چورن ایک طویل عرصہ سے بیچ رہا ہے وہ اس کے عوض اپنی وربل سروس کا کیا چارج کر رہا ہے تو بات کھلنا شروع ہو جاتی ہے۔ جو بندہ ایک لمبے عرصہ سے ہمیں یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ

”زندگی میں پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا“

وہ اتنی سی بات لیکچر میں بول دینے کا کم از کم تین لاکھ تک اینٹھ لیتا ہے۔ کمزور معاشروں میں جو ذرا سا دماغ والا ہوتا ہے وہ معاشرتی کمزوریوں کو بیچ کر کے کھرب پتی بن جاتا ہے۔ ہاتھوں کو چومنے والے اور سر آنکھوں پر بٹھانے والوں کا ”حلقہ یاراں“ بونس میں نصیب ہو جاتا ہے۔ یہ لومڑ مزاج قسم کے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی فاؤنڈیشن یا میڈیا ہاؤس کے ذریعے سے شعوری آئیکون کا درجہ حاصل کر کے تھنک ٹینک کے درجے پر فائز ہو جاتے ہیں اور اپنے ”عقیدتی بونوں“ کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھا کر اپنا ”مالیاتی چکرویو“ چلاتے رہتے ہیں ان عقیدتی بیوقوفوں میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے لوگ، طلباء، اساتذہ بزنس کلاس اور کمپیوٹر برین ہوتے ہیں جن کی مہارتوں سے فائدہ اٹھا کر یہ لوگ صاحب حیثیت یا با اثر بن جاتے ہیں، مطلب عقیدت کے نام پر بے وقوف بنانا ان کا آرٹ ہوتا ہے اس کے لیے یہ کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔

جی ہاں ہم بات کر رہے ہیں دو ایسے کرداروں کی جنہوں نے سماجی شعور پر گہری نقب لگائی اور لوگوں میں ریشنیلٹی کی بجائے جذباتیت کو فروغ دے کر اپنے مقاصد حاصل کیے۔ جذباتیت وہ ایندھن ہوتا ہے جس پر ذرا سا ”کھوکھلی غیرت“ کا تیل چھڑکنے کی ضرورت ہوتی ہے آگ خودبخود لگ جاتی ہیں کیونکہ جذباتی لوگ عقیدت مند ہوتے ہیں اور کسی پر بھی خوامخواہ میں نہال ہو جاتے ہیں اور یہی مٹیریل ان دو اصحاب کے لیے بڑے کام کی چیز ہوتی ہے۔

ان شخصیات کا نام ”قاسم علی شاہ اور عمران ریاض خان“ ہے جو ایک یوتھ کنونشن میں ایک دوسرے کی تشہیر فرما رہے تھے۔ سامنے بیٹھے عقیدت مندوں کا خیال تھا کہ وہ شعور بانٹنے کے سفر پر نکلے ہوئے ہیں حقیقت میں ایسا کچھ نہیں تھا بلکہ وہ مارکیٹنگ ٹرینڈز کے فیوض و برکات سے فیض یاب ہو رہے تھے۔ قاسم علی شاہ فاونڈیشن اور پروپیگنڈا کر کے حقائق مسخ کرنے والا میڈیا مین عمران ریاض خان کے گٹھ جوڑ کے ذریعہ سے دونوں اپنے اپنے مفادات یا دکان داری کی آبیاری کرنے میں مصروف تھے۔

عمران ریاض خان نے ابھی حال ہی میں تازہ تازہ سسٹم سے ڈنک کھایا ہے جس کا زہر ابھی رگوں میں رنگ دکھا رہا ہے کچھ عرصہ پھڑپھڑانے کے بعد شرینی میں خود بخود تبدیل ہو جائے گا مگر ایک بات کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے کہ زہر گوئی سے شرینی تک کے اس سفر میں عقیدت مندوں کے ہاتھ کچھ نہیں لگے گا البتہ ان کے کندھوں پر سوار ہو کر کے عمران ریاض خان کچھ نہ کچھ ضرور بن جائے گا بلکہ بن چکا ہے، مطلب ہر طرح سے وہی فائدہ میں رہے گا۔

جس طرح سے ڈسٹ بن کو ویسٹ مٹیریل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح سے جو بندہ اپنے پروفیشن کے حساب سے اناڑی یا کانوں کا کچا ہوتا ہے وہ بھی طاقتوروں کے ہاتھوں استعمال ہوتا رہتا ہے جو انہیں استعمال کر کے تاریخ کے کوڑا دان میں پھینک دیتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ عمران ریاض خان کا غصہ کس وجہ سے کوہ ہمالیہ کو چھو رہا ہے؟ ظاہر ہے وہ استعمال ہوا ہے جنہوں نے انہیں رنگ برنگی کرپشن کی فائلیں دکھا کر چند لوگوں کو ”رجسٹرڈ بدعنوان“ پینٹ کر کے دکھایا تھا وہی بدعنوان اب ان بڑوں کی نظروں میں سسٹم کی بحالی کی خاطر پاک صاف ہو چکے ہیں مگر موصوف ابھی بھی اسی لائن کو پکڑ کے بیٹھے ہیں۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ جناب غلطی ان سے نہیں بلکہ آپ سے ہوئی ہے، آخرکار ایسا آپ کو کیا دکھا دیا گیا تھا کہ فوراً سے آپ جیسے چند صحافیوں نے ”کرپشن کرپشن“ کی دھن پر ناچتے ناچتے اپنے پاؤں تک زخمی کر ڈالے اور ارشد شریف بیچارے تو جان سے ہی چلے گئے؟ جو راز آپ کے کانوں تک پہنچے تھے ان رازوں کی دھمک سے منجھے ہوئے صحافی بے خبر کیوں رہے؟ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ قبیلہ عمران کے درجنوں صحافی اپنی سابقہ جذباتی روش یا بیانیہ سے رجوع فرمانا شروع ہو چکے ہیں۔

اس کے برعکس جو صحافی اس جذباتی دھن پر مست نہیں ہوئے تھے وہ آج بھی اپنے موقف پر قائم و دائم ہیں انہیں رجوع کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی کیونکہ وہ ان کی طرح کانوں کے کچے یا ایموشنل فول نہیں تھے۔ موصوف کی دیانت دارانہ رائے منظرنامہ تبدیل ہو جانے کے بعد اور ”مسیحا وقت“ کے اسکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد یہ ہونی چاہیے تھی کہ ”مجھ سے غلطی ہو گئی“ اور میں نے اپنے فرائض منصبی سے کوتاہی برتتے ہوئے چیک یا کراس چیک کے اصول کو نظر انداز کرتے ہوئے جذباتی بیوقوف بننے کو ترجیح دی تھی مگر وہ اپنی ”فیکچوئل“ غلطی کو تسلیم کرنے کی بجائے اسے اپنی طاقت بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف ”خیالستان“ کے پرچارک قاسم علی شاہ کی انالوجی ملاحظہ فرمائیں جو انہوں نے عمران ریاض خان کا خطاب سننے کے بعد پیش کی فرماتے ہیں کہ

”دل بولتا ہے تو دل سنتا ہے، زبان بولتی ہے کان سنتا ہے اور جب روح بولتی ہے تو روح سنتی ہے آج عمران ریاض کا لوجک نہیں بول رہا تھا بلکہ روح بول رہی تھی“

اساطیری گفتگو کے ذریعے سے داد سمیٹنے والے قاسم علی شاہ اس کے علاوہ اور کہہ بھی کیا سکتے تھے کیونکہ مخاطبین میں سے اکثریت ان کے اپنے پیروکاروں کی تھی جو روحانی یا تڑکے والی باتیں ہی سننا پسند کرتے ہیں شاید اسی وجہ سے عقلی کلچر ہمارے سماج میں پنپ نہیں سکا، جہاں کہانیوں سے بہلنے کا چلن ہو وہاں عقل ہمیشہ راندہ درگاہ ہی رہتی ہے۔ جہاں بے عقلی اور جذباتیت کا گہرا سایہ ہو وہاں ایک ایسے بندے کا حکمران بن جانا بعید نہیں ہوتا جس کا سازشی بیانیہ سائفر اور امریکہ دشمنی سے ہوتا ہوا یوٹرن کے مراحل سے گزر کر امریکہ سے صلح پر اختتام پذیر ہو اور کہانی کے موڑ میں بھلے جتنی مرضی بد دیانتیاں آجائیں، ہیرے کے ہار یا توشہ خانہ کی کہانیاں آ جائیں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اطاعت و فرمانبرداری کرنے والوں کے ہاتھ تابعداری کے لئے تو اٹھ سکتے ہیں سوال کرنے کے لیے نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments