اس بار قربانی عوام نہیں، حرام خور دیں


بقول عمران خان ملک پر امپورٹڈ حکومت مسلط کردی گئی ہے، عمران خان کی ساڑھے تین سالہ حکومت نے مہنگائی جو وہ ریکارڈ قائم کیے تھے اس کی مثال ملکی تاریخ میں نہیں ملتی تھی، عوام مہنگائی، مہنگائی کا شور مچاتے رہے، اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے اس کا فائدہ اٹھایا اور متحرک ہو گئی، پھر طاقتور حلقے کے نیوٹرل ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عمران خان کو حکومت سے رخصت کر دیا یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان خود ہی حکومت سے جان چھڑا کر بھاگ نکلے

سپریم کورٹ سے قومی اسمبلی بحال ہونے کے بعد اسمبلی کی دوسری بڑی پارٹی مسلم لیگ (ن) کے اپوزیشن لیڈر کو قائد ایوان بغیر کسی رکاوٹ کے چن لیا گیا کیونکہ عمران خان اور ان کی پارٹی اسمبلیوں سے مستعفی ہو کر پی ڈی ایم کے لئے میدان خالی چھوڑ گئے تھے اس طرح تحریک انصاف کے مطابق چور، ڈاکو حکومت میں پھر آ گئے، عمران خان نے اس حکومت کو امپورٹڈ حکومت کا خطاب دیا اور خود اب تک سڑکوں پر کھہ کھا رہے ہیں، کوئی ان عقل کے اندھوں سے پوچھے کبھی مخالفین کے لئے بھی میدان خالی چھوڑا جاتا ہے

11 اپریل کو شہباز شریف نے وزیراعظم کے عہدہ کا حلف اٹھایا تو کچھ امید پیدا ہوئی کہ یہ تجربہ کار ”چور، ڈاکو“ ہیں اس لئے عمران خان کا بکھیرا ہوا گند چند مہینوں میں صاف کر لیں گے اور عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور ملے گا مگر آٹھ ماہ بعد کفن چور والی بات درست ثابت ہوتی دکھائی دے رہی ہے کہ ”کفن چور کا باپ ہی اچھا تھا“ ، مسلم لیگ نون اور پی ڈی ایم کی 13 اتحادی جماعتوں کی حکومت نے آٹھ ماہ میں مہنگائی کا جن کھلا چھوڑ دیا کہ عوام اللہ کی پناہ مانگنے لگ گئے ہیں

امپورٹڈ حکومت بننے کے بعد یہی سمجھا جاتا ہے رہا کہ وزیراعظم (شوباز) نے عمران خان کو بدنام کرنے کے لئے قیمتوں کو اوپر جانے کے لئے کھلا چھوڑ دیا ہے تاکہ سارا مدعا تحریک انصاف کی حکومت پر ڈالا جا سکے، پھر سال کے آخر میں عوام کو ریلیف دے کر اپنی کامیابی کے ڈنکے بجائے جائیں اور اگلے الیکشن میں اس ایشو کو کیش کرایا جا سکے، اس وقت کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو تحریک انصاف تو دور کی بات ہے، خود مسلم لیگ نون ہی اپنی ہی پارٹی کے رہنما اور وزیرخزانہ کے خلاف سوشل میڈیا مہم چلانے لگی اور یہ تاثر دیا جانے لگا کہ اسحاق ڈار بہت بڑے تھوپ خان ہیں اگر ان کو وطن واپس لایا جائے تو چند دنوں میں ملک خوش حال بنا دیں گے

اسحاق ڈار خود مفتاح اسماعیل پر تنقید کرنے لگے اور پورا ماحول بنایا گیا کہ ”جب آئے گا ڈار، ۔ ۔ بڑھے گی اس ملک کی معاش، پھر ہو گا خوشحال پاکستان“ کے ڈھول بجائے جانے لگے، اس ملک کا کمال دیکھیں، یہاں قانون کو موم کی ناک سمجھا جاتا ہے جس طرف چاہے موڑ لیا جائے، تین سالوں سے خود ساختہ جلاوطن اسحاق ڈار کے کیس معاف ہونے لگے، ضمانتیں ہونے لگیں، ڈالر ڈار کے خوف سے تھر تھر کانپتے ہوئے گھٹنے ٹیکنے لگا اور روزانہ کی بنیاد پر قیمت کم ہونے لگی

پھر اسحاق ڈار پاکستان کی پاک سرزمین پر اترے، ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے آنے لگے اور اسی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کے نشہ میں ڈار نے واپسی بیان دیدیا کہ مجھے واپس آئے ابھی چند روز ہی ہوئے ہیں اور ڈالر پندرہ سے بیس روپے نیچے آ گیا ہے، انشاءاللہ اکتوبر کے آخر تک ڈالر دو سو روپے سے نیچے آ جائے گا، تب امید کی ایک کرن جاگی کہ انشاءاللہ ملک کی معیشت ایک بار پھر موٹروے پر دوڑے گی اور سرپٹ دوڑے گی کیونکہ موٹروے کے خالق نواز شریف ہی ہیں

نومبر شروع ہوا تو ڈالر کے سر سے ڈار کا خوف مکمل طور پر اتر گیا، وہ پھر سے بے لگام ہو رہا ہے جس پر اسحاق ڈار نے اس ناکامی کا مدعا بھی تحریک انصاف پر ڈال دیا اور کہا کہ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہو گا معیشت ٹریک پر نہیں آ سکتی، ڈار صاحب سے پوچھا جائے کہ عمران خان نے 2014 ءمیں جو کچھ کیا تھا کیا اس کا ان کو اندازہ نہیں تھا کہ عمران خان انوکھا لاڈلہ ہے جو کھیلن کو ”حکومت“ ہی مانگتا ہے، اب بھی ضدی بچے کی طرح زمین پر لیٹیاں مار رہا ہے

بدھ کو ایک سیمینار میں اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ اس کی افغانستان سمگلنگ ہے، ان کی بات سن کر کانوں سے دھواں نکلنے لگتا ہے کہ یہ باتیں کس کو سنا رہے ہیں، حکومت میں آپ لوگ ہیں اور عوام کو سنا رہے ہیں، سمگلنگ روکنا حکومت کا کام ہے، سکیورٹی ایجنسیوں کا کام ہے، وہ اس کو روکیں مگر دکھ ہے کہ سیاستدانوں نے ہمیشہ ہی عوام کو مایوس ہی کیا ہے

کئی بار ملک کے وزیر خزانہ رہنے والے کو کیا یہ اندازہ نہیں تھا کہ ہمارے پاک ملک میں کون کون مافیاز ہیں اور ان کے کس کس سے روابط ہیں، سمگلنگ کی بات کر کے اپنی بے بسی کس کو دکھانا چاہ رہے ہیں، موصوف اتنے بے بس ہیں تو پہلے سلطان راہی والی بھڑکیں کیوں ماری تھیں، لندن ہی بیٹھے رہتے اور مفتاح اسماعیل کو کام کرنے دیتے، عمران خان کی حکومت سے لے کر شہباز شریف کے وزیراعظم بننے تک ان کی پارٹی کے ورکرز دن رات ڈار صاحب کو تسبیح کے دانوں پر گن گن یاد کرتے تھے، آج کی مہنگائی دیکھ کر وہی ورکرز ان کو صلواتیں سنا رہے ہیں، وہی ورکر اتنے دلبرداشتہ ہوچکے ہیں کہ وہ یہ کہنا شروع ہو گئے کہ سب سیاستدان ”چور“ ہیں، عوام کا کسی کو خیال نہیں ہے

موجودہ حکومت کے وزراء اب عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جناب یہ سب عمران خان کی کیا دھرا ہے اور ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں، جلد عوام کو ریلیف دیں گے، چند روز قبل ہی وزیرداخلہ رانا ثناءاللہ جو لمبی لمبی چھوڑنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے نے بیان دیا کہ وزیراعظم شہباز شریف اگلے چار سے چھ ماہ میں عوام کو ریلیف دیں گے، یہ نئی امید دلائی ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ عوام کو ایک نئی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کی کوشش ہے

ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت کو مہنگائی، معیشت کی تباہی کا ذمہ دار قرار دیتی ہے، یہ دہائیوں سے ان کا آزمودہ نسخہ ہے، وزیراعظم کے اس طرح کے بیان کے بعد قوال کے ہمنواؤں کی طرح دن رات یہ راگ الاپنے لگتے ہیں جس پر عوام مجبوراً یقین کرنے لگ جاتے ہیں کہ نئے حکمران آئے ہیں، ان کے دل میں عوام کا درد بہت ہے اسی لئے وہ زیادہ تر لندن میں ہی قیام کرتے ہیں تاکہ عوام کو بلکتا اور روتا نہ دیکھیں، حکومت کسی بھی سیاسی پارٹی کی ہو، یا 13 جماعتوں کا چوں چوں کا مربہ ہو، ہر دور میں عوام سے ہی قربانی مانگی جاتی ہے، ان کی اپنی نہ گاڑیاں چھوٹی ہوتی ہے، نہ ہی دورے کم پڑتے ہیں، نہ تنخواہ لینے سے انکار کرتے ہیں اور نہ ہی فیملی کے لئے چار سے چھ گاڑیوں کی تعداد کم کرتے ہیں، یہی کہتے ہیں کہ بس عوام قربانی دیں

گزشتہ پانچ، چھ سالوں سے مہنگائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ غریب کی تو بات ہی نہ کی جائے، اپر مڈل کلاس، لوئر مڈل کلاس بن گئی ہے، لوئر مڈل کلاس تو سڑک پر آ گئی ہے، پہلے لوئر مڈل کلاس کو سکولوں کی فیسیں مار دیتی تھیں کیونکہ اچھے سکول میں بچے نہ پڑھائیں تو معاشرے میں سٹیٹس نہیں بنے گا، گزشتہ آٹھ ماہ سے بجلی کے بلوں نے گھروں میں فاقے ڈال دیے، سکول، کالجز اور یونیورسٹی کی بچوں کی فیسوں کے یوٹیلٹی بلوں کی نرخوں میں ہولناک اضافہ کے بعد تنخواہ سے کچھ بچتا ہی نہیں کہ خوراک کھا لی جائے، ہر حکومت اقتدار ملنے پر بے شرمی کی ہر حد توڑ دیتی ہے، اپنے اللے تللے کم نہیں کرتے اور عوام سے قربانی مانگتے ہیں، کیوں نہ اس بار یہ فارمولہ تبدیل نہ کر دیا جائے، اس بار عوام سے قربانی مانگنے والے ”حرام خور“ قربانی دیں اور ملک کی معیشت کو دوبارہ کھڑا کر دیں مگر ایسا نہیں ہو گا کیونکہ یہ سب خاندان محمد شاہ رنگیلا کی نسل میں سے ہیں، بے شرم حرام خور۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments