”کپاس کا پھول“ ، پنجاب کے دیہات اور اردو ادب


احمد ندیم قاسمی پاکستانی دیہات کی سادگی اور انسانی تقدیر کی پیچیدگی کو متحد کر کے اس حقیقت کو پیش کرتے ہیں کہ پاکستانی دیہاتیوں کی تقدیر چکی کی مانند ہے، جسے دیہاتی چلتے ہوئے اپنے پچھتاوے اور بے بسی کو کفارہ اور امکانات میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ مصنف کے نزدیک ان کا ادبی اور جمالیاتی مقصد قارئین کو بتانا ہے کہ وہ پاکستانی دیہاتی جن کی اکثریت ناخواندہ ہونے کے باوجود، ان کی آواز اور احساسات شہر والوں سے زیادہ مخلص و مستند ثابت ہوتی ہے اور وہ پاکستان کا قومی جذبہ زندہ رکھتے ہیں۔

پاکستانی تاریخ میں پنجابی دیہات کا ایک منفرد کردار ہے۔ دیگر پاکستانی صوبوں کے دیہاتوں کے مقابلے میں، پنجاب کے دیہاتوں کی زمینیں زیادہ زرخیز ہیں اور ان کی زرعی ترقی زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ پنجابی دیہاتی شخصیات زیادہ آزاد خیال اور ان کی سوچ زیادہ ترقی پسند ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود، مذہبی قدامت پرستی سماجی تعلقات کے تعین میں ایک با اثر عنصر بنی ہوئی ہے۔ پنجابی گاؤں میں ایک درجہ بندی کا نظام بھی برقرار ہے جس میں زمیندار اعلی ترین درجہ رکھتے ہیں۔ پنجاب اپنی دیہی خوبصورتی کے باوجود سیاسی اور مذہبی تنازعات کی لعنت کی وجہ سے مصائب کی سرزمیں ہے۔ 1965 پاک بھارت جنگ، جس میں پنجاب میدان جنگ بن گیا تھا، افسانے ”کپاس کا پھول“ کا سیاق و سباق ہے۔

قاسمی عورت مائی تاجو کی دیہی زندگی مہارت سے پیش کرتے ہیں جو محبت کی جستجو میں ہونے والی ضد اور زندگی کی تکمیل کی خواہش سے تشکیل پاتی ہے۔ برسوں کی بے چینی اور تکلیف نے اس کی شخصیت کو مسخ کر دیا ہے اور وہ طنز و تذلیل کے کسی بھی اشارے کے سامنے بہت حساس ہو جاتی ہے۔ اگرچہ یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ تاجو تمام پنجابی دیہاتیوں کے تجربات کی نمائندگی کر سکتی ہے، قاسمی نسواں کی اہمیت پر زور دیتے ہیں جو پاکستانی قومیت کی تخلیق میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ پشتونی نسواں کے مطیع پہلو کے مقابلے میں، پنجابی نسوانیت میں زیادہ اظہار موجود ہے، جسے ہم مائی تاجو کے ردعمل سے سمجھ سکتے ہیں جب اسے معلوم ہوا کہ اسے اس کے شوہر نے دھو کہ دیا ہے۔
یہ بتانا بہت دلچسپ ہے کہ پنجاب کے دیہات کے حوالے سے قاسمی کی ادبی اور جمالیاتی نقطہ نظر کثیر الجہتی ہے۔ پنجابی دیہاتی کا بے لاگ اظہار، نظر، آواز، بو اور لمس سے اس جگہ پر آتی ہے جہاں فطرت کی معصومیت انسانی مداخلت کی مصنوعی اور سفاکیت کے خلاف مزاحمت کرتی ہے۔ بھارتی فوجی حملے نے بہت سے متاثرین کو شہید کرنے کے باوجود گنے کے کھیت کو بہت کم نقصان پہنچایا اور جان بچانے کے لئے خالی کھائی اور اونچی جھاڑیاں وہیں رہ گئیں۔

”کپاس کا پول“ پریم چند کے ”کفن“ اور ”حج اکبر“ کی طرف اشارہ ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ قاسمی برصغیر مین دیہاتی زندگی کی مشکلات کی تصویر کشی میں محتاط لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں۔ عباسی جیسی ایک اور مثالی خاتون کو پیش کرنا قاسمی کا ادبی مقصد ہے؟ یہاں تاجو عباسی کی طرح بے لوث نہیں۔ اگر ہم ادبی حقیقت پسندی کے استعمال پر غور کریں تو لگتا ہے کہ قاسمی سیاسی بے یقینی کے سامنے عملی رویے اور مذہبی عقیدے کے درمیان انتخاب کرتے وقت پنجابی دیہاتی کی ہچکچاہٹ پر توجہ دیتے ہیں۔

”وارث بیٹا!“ وہ بولی، ”لاہور تو چلا جا جنازہ میں پڑھ دوں گی۔ میں بچ گئی تو یونہی کسی کو روز ایک روٹی حرام کرنی پڑے گی۔ تو مر گیا تو تیرے ساتھ اذان بھی مر جائے گی۔“

”نہیں مائی۔“ وارث علی جلدی سے بولا، ”اذان بھی کبھی مری ہے۔ خدا کے لیے اب تو چلی جا۔“

مصنف کا اخری پیغام یہ ہے کہ پنجابی تاریخ تصادم کی لالی، نباتات کی ہریالی، مٹی کی زردی اور زرخیزی، آسمان کا نیلا پن اور زیورات کے سنہرا پن سے بنی ہے۔ لیکن آخر میں، سب کچھ ملا کر ایک مقدس سفیدی بن جاتی ہے جس کی علامت کپاس ہے۔ قاسمی کا خیال یہ ہے کہ تقدیر، چاہے وہ ناپائیدار اور خوفناک ہو، اس کا وجود ہی پاکیزگی ہے، جو اللہ کی عشق سے نصیب ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments