محکمہ تعلیم، حکومت سندھ کی طرف سے صوبے میں موسیقی کی تعلیم کی اجراء کے اعلان سے اس اقدام کی موافقت اور مخالفت میں صدہا صداہائے تحسین و تائید یا پھر تنقید و ذم بلند ہو رہی ہیں۔ جہاں کچھ لوگ اس قسم کے اقدام کے اعلان سے خوش ہیں وہیں ایک طبقہ اس کے اس قدر خلاف ہے کہ موسیقی کو حرام تک ٹھہراتا ہے۔ اور ہمارا خیال ہے کہ اگر ہم ”مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان“ کے آمر اعظم جنرل ضیاء الحق کے ”افغان برآمدہ“ و ”طالبان ساختہ“ اسلام پر یقین اور عمل کریں تو موسیقی کیا زندگی ہی حرام ہو جائے۔

ہم موسیقی کی بہت زیادہ رسیا نہ سہی کسی قدر موسیقی سننے اور گنگنانے میں دلچسپی ضرور رکھتے ہیں۔ بعض گیت باعث نشاط ہیں تو کئی اداس و ملول بھی کر دیتے ہیں۔ لیکن اکثر حظ آفرینی سے بھرپور ہیں۔ پھر یہ موسیقی، فلمی گیت بھی ہو سکتے ہیں، غزلیں بھی اور نیم کلاسیکل یا پھر (ہمیں ) نہ سمجھ میں آنے والے کلاسیکل گیت/راگ بھی۔ سندھی اور اردو /ہندی موسیقی سمیت ہم تو بچپن سے نہ سمجھنے کے باوجود ”راشہ او راشہ خوشے میدان دے“ (پشتو فلم: یوسف خان شیر بانو) اور اے حسن دغا باز (بلوچی: بہ آواز فیض بلیدی) اور مہندی تے واوی (گجراتی فلمی گیت/ فلم مہندی رنگ لاگیو) جیسے گیتوں پر بھی جھومتے آئے ہیں۔

استاد محمد جمن کی گائی ہوئی کافی ”او یار ڈاہڈی عشق آتش،“ محمد یوسف کا گا یا ہوا سندھ میں بنی سرائiکی فلم ”لیلیٰ مجنوں“ کا گیت ”عشق حسن دے کھیل ہزار لیلیٰ مجنوں کون سڈاوے؟“ رونا لیلیٰ کا گایا ہوا سندھی فلم ”محبوب مٹھا“ کا بلوچی گیت بول زبان پر نہ چڑھنے کے باوجود اور پی ٹی وی کے چھاپ تلک سب چھین لی سے لے کر پاکستانی زبانوں کے موسیقی کے پروگرام لوک تماشا وغیرہ تک سب کچھ شوق سے سنتے اور سر دھنتے رہے ہیں۔

ایک آدھ بار بھارتی زبانوں مثال کے طور پر تامل اور شاید تیلگو وغیرہ کے گیت بھی سننے کا اتفاق ہوا اور ان کی موسیقی اور نغمگی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہے۔

حد تو یہ ہے کہ ایک بار ہم لڑکپن میں اپنے ایک ہم عمر ماموں زاد کے ساتھ گاؤں میں ننھیالی کھیتوں پر گئے اور رات کو وہیں قیام کیا تو نیند نہ آنے پر رات دیر سے جب کہ صرف پاکستانی یا بھارتی ریڈیو نشریات ہی قابل رسائی تھیں یا پھر ریڈیو سیلو اس دور میں جب پاکستانی و بھارتی نشریات بھی ختم ہوئیں تو ہم دونوں ہی ریڈیو کے مختلف بینڈز اور چینلز کو گھماتے ہوئے ایک جگہ پر ایک عربی ڈرامہ سننے لگے۔ کچھ سمجھ میں تو نہیں پا رہے تھے، لیکن آوازوں کے زیروبم، لہجوں کے طلسم اور صوتی اتار چڑھاؤ نے متوجہ کیا اور کتنی ہی دیر تک خاموشی سے اس ڈرامے /مکالمے کو سننے میں محو رہے۔ اندھیری رات کے سناٹے میں کہ اپنا وجود بھی محض ایک سایہ سا محسوس ہو رہا تھا یہ سب کچھ بہت سحر انگیز تھا!

ہمیں یاد آیا کہ ابن انشاء صاحب نے بھی کسی سفر نامے میں لکھا تھا کہ پردیس میں ایک بار وہ ٹیلی ویژن دیکھنے لگے تو مختلف زبانوں کے چینلز اس طرح دیکھا کیے کہ کچھ جنت نگاہ تھا دیکھ لیا اور فردوس گوش تو سن لیا۔ یہ اس دور کی بات تھی جب پاکستان میں شاید ابھی ٹیلیویژن نشریات تا محدود تر تھیں یا شروع بھی نہیں ہوئی تھیں۔

غرض کہ سندھی، اردو/ہندی اور پنجابی وغیرہ کے کئی سارے گیت ہیں جو کہ ہم نے بار بار سنے ہیں اور شاید سنتے رہیں۔ تاہم بعض فلمی گیت جو کانوں کو سننے میں بھلے لگتے گویا کہ بقول انشاء جی فردوش گوش ٹھہرے ایسے گیت بعضے دیکھنے میں آنکھوں کے قطعی نہیں بھائے۔ ایسے ”گیتوں“ کی ایک مثال اداکارہ نغمہ اور حبیب پر فلمایا ہوا فلم ”ات خدا دا ویر“ کا یہ ”نغمہ“ بھی ہے ”جدوں ہولی جئی لینا ایں میرا ناں“ ۔ اور صد شکر کہ مذکورہ گیت اور فلم تھری ڈی میں نہیں تھے!

ہماری ناقص معلومات کے مطابق دنیابھر کے کئی الہامی و غیرالہامی مذاہب میں موسیقی کو ایک خاص مرتبہ و تقدس حاصل ہے۔ البتہ مسلمانوں میں موسیقی کے شدید شوق اور شغف کے باوجود اس حوالے سے اس قدر اختلاف موجود ہیں کہ بعض کے نزدیک یہ جائز ہے اور بعض کے مطابق حرام اور ناجائز!

تاہم بشمول اسلام، یہودیت، عیسائیت، بدھ مت، کنفیوشیست، سناتن دھرم (ہندو مت) اور دیگر کئی مذاہب میں موسیقی کا اہم کردار رہا ہے۔ دانشور و ماہرین کے مطابق موسیقی مذہب کو پر کشش بناتی ہے۔ اس کے ذریعے لوگ نہ صرف اپنے بلکہ دوسروں کے مذہب سے بھی قریب آتے ہیں۔

بعض اوقات اسلامی شعائر اذان اور قرات یا تلاوت قرآن کریم کو موسیقی سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ اگرچہ قرآن کی تلاوت یا اذان دنیاوی موسیقی سے بالکل مختلف ہے تاہم دونوں ہی کی ادائیگی میں ترنم اور نغمگی کا نمایاں عنصر پایا جاتا ہے۔ اور ماہرین موسیقی کا دعویٰ ہے کہ بے ساز مترنم و منظم صدائیں بھی موسیقی میں شا‏مل و شمار ہیں۔

اسلامی دنیا میں قوالیوں، حمد و نعت اور نوحہ جات و مرثیوں وغیرہ کو بھی جو کہ گائے ہی جاتے ہیں ایک تقدس حاصل ہے۔ جب کہ حسن قرات کے مقابلے تو اسلامی عالم میں عام و مقبول ہیں۔

ہمیں یاد ہے کہ پاکستان میں قاری وحید ظفر قاسمی کے گائے ہوئے حمدیہ کلام ”اللہ ہو اللہ ہو۔“ اور اور مرحومہ نازیہ حسن کے بھارتی فلم قربانی کے لیے گائے ہوئے گیت ”آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے تو بات بن جائے“ ( آخری حصے کو کچھ نا سمجھ خواتین و حضرات ”باپ بن جائے“ سمجھتے تھے ) کو ایک ہی دور میں تقریباً ایک ہی جیسی پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ اور ہم نے جب اس سلسلے میں اپنے ایک دوست کی توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ، ”دیکھو بھئی لوگ دو متضاد چیزوں کو بیک وقت پسند کر رہے ہیں!“ تو موصوف کو یہ بات ناگوار گزری تھی۔

برسبیل تذکرہ اس مرحلے پر ہم سوچ رہے ہیں کہ آخر عربی کے غناء اور ہماری زبانوں کے گائن/گانے اور انگریزی کے سانگ اور ہمارے سنگیت میں کیا تو ہم آہنگی یا لسانی تعلق ہے؟

ڈوئچے ویلے کی ایک رپورٹ کے مطابق جرمن ماہرین اور دانشور مذہبی موسیقی اور موسیقاروں کو طاقت کے اظہار کا ذریعہ بھی سمجھتے ہیں۔ مختلف معاشروں اور ثقافتوں میں مذہبی موسیقی اور موسیقاروں کو طاقت کے اظہار کے ایک موثر ذریعے کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ خاص طور سے جنگ کے زمانے میں یہ مخالفین کو اپنی قوت کے اظہار سے خوفزدہ کرنے کا ایک اہم ذریعہ بنتا ہے۔ مثلاً سلطنت عثمانیہ کے دور میں ترکوں نے اکثر میدان جنگ میں بہت بلند آواز والی موسیقی سے اپنے دشمنوں کو خوفزدہ کیا۔ اس دور کی تاریخ بتاتی ہے کہ ترکوں کی خاص قسم کی موسیقی نے کئی مخالف سپاہیوں کو اس حد تک خوفزدہ کیا کہ وہ فرار ہو گئے۔

مسلمانوں میں تصوف میں بھی موسیقی اور سماع کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ سندھ میں شاہ عبداللطیف اور ہند میں امیر خسرو تو سازوں کے موجد ین ‏میں شمار ہوتے ہیں۔ شاہ عبداللطیف کے بارے روایت ہے کہ انہوں نے دوران سماع میں ہی جان جان آفریں کے سپرد کی تھی۔

راقم الحروف نہ مسٹر ہیں نہ مولانا سو ہمیں مولود، حمد اور نعتیہ کلاموں سمیت قابل سماعت اور فردوس گوش چیزیں سننا پسند ہیں تاہم بھارتی فلمی گانوں کی دھن پر نعت وغیرہ اس بنا پر بھی ناپسند ہیں کہ یہ ایک قطعی بھونڈی ”نقل و حرکت“ ہے۔

موسیقی کے بارے میں ہماری رائے کیا ہے؟ ہمیں قرآن اور احادیث کے اپنے محدود مطالعے میں ایسی کوئی آیت یا مستند حدیث نظر نہیں آتی کہ جس میں موسیقی کی صریح اور واضح ممانعت اور حرمت بیان کی گئی ہو۔ سو ہم موسیقی کو حرام نہیں گردانتے۔

یاد رہے کہ دو ہزار انیس سے سعودی عرب کے تعلیمی اداروں میں بھی موسیقی کی تعلیم جاری ہو چکی ہے۔

علاوہ ازیں سید منظور الحسن صاحب نے غامدی ٹی وی پر اپنی ایک تحریر بہ عنوان ”اسلام اور موسیقی“ میں کہا ہے کہ: ”غنا یا موسیقی مباحات فطرت میں سے ہے۔ اسلامی شریعت نے اسے حرام قرار نہیں دیا۔ لوگ چاہیں تو حمد، نعت، غزل، گیت یا دیگر المیہ، طربیہ اور رزمیہ اصناف شاعری میں فن موسیقی کو استعمال کر سکتے ہیں۔ شعر و ادب کی ان اصناف میں اگر شرک و الحاد اور فسق و فجور جیسے نفس انسانی کو آلودہ کرنے والے مضامین پائے جائیں تو یہ بہرحال مذموم اور شنیع ہیں۔

اس شناخت کا باعث ظاہر ہے کہ نفس مضمون ہے۔ نفس مضمون اگر دین و اخلاق کی روسے جائز ہے تو نظم، نثر، تقریر، تحریر، صدا کاری یا موسیقی کی صورت میں اس کے تمام ذرائع ابلاغ مباح ہیں، لیکن اس کے اندر اگر کوئی اخلاقی قباحت موجود ہے تو اس کی حامل مخصوص چیزیں لازماً لغو قرار پائیں گی۔ چنانچہ مثال کے طور پر اگر کسی نعت میں مشرکانہ مضامین کے اشعار ہیں تو اس نعت کی شاعری ناجائز سمجھی جائے گی، صنف نعت ہی کو غلط نہیں کہا جائے گا۔ اسی طرح اگر کوئی نغمہ فحش شاعری پر مشتمل ہو تو اس کے اشعار ہی لائق مذمت ٹھیریں گے، نہ کہ اصناف شعر و نغمہ کو مذموم تصور کیا جائے گا۔ تاہم، کسی موقع پر اگر کوئی اخلاقی برائی کسی مباح چیز کے ساتھ لازم و ملزوم کی حیثیت اختیار کر لے تو سد ذریعہ کے اصول کے تحت اسے وقتی طور پر ممنوع قرار دیا جا سکتا ہے۔“

ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر کی دیگر چیزوں کی طرح یہ آپ کا انتخاب ہونا چاہیے کہ کیا قابل سماعت ہے اور کیا نہیں؟ آخر حلال اشیاء میں سے بھی تو ہر چیز نہ تو آپ کو مرغوب ہے اور نہ ہی مطلوب۔ تاہم جب کوئی پڑوسی یا عوامی سواری کا ڈرائیور ہماری مرضی کے بغیر ہمیں کچھ سنانے پر مصر ہو تو ہم موسیقی کو صوتی آلودگی کا باعث اور حرام ہی نہیں سمجھتے بلکہ سنانے والے ”غیر حلالیوں“ کو حلال کرنے تک کو دل چاہنے لگتا ہے!

ہمیں اس وقت بھی حیرت ہوتی ہے جب کوئی اس نوعیت کا فرمان جاری کرتا ہے کہ ”چولی کے نیچے کیا ہے،“ اور ”حسینوں کو آتے ہیں کیا کیا بہانے خدا ہی نہ جانے،“ وغیرہ جیسے گیت حرام ہیں کیوں کہ اس طرح سے تو گویا وہ دیگر تمام گیتوں کو حلال قرار دے دیتا ہے؟

ہاں ہم موسیقی کے مخالفین کو یہ تسلی یقیناً دیں گے کے کہ بھئی خاطر جمع رکھیں، محکمہ تعلیم حکومت سندھ کے موسیقی کی تعلیم کے اعلانات اور اقدامات سے موسیقی کو اتنا ہی فروغ ملنے والا ہے جتنا کہ صوبے اور ملک میں تعلیم، جمہوریت، روشن خیالی اور ہماری قومی/مادری زبانوں اور ثقافتوں یا پھر اسلام کو ہی مل سکا ہے۔ یا پھر ان سب کوششوں کا نتیجہ وہی نکلنے والا ہے جو کہ معاشی ترقی یا سیاسی استحکام کی کوششوں کا نکلتا رہا ہے۔ بس اتنی سی توقع ہے کہ اس طرح سے کچھ لوگوں کو ملازمتیں میسر آ جائیں گی اور کچھ لوگ ملازمتوں کی خریدوفروخت سے مستفیض یا مستفید بھی ہو سکتے ہیں۔ اللہ اللہ خیر صلا!