فیض صاحب کے نام۔ ”یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا“


ٓانیس سو چوراسی میں نومبر کا آخری عشرہ آغاز ہوا۔ لاہور میں سردی بڑھنے لگی تھی۔ اور پھر اس موسم میں سردی سے زیادہ اداسی در آئی تھی۔
کیا تمہیں پتہ ہے فیض صاحب رخصت ہو گئے؟ ”روزنامہ جنگ سے حسن رضوی صاحب، جنہیں میں حسن بھائی کہتا تھا، نے فون پر سوال کیا تھا۔“
جی، جانتا ہوں۔ جو چلے تو جاں سے گزر گئے۔ ”میں نے اداسی سے کہا۔“

تو دفتر پہنچو۔ جنگ کے خصوصی ایڈیشن کے لیے ادیبوں، شاعروں کے تاثرات لینے میں مدد چاہیے۔ ”انہوں نے جلدی میں کہا اور فون بند کر دیا۔ میں ایم اے سوشیالوجی کے حتمی مرحلے میں تھیسز مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ جنگ کے ادبی صفحہ کی ترتیب میں حسن بھائی کی معاونت بھی کیا کرتا تھا۔ اور جزوقتی طور پر اسی اخبار میں سب ایڈیٹر کے فرائض بھی انجام دیتا تھا۔

فیض صاحب کے انتقال کی خبر ادیب و صحافی دوست طارق کامران نے سنائی تھی اور ساتھ ہی ان کی غزل بھی
گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا
یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا
تھک کر یونہی پل بھر کے لئے آنکھ لگی تھی
سو کر ہی نہ اٹھیں یہ ارادہ تو نہیں تھا
شہر کی فضا سوگوار ہو گئی تھی۔ کوئی رخصت ہو گیا تھا۔
یہ فیض صاحب تھے۔
۔ ۔

کچھ دیر بعد میں جنگ کے دفتر سے ماڈل ٹاؤن کی جانب محو سفر تھا حسن بھائی کی کار میں۔ پہلے گھر رکے اور پھر قبرستان۔ لوگوں کا جم غفیر تھا وہاں۔ فیض صاحب ایک چارپائی میں لیٹے تھے، سفید کفن میں لپٹے، جنازے کے لیے صفیں ترتیب دی جا رہی تھیں۔ میں جہاں تھا وہیں رک گیا۔ حسن بھائی پیچھے مڑے، میرا بازو تھاما اور تقریباًً کھینچتے ہوئے اپنے ساتھ پہلی صف میں لے گئے۔ ادبی صفحہ کے انچارج کو سب نے بلا تامل جگہ دے دی تھی۔

صفیں بنیں، نماز ہوئی اور جنازہ کاندھے بدلتا تدفین کو روانہ ہوا۔ میں نے دیکھا کہ سرخ پرچم اٹھائے بہت سے شرکا جو نماز جنازہ میں شریک نہ ہوئے تھے وہ بھی ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ میں نے حسن بھائی کی طرف دیکھا۔ وہ سمجھ گئے۔ آہستہ سے بولے :

”یہ فیض صاحب کے اشتراکی کامریڈ ہیں۔ ان میں مزدور تنظیموں کے نمائندے بھی ہیں۔ وہ اپنے ایک کامریڈ کی یوں مذہبی تجہیز و تکفین سے خوش نہیں۔ مگر اس سفر میں شریک ہیں۔ فیض صاحب سے تو سبھی محبت کرتے تھے اہل ذوق سبزے بھی اور صاحب دل سرخے بھی۔“
حسن بھائی آہستہ آہستہ کہہ رہے تھے اور جنازہ قبر کی جانب بڑھ رہا تھا۔

قبر تیار تھی۔ فیض صاحب کو چھلکتی آنکھوں کے ساتھ قبر میں اتارا گیا۔ ایک کامریڈ نے سفید کفن کو سرخ پرچم سے ڈھانپ دیا تھا۔ اور پھر گویا ایک کمانڈر کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ سبھی اداس تھے۔ سبھی ملول تھے کہ ان کا محبوب رہنما، ان کا محبوب شاعر ان سے جدا ہو گیا تھا۔

یہ فیض صاحب تھے۔
۔

میں اور حسن بھائی وہاں موجود ادیبوں اور دانش وروں سے اخبار کے خصوصی ایڈیشن کے لیے تعزیتی پیغامات حاصل کرنے میں لگ گئے۔ تہتر برس اس عالم فانی پر بھرپور انداز میں گزار کر اور اپنا نقش ثبت کر کے ایک عظیم ہستی کے پردہ کر جانے پر سبھی غم کا اظہار کر رہے تھے اور اپنے اپنے تعلق کا محبت بھرا ذکر کر رہے تھے۔ ابھی کل کی بات تو تھی جب ان کی سترویں سال گرہ کا جشن منایا گیا تھا فلیٹیز ہوٹل میں جس میں انہوں نے پاکستانی ثقافت پر اپنے خطاب سے پہلے یہ دل چسپ جملہ بھی کہا تھا کہ ہمارے ہاں کوئی ساٹھ کا ہو جائے تو اسے کہتے ہیں کہ سٹھیا گیا ہے جبکہ ہم تو سترائے بترائے گئے ہیں۔ محفل قہقہہ بار ہو گئی تھی اور ان کا جملہ محاورہ بن گیا تھا۔

یہ فیض صاحب تھے۔
۔ ۔

حلقہ ارباب ذوق کے زیر اہتمام پاک ٹی ہاؤس میں فیض صاحب کے لیے ریفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ حلقہ کے سکریٹری سعادت سعید صاحب نے مجھے بھی نظم پیش کرنے کا موقع دیا۔ اس نظم کے چند ابتدائی مصرعے ذہن میں آرہے ہیں :

اے فیض من،
مسیحائے سخن
اے آسمان فن
میں تجھ کو یاد کرتا ہوں
تو حرف و صوت کے سارے ستارے
رقص میں معلوم ہوتے ہیں
زمانے اشک میں منظوم ہوتے ہیں۔

اس تعزیتی ریفرنس میں اس وقت کے سبھی اہم اہل فکر و قلم شریک تھے۔ ٹی ہاؤس کا بالائی کمرا کیا زینہ تک بھرا ہوا تھا۔ دوست اور محبین سب جمع تھے۔ اور اپنے اپنے انداز میں انہیں خراج محبت و عقیدت پیش کر رہے تھے۔

یہ فیض صاحب تھے۔
۔ ۔

فیض صاحب کے انتقال پر خصوصی تقریبات کا انعقاد بھی ہوا، اخبارات نے خصوصی ایڈیشنز شائع کیے اور جرائد نے خاص گوشے وقف کیے۔ ان پر لاتعداد مضامین اور نظمیں لکھی گئیں۔ میرے والد صاحب یزدانی جالندھری نے فیض صاحب کی وفات پر دو ’قطعات تاریخ وفات‘ رقم کیے۔ ایک میں ان کی تاریخ شمسی تقویم کے مطابق ( 1984 ) جبکہ دوسرے میں قمری تقویم کے حساب سے ( 1405 ) نکالی تھی۔ یہ ایک تخلیق کار کا اعتراف تھا دوسرے تخلیق کار کی جانب سے۔

یہ فیض صاحب تھے۔
۔

میری نگاہ میں تو وہ منظر بھی صاف اور روشن تھا جب اسی ہی کے عشرہ میں بھارت سے ممتاز افسانہ نگار عصمت چغتائی پاکستان آئی تھیں اور لاہور کے فری میسن (الحمرا) ہال میں ایک بڑی شام افسانہ منعقد کی گئی تھی۔ احمد ندیم قاسمی، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی، انیس ناگی، ڈاکٹر انور سجاد اور کتنے ہی دوسرے نام ور افسانہ نگار موجود تھے اس میں۔ حاضرین وقت سے پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔ نشستوں کی اگلی قطار افسانہ نگاروں اور مہمانوں کے لیے مختص تھی۔ سبھی لکھاریوں کا شایان شان خیرمقدم کیا گیا مگر جس گرم جوشی سے فیض صاحب کا استقبال ہوا وہ اپنی مثال آپ تھی۔ سب کھڑے ہو گئے اور مرکزی دروازے سے سٹیج تک پہنچ جانے تک تالیاں بجاتے رہے۔ فیض صاحب نے سرخ سے رنگ کی شرٹ اور سفید پتلون پہن رکھی تھی اور انگلیوں سے ہلکا ہلکا دھواں بلند ہو رہا تھا۔

یہ فیض صاحب تھے۔
۔ ۔

یہ ان کی شخصیت کی کشش تھی یا ان کے کام اور کلام کا رعب کہ میری نسل کے سبھی چھوٹے بڑے لکھنے والے، کم از کم جنھیں میں جانتا تھا، سبھی فیض صاحب کے فن و شخصیت کے اسیر تھے جنہوں نے خود اپنے ہی وطن میں اسیری کے دن گزارے تھے

مگر حوصلہ ہارے بغیر دنیا بھر میں آزادی، امن اور اردو کے فروغ کے لیے کام کرتے رہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کی فضا میں یوں تو اقبال سمیت کتنی ہی تاریخ ساز شخصیات کے ذکر کی مہک زندہ ہے مگر فیض صاحب سے اس تعلیمی ادارے کو ایک خاص محبت رہی۔ مجھے یاد ہے پروفیسر حضرات بھی ہم طلبہ کو یاد دلاتے رہتے کہ یہ وہی در دیوار ہیں، یہی کاریڈور ہیں، یہی پیڑ پودے ہیں جنھیں فیض کا قرب حاصل رہا ہے اور یہ کہ ہم راوین کتنے خوش قسمت ہیں کہ اسی فضا کا حصہ ہیں۔ طلبہ مختلف دیواروں پر آویزاں گروپ فوٹو دیکھا کرتے اور زعما کو تلاش کر کے اور انھیں دیکھ دیکھ کر خوش ہوا کرتے۔ میرے اساتذہ میں پروفیسر شاہد ملک، پروفیسر کے ایم صدیقی اور ڈاکٹر سلیم اختر اکثر فیض صاحب کے حوالے دیا کرتے۔

یہ فیض صاحب تھے۔
۔ ۔

فیض صاحب کی یاد میں فیض میلہ کے سلسلہ میں خصوصی مشاعرہ منعقد ہوا لارنس گارڈن ( باغ جناح) کے اوپن ائر تھیٹر میں۔ جس میں بعض نوجوانوں نے احمد ندیم قاسمی صاحب کی باری آنے پر ان کے خلاف نعرہ بازی کی اور انہیں غزل نہ پیش کرنے دی۔ اگلے روز ادبی رسالہ ”فنون“ کے دفتر ندیم صاحب رنجیدہ سے دکھائی دیے کہ انہیں آمریت کا حامی اور منافق کہا گیا جبکہ بقول ان کے انہوں نے کبھی آمریت کا ساتھ نہیں دیا۔ ہاں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں حیرت ہے ماضی میں جب ان کے سمیت سبھی ترقی پسند لکھاریوں کے پاسپورٹ حکومت نے ضبط کر لیے تھے اور انہیں تو ہوائی اڈے سے واپس بھیج دیا تھا کہ ان کے بیرون ملک سفر پر پابندی ہے ایسے میں فیض صاحب تنہا ایسے ترقی پسند تھے جو آزادانہ بیرون ملک بھی جا سکتے تھے اور اندرون ملک بھی گھوم پھر سکتے تھے۔

لاہور میں ایک سینئر شاعر و ادیب ڈاکٹر عبدالرشید تبسم صاحب نے ایک بار یہ انکشاف کیا کہ فیض صاحب ابتداً لینن پرائز لینے میں کچھ متامل تھے کیونکہ انہیں اطلاع ملی تھی کہ ان کا نام نوبل پرائز کے لیے بھی زیرغور ہے۔ لینن پرائز وصول کرنے کی صورت میں وہ نوبل پرائز کھٹائی میں پڑ جانے کا اندیشہ تھا۔ ان باتوں کی سچائی کو پرکھنے کی ہمت مجھے تو کبھی ہوئی نہیں۔ بس جو کانوں سے سنا وہ لکھ دیا ہے۔ سوچتا ہوں وہ کون بڑا آدمی ہو گا جو متنازع نہ رہا ہو۔ کیا فیض صاحب تک یہ باتیں پہنچیں؟ میں نہیں جانتا مگر میں یہ جانتا ہوں کہ ان تک پہنچی بھی ہوں گی تو انہوں نے سن کر مسکان اور دھوئیں میں اڑا دی ہوگی جیسا کہ ان کا مزاج تھا۔

یہ فیض صاحب تھے۔
۔ ۔

فیض صاحب کا کلیات ”نسخہ ہائے وفا“ آیا تو میں نے فیروز سنز پر جاکر دیکھا مگر بوجوہ فوری طور پر خرید نہ سکا۔ جی اداس ہوا۔ جرمنی سے ادیب، آرٹسٹ اور براڈکاسٹر دوست امجد علی ملنے آیا تو اس کے ہاتھ میں کلیات فیض کا تحفہ دیکھ کر دل کھل اٹھا۔ جس کے اندرونی سرورق پر اس نے فیض صاحب کی اس غزل کے چند اشعار بھی اپنے خوب صورت خط میں لکھ دیے تھے :

تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں

یہ شعر اور اسی غزل کے چند اور اشعار دوست امجد علی نے اس ”نسخہ ہائے وفا“ کے اولین ورق پر لکھے تھے جو اس نے مجھے تحفتاً دیا تھا اور جو اب تک میرے پاس فیض صاحب کے کلام اور گئے دنوں کی دوستی کی طرح مہکتا ہے۔

شمالی سردی کی شدت کو شکست دینے کے لیے میں اسی نسخہ ہائے وفا سے اپنے جی کو گرماتا رہتا ہوں
:
کر رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت نا گوار گزری ہے
سب قتل ہو کے تیرے مقابل سے آئے ہیں
ہم لوگ سرخ رو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں
اک ایسی راہ پہ جو تیری رہ گزر بھی نہیں
اٹھ کر تو آ گئے ہیں تری بزم سے مگر
کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں
یہ فیض صاحب تھے۔
یہ فیض صاحب ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments