جیہڑا سانوں سید آکھے، دوزح ملن سزائیاں


سید ایک ذات ہے جس کا شجرہ نسب آنحضرت ﷺ سے ملتا ہے۔ سید کو مسلمانوں میں سب سے افضل ذات سمجھا جاتا ہے اور جس عظیم ہستی سے تعلق کی وجہ سے سمجھا جاتا ہے انہوں نے تو آ کر ذات پات، حسب نسب، کالے گورے، امیر غریب کا فرق ختم کیا اور واضح طور پر فرما دیا کہ کوئی کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔ فوقیت کا فیصلہ محض تقویٰ پر ہو گا اور تقوی انسان کے دل میں ہے اور دل کا حال صرف عالم الغیوب جانتا ہے۔

کوئی انسان کسی کے ایمان کو کسی کے کفر کو کسی کے تقوی کو اس کی پرہیز گاری کو اس کی بدکاری کو دیکھ کر ایک رائے قائم کر سکتا ہے محض ایک رائے کیونکہ بسا اوقات آنکھوں دیکھا بھی سچ نہیں ہوا کرتا۔ لیکن وہ اس رائے کی بنیاد پر اسے سزا نہیں سنا سکتا۔ اسے ایذاء نہیں پہنچا سکتا۔ بلکہ مسلمان کی تو تعریف ہی یہ ہے کہ اس کے ہاتھ پیر اور زبان سے کسی کو کسی نوع کی کوئی تکلیف نہ پہنچے۔

تو پھر ہم کسی کو اس بات کی سزا دلوانا چاہتے ہیں کہ اس کے باپ دادا کی ذات کیا تھی وہ ہمارے ملک میں اقلیت ہے تو اسے اپنے نام کے ساتھ سید لگانے کی اجازت نہیں ہے۔ وہ سید کیسے ہو سکتا ہے اس کی ذات کا فیصلہ اب حکومت پاکستان کرے گا۔ بہت خوب۔ پاکستان میں تو ویسے جو بھی ہو وہ کم ہے۔ ہر روز ایک نئی پہلے سے بڑھ کر سنسنی خیز خبر سننے میں آتی ہے۔ آباو اجداد کی وراثت سے مال و متاع ہاتھ لگے یا نہ لگے لیکن حسب نسب کا تعین اسی سے ہوا کرتا ہے۔ کوئی شیخ ہے کوئی قریشی ہے کوئی مغل ہے کوئی پٹھان ہے کوئی جٹ ہے کوئی رانا کوئی سندھو کوئی ابڑو۔

اور یہ نام ان کو ان کی کسی ذاتی خوبی یا بعض اوقات کسی خامی کی بناء پر دیے جاتے ہیں۔ جو نسل در نسل چلتے ہیں۔ ان کا مقصد صرف اور صرف لوگوں کی پہچان تھا۔ لیکن لوگوں نے کچھ ذاتوں کو بڑا بنا لیا کچھ کو کمتر۔ پاکستان اور انڈیا میں ذات پات کو جو اہمیت دی جاتی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہندو جب لوگوں کو برہمن، کھشتری، ویش اور شودر کہتے تھے تو ہم مسلمان اسے نامناسب کہتے تھے۔ لیکن اب ہم جس کسی کو چاہیں ذات پات کے حوالے سے جو چاہیں کہیں۔ کسی کو اس کی ذات کے حوالے سے رگید دو۔ کسی کو اس کے مذہب سے حوالے سے نقصان پہنچا دو۔ اپنے آپ کو برہمن، دوسرے کو شودر بنا دو۔ اس کو تکلیف پہنچانا تو پھر گویا کار ثواب ہے۔

”یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو ”

یہ سوال علامہ اقبال جو ہمارے قومی شاعر ہیں برسوں پہلے ہم سے پوچھ رہے تھے۔ لیکن ہم نے انہیں جواب دینے میں بہت دیر کر دی۔ کیونکہ ہم بقول منیر نیازی ”ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں“

ہم آج تک اسی ذات پات کے مدار کے گرد طواف کر رہے ہیں۔ ایک احمدی پر اس جرم میں پرچہ کروانے کی خبر ہے کہ اس نے اپنے نام کے ساتھ سید کیوں لکھا۔ اور پرچہ کٹوانے والے کوئی اور نہیں قانون کی جنگ لڑنے والے وکلاء کی طرف سے یہ درخواست پیش کی گئی۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں اور جس طرح کے جہلاء سے وطن عزیز بھرا ہوا ہے صاف ظاہر ہے کہ آخری بھی نہیں ہو گا۔ جس کسی سے کوئی ذاتی رنجش ہو، پرخاش ہو اور اگر اس کا مذہب یا فرقہ ہم سے الگ نکل آئے تو بس سمجھیے کہ آپ کی تو چاندی ہو گئی۔

آپ فوراً سے پیشتر اس کے خلاف مذہب کارڈ کھیلیے اور ”ہارے بھی تو بازی مات نہیں“ آپ کا کیس کتنا بھی کمزور کیوں نہ ہو لیکن مذہبی نفرت ہمیشہ جیتتی ہے ہمیشہ فاتح رہتی ہے۔ اس بندے کی ساری اچھائیاں پس پشت ڈال کر بس صرف حملہ اس کے مذہب پر کیجیے اور جیت جائیں۔ نہایت مجرب نسخہ جو ہمیشہ اثر کرتا ہے۔ بس توہین رسالت کا الزام داغیے اور اس کا کام تمام۔ ایسے ایسے جہلاء کے ہجوم بنا کسی تحقیق کسی ثبوت کسی دلیل کے کسی گواہ کے آپ کا ساتھ دینے کو تیار ہوں گے۔ کیونکہ جنگل کا سا قانون ہے کوئی حکومتی ادارہ کوئی قانونی رکھوالا آپ کو سزا نہیں دے گا۔ بلکہ الٹا آپ کو تعریفی القابات سے نوازا جائے گا۔ آپ کو سچا عاشق رسول ﷺ کہا جائے گا بے شک آپ کو ایک حدیث بھی نہ آتی ہو۔

مکرم وجاہت مسعود صاحب کا بائیس نومبر کا ایک ٹویٹ جس میں انہوں نے اس واقعہ کا ذکر کیا۔ اس ٹویٹ کے نیچے عوام کے کمنٹس پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے کم ازکم میٹرک تک تعلیم تو رکھتے ہی ہوں گے۔ لیکن ان کے کمنٹس پڑھ کر لگتا ہے کہ علم کی روشنی انہیں چھو کر بھی نہیں گزری۔ جس پاک نبی ﷺ کے خاندان کے لیے وہ مقدمے دائر کر رہے ہیں۔ اس کی تعلیم پر عمل کرنا تو دور کی بات انہیں اس تعلیم کا علم ہی نہیں ہے۔

کچھ افراد جن کی ڈی پی پر اخلاق باختہ تصاویر لگی ہیں۔ ہر خاتون کے انباکس میں جا کر سلام کرنا جو اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں لیکن وہ وجاہت صاحب کے مذہب ہر ایسے حملے کر رہے تھے کہ الامان الحفیظ۔ ویسے ایک بات عرض کرتی چلوں کہ شاہ ذات ہندوؤں میں بھی ہوتی ہے۔ اب یہ کہیں ”کشمیرا شاہ“ پر پرچہ نہ کٹوا دیں کہ آپ تو انڈین اداکارہ ہیں اور ہندو مذہب سے تعلق ہے تو آپ شاہ کیسے ہو سکتی ہیں۔ کوئی صاحب یا صاحبہ فرماتی ہیں کہ وہ اپنے آپ کو اقلیت مان لیں تو ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں تو ایسے تمام خواتین و حضرات سے میرا سوال ہے کہ کیا اس سری لنکن مینجر نے جس کو زندہ جلایا گیا تھا اپنے آپ کو سید کہا تھا یا ایسا کوئی دعوی کیا تھا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ وہ اپنے آپ کو اقلیت نہیں سمجھتا۔

جن ہندو لڑکیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں کیا وہ اپنے آپ کو اکثریت گردانتی ہیں؟ جن کرسچین مذہب سے تعلق رکھنے افراد کے ساتھ ظلم زیادتی کی جاتی ہے وہ کب اپنے نام کے ساتھ سید لگاتے ہیں۔ لیکن ایسے گندی زبان کا استعمال کہ پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور ایک مذہبی ایشو پر بات کر رہے ہیں۔

اس قدر گندی زبان کسی عاشق رسول ﷺ کی کس طرح ہو سکتی ہے؟ جس انسان کو بھی دین کا معمولی سا بھی علم ہوتا ہے وہ نہ بدزبان ہو سکتا ہے نہ فحش گو نہ یاوہ گوہ۔ گالم گلوچ اور کسی کے بزرگوں کے بارے بد زبانی کرنا تو دور کی بات ہے۔ لیکن جن کے نام نہاد علماء گالیاں دینے کے عادی ہوں۔ وہ اس پر امن مذہب اور سلامتی والے پیارے مذہب کی حقیقت کب سمجھ سکتے ہیں۔ ان کو صرف ایک تعلیم دی گئی ہے صرف ایک لائحہ عمل سمجھایا گیا ہے کہ جو بھی تم سے ہٹ کر ہو تمہارے خیالات سے الگ خیال رکھتا ہو انسان کی عزت اور انسانیت کا درس دیتا ہو اسے تہس نہس کر کے رکھ دو۔

اپنی زبان کے وار سے اس کے خاندان کو اس کی سات نسلوں کو اس قدر برا بھلا کہو کہ آئندہ کسی اور کی جرات نہ ہو کسی اقلیت یا کسی کمزور کا ساتھ دینے کی۔ اب مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے کہ ایک احمدی جسے پاکستانی حکومت 1974 ء میں ہی اقلیت قرار دے چکی ہے وہ سید کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا اس وقت دنیا میں جتنے بھی سید ہیں وہ اپنے آپ کا اہل بیت ہونا ثابت کر سکتے ہیں؟ کیا کسی سید نے اپنا مذہب نہیں بدلا؟ اپنے فرقہ تبدیل نہیں کیا؟

کیا سب سید پنج وقتہ نمازوں کے پابند ہیں؟ تلاوت قرآن کریم با ترجمہ کرتے ہیں؟ کوئی خلاف شریعت کام نہیں کرتے؟ ہر سید خاتون پردے میں بیٹھی ہے؟ یہ جو اتنی سید خواتین ڈراموں اور فلموں میں کام کرتی دکھائی ہیں۔ ٹک ٹاک اور دیگر وڈیوز بناتیں ہیں۔ جو سید غیر عورتوں کے ساتھ فلموں ڈراموں میں کام کرتے ہیں۔ رشوت لیتے ہیں۔ سود کے کاروبار کرتے ہیں۔ شراب پیتے ہیں، زنا کرتے ہیں، غیر اخلاقی حرکات میں ملوث ہیں۔ ان سب پر پہلے پرچہ کٹوایے کیونکہ یہ بھی تو سید ہونے کے اہل نہیں۔ ان کے سارے گناہ کیوں معاف ہیں۔ ہمارے ہاں تو کسی کو جب کچھ سمجھ نہ آئے تو یا وہ سید، شاہ بن جاتا ہے یا خان۔ یہی دونوں ذاتیں فیشن میں ان ہوتی ہیں۔ آج اگر ہر کسی کے شجرہ نسب دیکھے جائیں تو معلوم ہو گا کہ ”کیا سے کیا ہو گئے دیکھتے دیکھتے“

ایک احمدی کے سید ہونے کی فکر میں گھلنے کی بجائے اپنے اعمال درست کیجیے۔ آخرت میں یہ سوال نہیں ہو گا کہ کسی اقلیت کے سید ہونے پر ہنگامہ کیوں نہیں کیا بلکہ سوال ہو گا کہ نمازیں کتنی پڑھیں؟ قرآنی تعلیم پر کتنا عمل کیا؟ اپنی زبان اور ہاتھ سے دوسرے کو تکلیف کتنی پہنچائی؟ کس کے لیے آسانی پیدا کی اور کس کی زندگی مشکل بنائی؟ یہ ذات پات کے مسائل تو اس کے سامنے پیش ہی نہیں ہونے۔ وہاں جو سوال ہونے ہیں اس پرچے کی فکر کریں بجائے یہاں پرچے کٹوانے کے۔

جس طرح قرآن شریف کی حفاظت کا ذمہ اس رب جلیل نے لیا ہوا ہے۔ اسی طرح آنحضرت ﷺ انسان کامل، خاتم الانبیاء، فخر موجودات، خیر رسل کی ناموس کا رکھوالا بھی وہی قادر خدا ہے۔ کسی انسان کی یہ مجال ہی کہاں کہ وہ اس محبوب خدا کی شان میں گستاخی کرے اور خدائی عذاب اسے اچک نہ لے جائے۔ میرے اور آپ جیسے معمولی انسان کیا اس عظیم الشان ہستی کے ناموس کی حفاظت کریں گے جس کے نام کو تا قیامت روشن رکھنے کے لیے وہ مالک دو جہان موجود ہے۔

ہمیں صرف اپنے آپ کو اس قابل بنانا ہے کہ اس حوض کوثر سے پانی پی سکیں۔ اس اونچی شان والے نبی کے امتی کہلا سکیں۔ اس کی شفاعت کے حق دار بن سکیں۔ جو گند بکنے والے تو ہر گز نہیں ہو سکتے۔ کسی دوسرے کے بنیادی حقوق سلب کرنے والے تو نہیں ہو سکتے۔ خدارا کسی بھی دوسرے انسان کے لیے زندگی مشکل نہ بنائیں۔ آسانیاں پیدا کیجیے تا کہ آپ کے لیے بھی آسانیاں پیدا ہوں۔ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں تو اپنے عمل سے اپنے آپ کو سلامتی دینے والا ثابت کرنا بھی آپ کا فرض ہے۔

”دل میں ہو سوز تو آنکھوں سے رواں ہوں آنسو
تم میں اسلام کا ہو مغز فقط نام نہ ہو
سر میں نخوت نہ ہو آنکھوں میں نہ ہو برق غضب
دل میں کینہ نہ ہو لب پہ کبھی دشنام نہ ہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments