قرۃالعین حیدر کے آٹو گراف


گفتگو کا سلسلہ جانے کہاں سے شروع ہو کہاں سے ہوتا انداز تحریر تک پہنچا تو شوکت پراچہ کے مونہہ سے نکلا ”قرۃالعین حیدر کا رنگ کہیں کہیں جھلک دیتا ہے“ ۔ میں چونک اٹھا۔ بے شمار ناول افسانے ادبی رسالہ پڑھے میرے تعلق والوں نے قرۃالعین کا نام بھی نہیں سنا ہوا یا چند صفحات کے بعد ، سمجھنا مشکل ہے، کا نعرہ لگانے کی حد تک ہی، اور یہ سرگودھا کا آٹو پارٹس ڈیلر اور قرۃالعین حیدر کا انداز تحریر؟ میں چونک اٹھا ”ارے یہ تم اور قرۃالعین حیدر یہ کیسے؟

میری کاروباری دوستیاں مضبوط گہرے تعلقات تک پہنچتی اکثر دوسری تیسری نسل تک جا پہنچیں۔ اکسٹھ برس قبل مجھ سے پندرہ بیس سال بڑے عبدالغفور پراچہ سے کاروباری دوستی اب مجھ سے دس بارہ سال چھوٹے ان کے بیٹے سے کچھ اور زیادہ گہری ہے۔ شہر سے باہر فارم ہاؤس میں رہتے اکیلے میاں بیوی، کہ بیٹے بیرون ملک جا بسے۔ اکثر جب راتوں کو نیند اڑ جاتی ہے تو ”اسے قہر کی رات“ قرار دینے کی بجائے وہ مجھے فون کر لیتا ہے اور عموماً وہ پاکستان کے رات اڑھائی، تین یا چار کا وقت ہوتا ہے اور میرا دوپہر کی نیند کا وقت اس سے گپ مارتے گزرتا ہے۔

اور اب وہ مجھے بتا رہا تھا کہ وہ قرۃالعین کی تحریروں کا مداح اور رسیا ہی نہیں خود اس کی ذات سے متاثر ہے۔ اور اس کی تمام تصانیف اس کے پاس نہ صرف موجود ہیں بلکہ چند صفحے لازما ”پڑھ کے سونا اس کے معمول میں شامل ہے۔

اور میں اسے بتا رہا تھا کہ میں پچاس کی دہائی کے اواخر میں کالج کی لائیبریری سے ”میرے بھی صنم خانے“ سے اس سے متعارف ہوا اور پہلے چند باب دو تین مرتبہ پڑھنے کے بعد اسے نہ صرف سمجھنے کے قابل ہوا بلکہ اندازہ یہ بھی ہوا کہ اس کی تحریر آملہ کا اچار ہے جس کا سواد کھانے کے بعد آنا شروع ہوتا ہے اور دیر تک رہتا ہے۔ میں بتا رہا تھا انیس سو اڑسٹھ میں شادی سے پہلے تک میں اس کے ناولٹ، سفینۂ غم دل، پت جھڑ کی آواز، وغیرہ اور سب سے بڑھ، آگ کا دریا، پڑھ چکا تھا۔

کاروباری اوقات میں ایسی مصروفیت میرے سیکھے سبق کے خلاف تھی اور گھر پہ مطالعہ شادی والے دن کے بعد سے ”حقوق الزوجہ“ کے خلاف قرار دیا جا چکا تھا۔ لہذا ہر قسم کا مطالعہ ختم۔ مگر شفیق الرحمان اور قرۃالعین کی تحریریں اکثر گونجتی رہتی ہیں۔ اور اس کے بعد کی زندگی ویسے بھی طوفانوں اور آندھیوں سے چو مکھی لڑتے اتنی مصروف رہی کہ ”یاراں فراموش کردند عشق“ کی حد تک جا ہوش ہی نہ رہا ایسے مشغلوں کے ساتھ ذہنی تفریح کا۔

شوکت پراچہ بستر سے اٹھ بیٹھا تھا اور مجھے گنوا رہا تھا کہ یہ کتاب بھی میرے پاس ہے، یہ تصنیف بھی میرے پاس ہے۔ شاید ہی کوئی تصنیف اس کی ہو جو شوکت کے پاس نہ ہو۔ پھر وہ اس کی زندگی طرف آ گیا۔ سجاد حیدر یلدرم اور ان کی مصنفہ بیگم سے چلتے وہ بتا رہا کہ ہندوستاں کی اعلی ترین پالشڈ سوسائٹی کی رکن کے طور پلتے بڑھتے وہ پاکستان آئی تو سارا زیور جہاز میں ہی بھول آئی۔ والد کی تعیناتیاں کہاں ہوتی رہیں، ماں باپ کی تحریروں میں کیا چاشنی تھی، سے بڑھتے اس کی زندگی کی پوری داستان اس کو از بر تھی۔

میں نے ”آگ کا دریا“ کی اشاعت کے بعد اس پر توہین مذہب کے فتوے کی وجہ سے ہندوستان لوٹ جانے کا ذکر کیا تو وہ بتانے لگا کہ سجاد حیدر یلدرم سے پنڈت نہرو کی ذاتی دوستی تھی اور اس فتوے کے بعد پنڈت نہرو کی ذاتی دعوت پر وہ بمبئی چلی گئیں انہیں باوقار ملازمت، فلم سنسر بورڈ کی رکنیت سے بڑھتے پتہ نہیں کہاں کہاں تک پہنچنے کا موقعہ ملا۔ اسے ان کو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ، گیان پیٹھ اور پدم شری کے ایوارڈ ملنے کے سنہ بھی یاد تھے۔

میں نے یاد دلایا کہ اس نے شادی بھی نہیں کی تو اس کی رائے تھی کہ جتنی وہ قابل اور معاشرہ کے جس اعلی پایہ کے طبقہ سے تھی اسے شاید کوئی ہم پلہ ملا ہی نہ ہو اور میری رائے تھی کہ اس کی تحریر میں چھپے درد سے میں تو سمجھتا ہوں مسئلہ ”پایا نہیں“ شاید نہ ہو بلکہ ”پا نہ سکی“ والا ہو۔ تب وہ بتا رہا تھا کہ وہ تو دہلی جا اس سے ملاقات بھی کر چکا ہے۔ میری حیرت اور بڑھ چکی اور اب میں اس کی تفصیل سن رہا تھا۔

ستر کی دہائی کے اواخر سے اسؔی کی دہائی کے چند سال شوکت پراچہ اسلام آباد کنسٹرکشن انڈسٹری سے منسلک رہا۔ انیس سو بیاسی کے وسط میں ایک دوست، جس کے بیٹے کی بیماری کے لئے دہلی جانا ضروری تھا اور وہ خود اپنی علالت کے باعث جا نہ سکتا تھا، شوکت سے اپنے بیٹے کو لے کر جانے کی درخواست کہ وہ ایک بار پہلے گھوم چکا تھا۔ شوکت کا ایک کلاس فیلو ہندوستانی سفارت خانے میں تھا۔ اس نے اس سے درخواست کی کہ وہ اسے قرۃالعین حیدر کا فون نمبر لے دے کیونکہ اب اس کے مستقل دہلی منتقل ہو چکنے کی اطلاع تھی۔

اگلے روز اسے نمبر مل چکا تھا اور وہ دہلی فون گھما اس سے بات کر رہا تھا اور اپنے پروانہ ہوتے شوق ملاقات کا ذکر کر رہا تھا۔ پر شفقت شگفتہ مگر اٹکتی آواز میں جواب ملا کہ ان کے خیال میں شوکت کا ویزا صرف دہلی تک محدود ہو گا اور وہ دہلی کے حدود کے باہر نائیڈو رہتی ہیں۔ انہوں نے دہلی کے مشہور پوش کلب کا نمبر دیا اور کہا دہلی پہنچ مجھے فون کر لینا اور میں وقت پر اس کلب میں آ جاؤں گی اور تمہاری خواہش پوری ہو جائے گی۔

چند روز بعد سرگودھا کا شوکت پراچہ، چاندنی چوک دہلی کی کتابوں کی دکان سے خریدی ”آگ کا دریا“ کی جلد ہاتھ میں پکڑے مذکورہ کلب میں کھڑا تھا اور قرۃالعین کی سیکرٹری ریحانہ اپنا تعارف کراتی اس کا استقبال کر رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ اپنی کار سے اتر رہی تھیں۔ جسم کا دایاں حصہ فالج کے اثر سے مکمل فعال نہ تھا۔ بات دھیمی اور اٹکتی آواز میں تھی۔ کافی دیر شوکت ان کی تحریروں سے اپنے عشق بیان کرتا ان کے فیض سے مستفیض ہوتا رہا اور اس کلب کے اعلی ترین لوازمات کے ساتھ چائے کی چسکی لیتا رہا۔

تب شوکت نے اجازت چاہتے ”آگ کا دریا“ کی جلد آگے کرتے آٹو گراف کی فرمائش کردی۔ دکھ بھرے لہجے میں جواب تھا، ”بیٹا، میرا دایاں ہاتھ تو لکھ ہی نہیں سکتا اور بائیں ہاتھ سے نہ دستخط ہوں گے نہ ہی صحیح لکھا جا سکے گا۔

شوکت پراچہ آنکھوں میں آنسو لئے اجازت لے باہر آ رہا تھا اور ریحانہ اس وداع کہنے کلب کے گیٹ تک آ چکی تھی۔ اور ٹیکسی میں بیٹھا شوکت ہاتھ میں پکڑی کتاب کے خالی صفحہ پر وہ آٹو گراف ڈھونڈ رہا تھا جو اس کے لئے زندگی بھر کا اعزاز ہوتے۔

شوکت کے لہجہ میں درد تھا اور میرے ذہن میں وہ ٹکڑا گھوم رہا تھا۔
باغ میں پھول ہیں۔
باغباں نے جا بجا بورڈ لگا رکھے ہیں
”پھول توڑنا منع ہے
مگر ہوا اندھی ہے
وہ پڑھ نہیں سکتی
وہ پھول توڑ پھینکے جا رہی ہے ”
۔ اوہ تو گویا یہ یوں تھا

ہوا نے پنکھڑیاں بکھیرنا شروع کر دیں تھیں۔ میرا ذہن سوچ رہا تھا۔ مجھے اس کا لکھا تقریباً زبانی یاد وہ پیرا گراف گونج رہا تھا۔

” دنیا جو کچھ ہم چاہتے ہیں، ہمیں کبھی نہیں دیتی۔ ہم احمقوں کی طرح مونہہ کھولے سامنے مستقبل کے اندھیرے کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ اور آخر کار ایک روز اس اندھیرے میں سے موت نکل کر آتی ہے اور ہمیں ہڑپ کر لیتی ہے۔ اور اس سارے نظام کائنات پر ہماری غیر موجودگی سے کو کی فرق نہیں پڑتا“

یہ ملاقات سات اگست انیس سو بیاسی کی سہ پہر ہوئی تھی۔ اب شوکت بغیر آٹو گراف کے ”آگ کا دریا“ کی جلد ہاتھ میں لئے واپس آ چکا تھا اور چند روز بعد شکریہ ادا کرنے ریحانہ سے فون ملا ان سے بات کرانے کی درخواست کی تو جواب ملا وہ تو شدید علیل کیلاش ہسپتال میں داخل ہیں اور بات کرنے کے قابل نہیں۔ اور ستائیس اگست انیس سو بیاسی کو اسے قرۃالعین حیدر کی اللہ کے حضور حاضر ہو جانے کی خبر مل چکی تھی۔

شوکت شاید اس وقت پھر ”آگ کا دریا“ کی جلد ہاتھ میں پکڑے اس کے پہلے صفحے پر آٹو گراف ڈھونڈ رہا تھا۔ ادھر اس کی بیگم کی آواز ابھر رہی تھی کہ اب آئیں بھی، سو بھی جائیں، فجر ہونے کو ہے۔ ادھر نیچے کچن سے میری بیگم کی پکار چائے ٹھنڈے ہو جانے کا شکوہ فرما رہی تھی۔ مگر میں پھر قرۃالعین کے اس پیرا گراف کو پڑھ رہا تھا۔

” یہ پہاڑ، یہ طوفانی نالے، یہ اونچے بے پروا درخت، ان سب پر میرے وجود کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کبھی خدا آئے گا اور زندگی کی دھڑکن کے خاتمے کے بعد اپنی اس بے کراں کائنات کے ویرانے میں بہتی ان پر شور طوفانی ندیوں کو دیکھ کر سوچے گا، میں نے یہ دنیا کیوں بنائی تھی“

یہ اس کا فلسفہ تھا یا اس کی اپنی کہانی یا توہین مذہب۔ یہ کون جانے۔ مگر میری آنکھیں تصور میں کتاب کے اس خالی صفحے کو گھور رہی تھیں جہاں شوکت آٹو گراف ڈھونڈ رہا تھا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments