ارشد شریف کا زندہ رہنا اشد ضروری ہے!


ارشد شریف کو زمین میں دفن ہوئے چھ ہفتے گزر چکے ہیں۔ ارشد شریف مگر آج بھی مرنے سے انکاری ہے۔

معاشرہ ہے کہ بری طرح منقسم ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ آزادی صحافت کے بڑے بڑے علمبردار ارشد شریف کے حق میں یوں کھڑے نہیں ہوئے، جیسا کہ ابھی ہم نے پچھلے ہی برس ان میں کئی ایک کو اسلام آباد میں بازاری زبان استعمال کرنے والے ایک سڑک چھاپ یوٹیوبر کی پٹائی پر بیچ چوراہے میں منہ سے جھاگ اڑاتے دیکھا تھا۔ جب مطالبہ ہوتا ہے کہ معاملے کی شفاف تحقیقات کی جائیں، تو اس کے جواب میں کیا حکومت کا طرز عمل حیران کن ہے؟ ہر سال برپا ہونے والے سیمینار میں انسانی حقوق کی اہمیت اجاگر کرنے والوں سے بھی کسی شنوائی کے دوران صحافی ارشد شریف کے معاملے میں ہم نے کوئی ایسے ریمارکس نہیں سنے کہ جنہیں چوکس عدالتی رپورٹر لے اڑتے۔

بڑے اخباروں کی سرخیاں اور انہی میڈیا ہاؤسز کے ٹی وی چینلز کی ہیڈ لائنز کی جو زینت بنتے۔ جمہوریت، انسانی حقوق اور سویلین بالا دستی کے سرخیل انگریزی اخبار نے ایک آدھ اداریہ لکھ کر ’پرو اسٹیبلشمنٹ‘ ارشد شریف کے قتل پر تشویش کا اظہار ضرور کیا مگر ایسے جیسے ہم اور آپ کسی پولیس مقابلے میں مارے جانے والے چور ڈاکو کے ماورائے عدالت قتل پر نیم دلی سے افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ ارشد شریف چور ڈاکو نہیں تھا۔

ارشد شریف ایک نامور اور بے خوف صحافی تھا۔ ایک عشرہ ڈیڑھ عشرہ قبل ایک صحافی کی تشدد زدہ لاش نہر کے کنارے اٹکی پائی گئی تو مغربی ممالک اور وہیں کی عالمی صحافتی تنظیموں نے پیٹ پیٹ کر خود اپنے چہرے لال کر لئے تھے۔ یہاں ان کے مقامی کارندوں نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو براہ راست مورد الزام ٹھہراتے ہوئے مہینوں آسمان سر پر اٹھائے رکھا۔ اسی کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں فکر لاحق تھی کہ ارشد شریف کے معاملے میں ہمارے جمہوریت پسند لبرل نہ سہی، کم از کم گورے تو خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ مگر حیران کن طور پر عالمی صحافتی تنظیموں کے نیم دلانہ رد عمل کے مقابلے میں ارشد شریف کے قتل ناحق پر خود کینیا جیسے تاریک ملک کے مقامی صحافیوں کا طرز عمل کہیں بڑھ کر پر خلوص اور پر جوش تھا۔

ارشد شریف کو اس کی صحافتی خدمات کے بدلے میں کوئی عالمی ایوارڈ ملنے کی توقع بھی ہمیں نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ حسین حقانی نیٹ ورک کے زیر اہتمام اس کے قتل کی مذمت کے لئے کسی مغربی دارالحکومت میں کوئی سیمینار بھی منعقد نہیں ہو گا۔ ہم جانتے ہیں کہ اس سب کا سبب ایک ہی ہے۔ ارشد شریف کا جرم ایک ہی ہے کہ اب سے کچھ مہینے پہلے تک ارشد شریف ’پرو اسٹیبلشمنٹ‘ صحافی ہونے کی شہرت رکھتا تھا۔ یہی وہ گناہ تھا کہ جس کی ’پخ‘ جمہوریت کے علمبرداروں کی طرف سے ارشد شریف کے قتل کی مذمت کے ساتھ کسی نا کسی شکل میں چپک کر رہ جاتی ہے۔

ارشد شریف مگر اس سب کے باوجود آج بھی زندہ ہے۔ ضیاء الحق کے کوڑوں کے نشان اپنی پیٹھوں پر لئے کئی جری صحافی بھی زندہ ہیں۔ اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے والے کئی بڑے نام بھی زندہ ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے ظہور کے ساتھ ہی مگر کھمبیوں کی طرح جا بجا اگ آنے والے نیم خواندہ میڈیا سٹارز میں سے بھی کئی ایسے ہیں کہ جن کی چار عالم میں شہرت کا اولین سبب ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور ان سے ہمدردی رکھنے والوں کے خلاف زبان درازی ہی ہے۔

خود کی سلامتی کو لاحق خدشات کو لے کر جو اپنا اپنا ڈھول پیٹتے رہے ہیں۔ آج وہ سب بھی زندہ ہیں۔ اکیلے ارشد شریف نے زمین میں دفن ہو کر مگر ان سب کو زندہ درگور کر دیا ہے۔ ارشد شریف مگر دفن ہو کر بھی زندہ ہے۔ ارشد شریف اس لئے زندہ ہے کہ اس کے پیچھے نا تو عالمی اسٹیبلشمنٹ کھڑی ہے اور نہ ہی مقامی سیاسی خاندانوں کی صورت میں الیٹ گروہ اور نہ ہی کوئی اور قوت آخری دنوں میں اس کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ ارشد شریف اگر آج زندہ ہے تو محض پاکستانیوں کے سر پر زندہ ہے۔

مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس جس کا ہراول دستہ ہے۔ ان عام پاکستانیوں کی تعداد لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں ہے۔ یہ پاکستانی صرف پاکستان کے اندر نہیں ملکوں ملکوں بستے ہیں۔ سوشل میڈیا پر آج بھی ارشد شریف کی تصویر لئے سینکڑوں پوسٹیں ہر روز دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایک ایک پوسٹ پر ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی ارشد شریف سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ پچھلے چالیس دنوں سے ہر روز کرتے ہیں۔

ارشد شریف کون تھا؟ دو عشروں پہلے جس بے چہرہ جنگ کا عفریت مغربی سرحدوں سے پھن پھیلائے نمودار ہوا تھا، کئی برسوں تک پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ عوام کی حمایت سے محروم تن تنہا اس سے نبرد آزما رہنے پر مجبور رہی۔ ہمارے ہاں قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کو اپنا بھائی کہا جاتا رہا۔ بتایا جاتا کہ ان کے لاشوں سے جنت کی خوشبو اٹھتی ہے۔ دوسری طرف پاک فوج کے شہیدوں کے جنازوں کو بھی حرام قرار دے دیا گیا۔ وطن عزیز کے شہروں، قصبوں، بازاروں، مزاروں اور تفریح گاہوں میں بے گناہ پاکستانی مرد، عورتیں، بزرگ اور بچے تاریک راہوں میں مارے جاتے رہے۔

یہی وہ دور تھا جب آج اسٹیبلشمنٹ کی ’غیر جانبداری‘ کی وقتی طور پر مداح سرائی کرنے والے اپنے مقامی اور بیرونی آقاؤں کی ایماء پر دہشت گردی کی جنگ میں مصروف انہی افواج پردن رات طرح طرح کی الزام تراشیوں میں جٹے رہتے اور شہرت کماتے تھے۔ ہر دھماکے کے بعد لائیو نشریات میں چیخ چیخ کر بتایا جاتا کہ دہشت گردی کے پیچھے پاکستانی ’ایجنسیوں‘ کا ہاتھ ہے۔ اسی سانس میں پاک افواج کو امریکی جنگ لڑنے کا طعنہ بھی دیا جاتا۔

مورچے میں بیٹھے سپاہی کا کیا لینا دینا کہ جنگ کس کی ہے؟ چنانچہ ہر رینک کے افسر اور سجیلے جوان جانوں کی قربانیاں دیتے رہے۔ دہشت گردی کا عفریت مگر قابو میں آتا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف پانسہ اسی وقت پلٹا، جب میڈیا کے ایک حصے نے درندوں کے چہروں کو بے نقاب کرنا شروع کیا۔ وقت آیا کہ عوام پاک افواج کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو گئے۔ یہی وہ دور تھا جب ارشد شریف اور اس جیسے چند سر پھرے کیمرے اٹھائے کبھی سیاچین، کبھی بلوچستان تو کبھی افغان سرحد کے ساتھ سینہ سپر افسروں اور جوانوں کے ساتھ یکجہتی کے لئے پہنچتے رہے۔ ان جیسوں کو تب بھی طرح طرح کے القابات سے نوازا جاتا تھا، اب سے کچھ ماہ پہلے تک بھی تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کا یہ جرم مرنے کے بعد بھی معاف نہیں کیا جا رہا ۔

ارشد شریف مگراس سب کے باوجود زندہ ہے۔ جب تک پاکستانی اس کے ساتھ کھڑے ہیں، ارشد شریف زندہ رہے گا۔ ارشد شریف کو زندہ رہنا بھی چاہیے۔ پے در پے دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد اگلے روز کابل میں پاکستان کے سفارت خانے پر حملہ ہوا ہے۔ ایک بار وہی بے چہرہ عفریت سر اٹھا رہا ہے۔ ایک بار پھر اس عفریت کو خود ہمارے ہاں سہولت کار میسر ہوں گے۔ یہ جنگ پھیلی تو ایک بار پھر ہمیں پوری قوم اپنی پشت پر درکار ہوگی۔ ضرورت ہے ہر اس راست اقدام کی کہ دلوں سے جو رنجشوں کو نچوڑ دے۔ دکھی ماں کے زخموں پر مرہم رکھ دے۔ تادیبی کارروائیوں سے نہیں، رنجیدہ خاطروں کو گلے لگانے سے ہی دلوں پر جما غبار چھٹے گا۔ جنگ ابھی جاری ہے۔ ارشد شریف محض ایک استعارہ ہے۔ جس کا اس معاشرے میں زندہ رہنا اشد ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments