مونس الہیٰ کا انٹرویو اور چوہدری خاندان کا شیرازہ بکھرنے کی اندرونی کہانی


کل کی بات ہے مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کے ہو نہار صاحبزادے مونس الٰہی نے ایک فرمائشی انٹرویو میں جہاں جنرل قمر جاوید باجوہ کی غیر جانبداری کا پول کھول دیا ہے وہاں ان کے وکٹ کے دونوں اطراف کھیلنے کا انکشاف کر کے نیوٹرل ہونے کے دعوے کی بھی بڑی حد تک قلعی کھول دی ہے۔ میں چوہدری پرویز الہی کو نصف صدی سے جانتا ہوں ان یاد اللہ ہے جب وہ اسلام آباد آتے تو ایف 8 / 3 کی رہائش گاہ پر طویل نشستیں ہوتیں وہ ایک جہاندیدہ سیاست دان ہیں جس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں مرتے دم ساتھ نہیں چھوڑتے یہی اس خاندان کی سب سے بڑی خوبی ہے وہ دوست کے دوست کو اپنا دوست اور اس کے دشمن کو اپنا دشمن ہی سمجھتے ہیں جب کہ دشمن کے دوست کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں وہ جب تک نواز شریف کے دوست تھے تو ان پر جان نچھاور کرتے تھے جب ان سے راہیں جدا ہوئیں تو سلام دعا ہی چھوڑ دی جب کوئی ان کے سامنے نواز شریف کا نام لیتا ہے تو اس سے ایک ہفتہ بات نہیں کرتے لیکن ان کے ہو نہار صاحبزادے مونس الہی اپنے والد محترم سے بھی دو قدم آگے ہیں۔

اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ آرائی نہیں ہو گی کہ جب سے مونس الہی نے میدان سیاست میں قدم رکھا ہے ان کی سوچ کا عکس ان کے والد محترم چوہدری پرویز الہی کی سیاست میں نظر آنے لگا جب تک چوہدری پرویز الہی چوہدری شجاعت حسین کی سوچ کے بہت قریب تھے تو پورا خاندان متحد تھا چوہدری پرویز الہی چوہدری شجاعت حسین ہی کی بات مانتے تھے لیکن جب مونس الہی کی سیاست کے نقش چوہدری خاندان پر گہرے ہونے لگے تو ان کے کزن چوہدری سالک حسین اور چوہدری شافع حسین عدم تحفظ محسوس کرنے لگے۔

مونس الہی کو چوہدری خاندان پر بالا دستی حاصل ہونے لگی تو بہت جلد چوہدری خاندان بھی بکھرنے لگا پھر وہی ہوا عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں چوہدری خاندان بکھر گیا نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری وجاہت حسین الگ الگ کیمپوں میں منقسم ہو گئے۔ عمران خان جو مونس الہی کی جگہ چوہدری سالک حسین کو وفاقی وزیر بنانا چاہتے تھے لیکن چوہدری شجاعت حسین نے یہ کہہ کر اگر کسی نے وزیر بننا ہی ہے تو مونس الہی بنے گا خاندان کو تقسیم کرنے کی عمران خان کی کوشش کو ناکام بنا دیا لیکن مونس الہی تو عمران خان کے عشق میں اس حد تک مبتلا ہو گئے کہ اپنے والد محترم چوہدری پرویز الہی کو عمران خان کیمپ میں لے گئے چوہدری پرویز الہی دن کے اجالے میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ وزارت اعلیٰ کا سودا کر چکے تھے لیکن رات کے اندھیرے میں مونس الہی اپنے والد کو عمران خان کے پاس ایسا لے گئے کہ واپسی کا نام نہیں لے رہے۔

عمران خان جس شخص کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتا تھا اسے ایسا گلے لگایا کہ اپنے سے الگ نہیں ہونے دیا اس کے سر پر وزارت اعلیٰ کا تاج سجا دیا چوہدری پرویز الہی نے ایک موقع پر اپنے ہو نہار صاحبزادے مونس الہی کی صلاحیتوں کچھ انداز میں ذکر کیا کہ یہ مونس الہی تھے جنہوں نے میرے قدم ڈگمگانے نہیں دیے۔ مونس الہی عمران خان کو ہی اپنا لیڈر سمجھنے لگے انہوں نے اپنے ماموں (چوہدری شجاعت حسین ) سے یہ کہہ کر سلام دعا ختم کر دی تھی کہ ماموں تسی میری گل نہیں منی۔ میں اج آخری وار تہاڈے گھر آیا واں (ماموں آپ نے میری بات نہیں مانی میں آج آخری بار آپ کے گھر آیا ہوں ) اس کے بعد گلبرگ لاہور میں ایک ساتھ تعمیر کی گئی رہائش گاہوں کی دیواریں اونچی ہو گئیں اور درمیانی راستے بند ہو گئے

مونس الہی کی اپنے والد چوہدری پرویز الہی کی سیاست پر اس حد گہری چھاپ ہے کہ وہ ان کے ساتھ سائے کی طرح رہتے ہیں جب عمران خان نے لانگ مارچ کے اختتام پر پنجاب اور کے پی کے اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا جسے اگلے روز دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے میں تبدیل کر دیا گیا مونس الہی نے ہی عمران خان کے اعلان کے جواب میں کہا کہ ہم عمران خان کے کہنے پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے لیکن جب 29 نومبر 2022 ء کو جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کا سورج غروب نہیں ہوا تھا پی ٹی آئی کے سورماؤں نے جنرل قمر جاوید باجوہ پر یلغار کر دی اور کھل کر ان کو میر جعفر کے القابات سے نوازا تو گجرات کے جٹ خاندان کا یہ خانوادہ ہی گکھڑ منڈی کے جٹ کی حمایت میں میان سے تلوار نکال کر باہر آ گیا۔

ہمیں دیکھنا ہو گا مونس الہی نے انٹرویو کے لئے کیوں یہ وقت چنا؟ انہوں ایک نجی ٹی وی چینل کو فرمائشی انٹرویو دیا اور انکشاف کیا کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نہ صرف پی ٹی آئی کو سپورٹ کیا بلکہ انہوں نے تو تحریک عدم اعتماد کے وقت بھی مجھ سے کہا کہ عمران خان کے ساتھ جاؤ۔ ان کے کہنے پر ہی ہم نے تحریک انصاف کی حمایت کی، اگر جنرل باجوہ عدم اعتماد کا حصہ ہوتے تو ہمیں کیوں اس طرف جانے کا کہتے، جنرل باجوہ نے پی ٹی آئی کے لیے سب کچھ کیا اور اب جب وہ چلے گئے ہیں تو یہ (پی ٹی آئی ) ان کے خلاف باتیں کر رہے ہیں، جب تک وہ ان کو سپورٹ کرتا تھا ٹھیک تھا اب غدار بن گیا، یہ بڑی زیادتی ہے، جنرل باجوہ نے توان کے لئے دریاؤں کا رخ موڑ دیا تھا۔

اب جنرل باجوہ کے خلاف مہم بلاجواز ہے، اس وقت اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار ہے، مونس الہی جو گھر کا بھیدی ہے لنکا ڈھا دی ہے انہوں نے ایک انٹرویو میں جہاں جنرل باجوہ کی کھل کر حمایت کی ہے وہاں ان کی غیر جانب داری کا پول بھی کھول دیا ان کے انٹرویو سے ظاہر ہوتا ہے جنرل باجوہ وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے رہے ہیں جنرل باجوہ آرٹی ایس بند کر کے عمران خان کو کامیاب کرانے اور پراجیکٹ عمران کو تسلیم نہیں کرتے جب کہ مونس الہی نے تو یہاں تک اعتراف کیا ہے جنرل باجوہ نے عمران خان کی کامیابی کے لئے دریاؤں کا رخ تبدیل کر دیا گویا ایک لفظ میں انہوں نے جنرل باجوہ کے سیاسی کردار کا نقشہ کھینچ دیا ہے جہاں وہ ایک طرف جنرل باجوہ کی عمران خان کے لئے مہر بانیوں اور عنایات کا برملا ذکر کر رہے ہیں وہاں وہ جنرل باجوہ کو فال آف نواز شریف کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔

جنرل باجوہ نے اپنی ریٹائرمنٹ کو گمنامی کی زندگی سے تعبیر کیا ہے وہاں پراجیکٹ عمران کے ایک اور کردار جنرل فیض حمید کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے سیاسی معاملات میں ان کا کس حد تک عمل دخل تھا۔ مونس الہی نے ایک اور انکشاف کیا ہے۔ عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر سے متعلق کوئی دباؤ نہیں تھا، ہم نے پی ٹی آئی سے یہاں تک کہا کہ ایف آئی آر کاٹنے کے لیے کوئی بھی اپنا پولیس والا دے دیں جو ایف آئی آر کاٹ لے تو انہوں نے ایسا پولیس والا دیا ہی نہیں۔

مونس الہی نے اپنے دل کی بات بھی کہہ دی ہے کہ ہماری خواہش ہے کہ اگلا بجٹ دے کر جائیں، عمران خان اگر اسمبلی تحلیل کرنا چاہیں تو ہم تیار ہیں۔ وفاق ہمارے سامنے بے بس ہے، 6 مہینے بعد انہوں نے فارغ ہو ہی جانا ہے، ہماری حکومت پہلے ہی بونس پر چل رہی ہے، جب حکومت بنی تو عمران خان نے کہا کہ حکومت 10 دن چلنی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے چوہدری پرویز الہی پنجاب اسمبلی کو تحلیل کرنے کے ڈرامہ کا حصہ بنتے ہیں یا کچھ دن اور جوں کی توں صورت حال کو لے کر چلتے ہیں اس بات کا فیصلہ ہفتہ عشرہ میں ہو جائے گا مونس الہی تو اس حد جنرل باجوہ کا دفاع کرنے کے لئے تیار ہیں کہ تحریک انصاف کو اگر لگتا ہے کہ جنرل باجوہ کا آدھا فیصد بھی قصور ہے تو وہ میرے ساتھ بیٹھے جائیں میں بتاتا ہوں ان کا قصور کہاں نہیں ہے۔

غیر سیاسی ہونا ایک الگ چیز ہے مگر جنرل باجوہ نے پی ٹی آئی حکومت کا بہت ساتھ دیا اور ملکی مفاد کے ساتھ بھی کھڑے رہے، بے تحاشا ایسے مواقع تھے جہاں پاکستان کے اندر اور باہر بھی مسئلہ خراب ہو گیا تھا مگر انہوں نے خود ذاتی طور پر جاکر معاملات حل کیے۔ مونس الٰہی کا تازہ ترین انکشاف جنرل باجوہ کے اس دعوے کی نفی کرتا ہے کہ فوج کا ادارہ فروری 2021 ء سے غیر سیاسی ہو چکا تھا حقائق اس بات کی تصدیق کرتے ہیں اسٹیبلشمنٹ رواں سال اپریل تک غیر سیاسی نہیں تھی۔

جنرل (ر) باجوہ کے قریبی ذرائع مونس الٰہی کی سابق آرمی چیف کے حوالے سے بات چیت کو سیاق و سباق سے ہٹ کر بیان کرتے ہیں ذرائع کے مطابق سابق آرمی چیف کا اصرار ہے کہ ادارے نے فروری 2022 میں غیر سیاسی ہونے کا فیصلہ کیا تھا اور اس کے بعد وہ کبھی کسی سیاست میں شامل نہیں ہوا۔ یہ بات قابل ذکر ہے اب تک جنرل باجوہ یا آئی ایس پی آر نے مونس الٰہی کے بیان کی تردید نہیں کی ہے۔ یہ بات برملا کہی جا رہی ہے اگر مسلم لیگ (ن) کی طرف سے چوہدری پرویز الہی سے ڈیل ہو جائے تو وہ صوبائی اسمبلی توڑیں گے اور نہ ہی مزید عمران خان کی مزید تابعداری کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments