مہسا امینی کا خون اور ایرانی ریاست


یہ تہران شہر ہے۔دن 13 ستمبر ہے۔اسی دن اسی تہران کے کسریٰ ہسپتال میں ایک خوش رو نو عمر لڑکی کو اسٹریچر پر لایا جاتا ہے۔ جب لڑکی کو ہسپتال منتقل کیا گیا تھا تو اس کی کلینیکل موت واقع ہو چکی تھی۔ وہ کوما میں تھی۔ چند دن اسی حالت میں رہنے کے بعد اس کی نبض بھی بند ہو گئی۔یہ لڑکی مہسا امینی تھی۔ اس کا تعلق ایران کے مغربی علاقے سقاز سے تھا اور نسلاً کرد تھی۔ کرد ایران میں اقلیتی نسلی گروپ ہے۔ جس کے خلاف ریاست کے اندر تعصب پایا جاتا ہے۔

اس لڑکی کا جرم یہ تھا کہ اس کے سر پر لیا ہوا حجاب قدرے ڈھیلا تھا جس سے اس کے بالوں کا کچھ حصہ نظر آتا تھا۔ جب ایرانی گشت ارشاد (اخلاقی پولیس) کے دستے نے اس کا ڈھیلا حجاب دیکھا تو اس پر یوں جھپٹ پڑی جیسے بھوکی چیل کسی چوزے کو دبوچ لیتی ہے۔ گشت ارشاد کے اہلکاروں نے اسے زد و کوب کر کے اپنی وین میں ڈالا اور وین کے اندر اس پر تشدد کیا، ڈنڈے برسائے جس سے مہسا کے سر پر چوٹ آئی۔ اہلکار اسے اپنے ساتھ کاونسلنگ سنٹر لے جا رہے تھے۔ جہاں ایسی خواتین اور لڑکیوں کو ایرانی ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کی صورت میں لایا جاتا ہے۔ انہیں اس چیز کی بریفنگ دی جاتی ہے کہ انہوں نے کیا پہننا ہے، کتنا پہننا ہے کیسے پہننا ہے اور یہ کیوں ضروری ہے۔

کونسلنگ سنٹر  لے جانے کے بعد تشدد کی وجہ سے مہسا کی حالت خراب ہو گئی اور اسے ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ جہاں وہ کوما میں رہنے کے بعد چل بسی۔

مہسا امینی پر ہونے والے تشدد اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اس کی موت کے خلاف پورے ایران میں احتجاج کی لہر اٹھ کھڑی ہوئی۔ ایرانی عوام آیت اللہ خمینی کے شدت پسندانہ نظریات سے نفرت، غصے اور بے زاری کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس سارے منظر نامے کو دیکھ کر جو سوال سب سے پہلے ذہن میں جنم لیتا ہے وہ یہ ہے کہ ؛
ریاستیں کیوں تشکیل دی جاتی ہیں؟
ادارے کیوں بنائے جاتے ہیں؟
فوج اور پولیس کس لیے ہوتی ہے؟

مہذب دنیا میں ریاست کے قیام کا مقصد لوگوں کی فلاح و بہبود ہے۔ ان کے لیے بہتر زندگی گزارنے کے مواقع مہیا کرنا ہوتا ہے۔ ادارے اس لیے بنائے جاتے ہیں کہ لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق بنا کسی مشکل کے مل جائیں۔ فوج اور پولیس اس ریاست کے لوگوں کی حفاظت کے لیے ہوتی ہے کہ بیرونی اور اندرونی دونوں سطحوں پر کوئی ان پر زیادتی نہ کرے۔ ان کے مال، جان، املاک اور عزت و وقار محفوظ رہیں۔

لیکن ایران میں پچھلے تینتالیس سالوں سے اور ہی کھیل جاری ہے۔

ریاست بزور قوت مذہب کے نام پر لوگوں کے بنیادی حقوق چھین رہی ہے۔ فروری 1979 کے نام نہاد انقلاب کے بعد سے ایران میں عورتوں کے حقوق اور آزادی کا مسئلہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ریاست ان کی پرسنل اسپیس میں داخل ہو گئی ہے۔ تینتالیس برسوں سے ایرانی سپریم لیڈر انہیں بتا رہا ہے کہ انہیں کہاں جانا ہے۔ کس کے ساتھ جانا ہے۔ کن اوقات میں جانا ہے۔ ان کو شادی کرنی ہے تو کس کی اجازت سے اور اگر انہوں نے شادی ختم کرنی ہے تو کس سے رجوع کرنا ہے۔

وہ سائیکل نہیں چلا سکتی۔ وہ اسٹیڈیم میں میچ نہیں دیکھ سکتی۔ وہ اپنے شوہر بھائی یا باپ کی تحریری اجازت کے بنا بیرون ملک نہیں جا سکتی۔

گویا عورت ایک آزاد انسان نہیں کوئی چیز ہے جس کے سارے معاملات دوسرے مرد طے کریں گے۔ اس کی اپنی کوئی پہچان ہے۔ آواز ہے۔ حق ہے نہ حیثیت۔ وہ پوری طرح سے محکوم ہے۔ وہ اپنے لیے آزادی سے کوئی فیصلہ نہیں لے سکتی۔

ان سب باتوں سے بڑھ کر۔ ایران میں کوئی عورت ریاست کے بتائے ہوئے ڈریس کوڈ کے بنا گھر سے باہر نہیں نکل سکتی۔ اور اگر وہ ایسا کرے گی تو ریاست اور ادارے اس پر پل پڑیں گے۔ ریاست اور ریاستی اہلکار ان کو چوک چوراہوں میں روکیں گے، ان کی جاسوسی کریں گے، ان کو ہراساں کریں گے۔ انہیں سر عام کوڑے ماریں گے۔ ان پر تشدد کریں گے۔ یہاں تک کہ اس سے اس کی زندگی بھی چھین سکتے ہیں۔

کیا یہ ہیں وہ بنیادیں اور اصول جن پر ایک ریاست کی عمارت کھڑی ہے؟ کیا یہ ہیں وہ مقاصد جن کے حصول کے لیے طاقتوروں کا ایک گروہ اقتدار سے چمٹا ہوا ہے؟

جو ملک اور نظام اپنے لوگوں کو بد ترین غربت سے نہیں نکال رہا۔ ان کو اچھی خوراک، اچھا رہن سہن اور بہتر روزگار دینے میں ناکام ہے اس کے پاس اپنی بات منوانے کے لیے جبر اور تشدد کے سوا اور کیا راستہ ہو سکتا ہے؟

مہسا کی ہلاکت کے بعد ایرانی خواتین احتجاجاً اپنے بال کاٹ رہی ہیں اپنے حجاب اور دوپٹے آگ میں جھونک رہی ہیں۔ وہ علی الاعلان جابرانہ نظام کو چیلنج کر کے اپنا حق مانگ رہی ہیں اور تھیوکریسی اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کے لیے طاقت کا بھرپور استعمال کر رہی ہے۔

مہسا امینی کی ہلاکت بعد ہونے والے احتجاج میں فورسز کی طرف سے اب تک ساڑھے تین سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ بارہ ہزار پانچ سو گرفتار ہیں۔ سینکڑوں زخمی ہیں اور کئی لاپتہ ہیں۔ ان مرنے والے لوگوں میں ایک نام حدیث نجافی کا ہے۔ حدیث نجافی ایرانی ٹک ٹاکر، ماڈل اور سوشل فگر تھی۔ حدیث نجافی کو حکومت مخالف مظاہروں میں شریک ہونے پر گرفتار کیا گیا اور بعد از گرفتاری بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ اس کے پیٹ، دل، گردن اور ہاتھ میں چھ گولیاں داغی گئی تھیں۔

اس کا قصور کیا تھا؟ یہی کہ اس نے اپنے اور اپنے جیسی باقی عورتوں کے لیے اپنی پسند سے رہنے کا حق مانگا تھا؟

ظلم جبر اور تشدد سے کتنے عرصے تک لوگوں سے ان کی آزادی اور حق چھینے جائیں گے؟

ایرانی عوام کی مزاحمت روز بروز فزوں تر ہوتی جا رہی ہے۔ بات بال کاٹنے، اسکارف جلانے پر ختم نہیں ہوئی۔ لوگ اب ایرانی ملاؤں کی پگڑیاں اتار کر زمین بوس کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی بے شمار ویڈیوز موجود ہیں جن میں کوئی نوجوان سر راہ کسی ملا، شیخ یا مذہبی رہنما کی دستار کو کھینچ کر اتار کر پھینک کر آگے چلے جاتے ہیں۔ وہ ایرانی سپریم لیڈر کو زبان حال سے کہہ رہے ہیں :

ڈیئر خمینی! وہ ہاتھ جن کو تم نے چنریوں، دوپٹوں سے باندھا تھا وہ ہاتھ چھوٹ چلے ہیں اور تمہاری دستار نوچ رہے ہیں، ( سوچ لو گریبان دستار سے زیادہ قریب ہوتا ہے )

ایرانیوں کا یہ احتجاج بلا جواز ہرگز نہیں ہے۔ جب آپ دوسروں کی زندگیاں کنٹرول کرنے لگ جاتے ہیں تو پھر اور کیا ہو گا؟ آپ ریاست چلانے کے بجائے، لوگوں کے مال جان کی حفاظت کے بجائے، ان کے مسائل حل کرنے کے بجائے انہیں اس بات پر مجبور کریں گے کہ ان کو کون سا لباس پہننا ہے، کہاں جانے کے لیے کس سے اجازت لینی ہے کیا کہنا اور کیا لکھنا ہے تو پھر یہی ہو گا۔ پاسداران انقلاب بہت طاقتور ہے مگر جنہوں نے سکارف جلا دیے ہیں، بال کاٹ ڈالے ہیں وہ ساواک ہو یا پاسداران انقلاب، کسی سے خوف زدہ نہیں ہوں گے۔

مہسا کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ فرد کی آزادی اور خود مختاری کے جو ترانے ایران کی سڑکوں پر گائے جا رہے ہیں ان کی گونج سے وقت کے سامراج لرزاں ہیں اور وہ دن دور نہیں جب مذہب کی شبیہ اوڑھنے والا طاقت کا بد مست ہاتھی اپنے گھٹنوں پر گرا ہو گا۔ وہ دن بالکل بھی دور نہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments