جنگل سلامت رہنے دو



انسان بلند ترین پہاڑوں کو سر کر سکتا ہے، بنجر و بیاباں صحراؤں میں رہ سکتا ہے اور زمین سے پرے دوسرے سیاروں پر بستیاں آباد کر رہا ہے۔ مگر تازہ ہوا، پانی اور خوراک تک اس کی رسائی نہ رہے تو موت سے زیادہ دور نہیں ہے۔ ہم زیادہ سے زیادہ تین منٹ آکسیجن کے بغیر، تین دن پانی کے بغیر اور تین ہفتے خوراک کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیں۔ قدرت نے ہمارا زندگی سے رشتہ برقرار رکھنے کے لیے درختوں کی صورت میں بہت بڑا اور بہترین انتظام کر رکھا ہے۔ اندازہً ایک بڑا درخت تقریباً چار انسانوں کو چوبیس گھنٹے یعنی ایک دن کے لیے آکسیجن فراہم کر سکتا ہے۔ اسی لیے بنی نوع انسان کی بقا کا بہت حد تک انحصار صحت مند جنگلات پر ہے۔ جبکہ ماحولیاتی توازن اور ماحولیاتی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے بھی جنگلات بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

تقسیم ہندوستان سے قبل ریاست جموں وکشمیر کے جنگلات کا شمار دنیا کے بہترین جنگلات میں ہوتا تھا۔ انگریز افسر ایچ ایل رائیٹ جو بھلے وقتوں میں ریاست جموں وکشمیر کے چیف کنزرویٹر تھے اپنی کتاب ”دی فاریسٹس آف کشمیر“ میں لکھتے ہیں کہ ریاست کے فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ کا قیام 1891 میں عمل میں لایا گیا۔ ان کے خیال میں جب تک انگریزوں نے جنگلات کا انتظام و انصرام نہیں سنبھالا تھا کشمیر کے محکمہ جنگلات کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ محکمے کے اہل کار جنگلات کا رخ نہیں کرتے تھے۔ تاہم جب سے انگریزوں کی نگاہ ان جنگلات پر پڑی توان کی قسمت ہی بدل گئی اسی لیے محکمہ جنگلات کے پہلے فاریسٹ افسر کے طور پر انڈین فاریسٹ سروس کے ایک انگریز لینٹ افسر ایم سی میکڈونل کی خدمات حاصل کی گئیں۔

ایچ ایل رائیٹ صاحب فاریسٹ افسر میکڈونل کی پیشہ ورانہ مہارت اور حسن انتظام کے حوالے سے حقائق بیان کرتے ہوئے تصویر کا دوسرا رخ نہیں بیان کر پائے۔ وہ رخ یہ تھا کہ انگریزوں نے متحدہ ہندوستان کے قدرتی وسائل کا جس بے دردی سے استحصال شروع کر رکھا تھا ریاست جموں وکشمیر اور ملحقہ علاقوں کے قیمتی جنگلات تک رسائی بھی اسی حکمت عملی کا حصہ تھی۔ برطانیہ اپنی تیزی سے ترقی کرتی معیشت کو آگے بڑھانے کے لیے کوئلے اور دیگر معدنیات کی دریافت اور ترسیل کے لیے ہندوستان کے کونے کونے تک پہنچ رہا تھا۔ اپنے استحصال کے مقصد کو پورا کرنے کے لیے جہاں کہیں بھی قدرتی وسائل وافر مقدار میں ملتے تھے ان سے استفادہ حاصل کرنے کے نت نئے امکانات، تکنیکوں اور طریقوں پر غور ہوتا رہتا تھا۔

صرف ایک صدی پیچھے جائیں تو جموں و کشمیر دنیا کے نقشے پر سب سے زیادہ فاریسٹ کور والے خطوں میں شمار ہوتا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ عجوبہ روزگار پہاڑوں، دریاؤں، جھیلوں، آبشاروں اور آبی گزر گاہوں اور حیاتیاتی تنوع کی وجہ سے یہاں کے دیگر قدرتی و آبی وسائل اپنی مثال آپ تھے۔ ڈوگرہ ریاست جموں و کشمیر کے قدرتی مناظر اور بے مثال حسن سے متاثر انگریز وں کی بالواسطہ سرکار نے اس ریاست کے اندر ماحولیاتی تبدیلی کا آغاز یہاں کے وسائل کی کمرشلائیزیشن سے شروع کر دیا تھا۔ دیگر وسائل کی بات ابھی رہنے دیں یہاں صرف جنگلات کی بات ہی کرلیتے ہیں۔

معاملہ سڑکوں کی تعمیر کا ہو یا مفاد عامہ کی کسی دوسری سہولت کا۔ ہمارا ٹھیکیداری نظام جب بری طرح فیل نظر آتا ہے تو ہم اکثر و بیشتر انگریزوں کے دور کی مثالیں دیتے ہیں کہ وہ دیکھو انگریز کا بنایا ہوا فلاں پل یا سڑک آج بھی موجود ہے مگر یہ سڑک جو ابھی کل ہی مکمل ہوئی تھی اب کھنڈر بن گئی ہے۔ سڑکیں اور پل ضرور بنوائے ہوں گے، مگر کشمیر کے قدرتی ماحول کو بنجر بنانے کی پہل ابھی انہوں نے ہی کی تھی۔ یہ حادثہ اس وقت ہوا جب مہاراجہ سرکار نے چولھے، کھڑکی اور انسان کے استفادہ کی ہر چھوٹی بڑی شے پر ٹیکس لگانا شروع کر دیے۔ ٹیکس لگانے کے نت نئے طریقوں پر فرنگی مشیروں کے ذہن رسا میں ایسے ایسے طریقے آتے تھے کہ عقل دنگ رہ جاتی تھی۔ انگلستان میں 1696 میں کھڑکی پر ٹیکس نافذ کیا گیا جو کہ جدید پراپرٹی ٹیکس کا ایک قسم کا پیشرو تھا۔ اہل پونچھ و کشمیر کی کمر توڑتی بدحال معاشی زندگی میں مہاراجہ کے ظالمانہ ٹیکس نظام سے جو کسر باقی رہ گئی تھی وہ چراگاہوں، باغات، کھیتوں اور جنگلوں کے استفادہ سے انہیں محروم کر کے پوری کر دی گئی۔ اپنی ہی زمینوں پر کشمیریوں کی عملداری بتدریج ختم ہوتی چلی گئی۔

ہندوستان میں کوئلے کی کانوں اور زرخیز زرعی زمینوں تک رسائی کے لیے سڑکیں، پل اور ریلوے لائنیں جب تیزی سے بننا شروع ہوئیں تو ان کے لیے تعمیراتی سامان میں مضبوط لکڑی کا استعمال بڑھنے لگا تھا۔ ہندوستان کے کونے کونے تک ریلوے کا جال بچھانے کے لیے انگریزوں کو لائنوں کے درمیان لکڑی کے تختے بچھانے کے لیے انتہائی مضبوط قسم کی لکڑی کی ضرورت تھی۔ خاص طور پر دیودار کی لکڑی اپنی مضبوطی اور عمر کی وجہ سے اس معیار پر پورا اترتی تھی جس کے تحت اس لکڑی کو ریلوے سلیپرکے لیے جموں و کشمیر کے جنگلات سے حاصل کیا جانے لگا۔ گورا صاحب کو ریلوے لائن کے ایک میل کی تعمیر کے لیے 860 سلیپرز درکار تھے۔ جبکہ ریاست جموں و کشمیر کے مہاراجہ پرتاپ سنگھ کے دور میں محکمہ جنگلات کے قیام سے بہت پہلے انگریزوں نے 1870 میں یہ اندازہ لگایا تھا کہ تیزی سے فروغ پاتی صنعتوں کا پہیہ چلانے کے انہیں سالانہ دس لاکھ سے زیادہ سلیپرز ضرورت ہوں گے۔

دیودار ایک بہت ہی خوبصورت درخت ہے اور اس کی ایک قسم ریاست جموں و کشمیر کے طول و عرض میں ایک وسیع رقبے پر بہت بڑی تعداد میں پائی جاتی ہے۔ اس قیمتی اور اہم درخت اور اس سے حاصل ہونے والی لکڑی کے اوصاف و استعمالات پر ایک الگ ہی کہانی لکھی جا سکتی ہے۔ خاص طور پر وادی لولاب کے دیودار کے جنگلات کشمیر کے بہترین جنگلات میں سے ایک تھے اور ان کی لکڑی کی بہت زیادہ مانگ تھی۔ چونکہ یہ لکڑی پانی اور نمی کے خلاف بہت زیادہ مزاحمت رکھتی ہے اس لیے اسے گھروں، بحری جہازوں، کشتیوں اور پلوں کی تعمیر میں استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کی جڑوں سے کشید کیا گیا بیروزہ کئی صنعتوں میں استعمال کیا جاتا تھا۔ بالائی علاقوں کی آب و ہوا اس کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ یہ آج بھی 5000 فٹ سے 9000 فٹ کی بلندی پر پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کشمیر کے جنگلات سے حاصل ہونے والی چیڑ اور ساگوان وغیرہ کی لکڑی کے بھی ان گنت مقاصد کے لیے استعمال ہوتی تھی۔

کشمیر کے قدرتی وسائل کے حوالے سے سب سے زیادہ کمرشلائزیشن کا شکار دیودار اور چیڑ کے جنگل تھے۔ وسائل کے انتظام و انصرام کے حوالے سے ان کی بندر بانٹ کل بھی جاری تھی اور آج بھی جاری ہے۔ کشمیریوں کے زمین کے دکھ سانجھے ہیں۔ جب اہل کشمیر جنگلات کی اہمیت کے بارے میں بات کرتے تھے تو ایک قدیم کہاوت کا حوالہ ضرور دیتے کہ دسترخوان پر کھانا تب تک رہے گا جب تک جنگلات رہیں گے۔ مگر جنگل کو کاٹ کر اس سے حاصل ہونے والی قیمتی لکڑی کو صنعتی اور کمرشل استعمال میں لانے کی دوڑ جو انگریز سرکار نے شروع کی تھی۔ وہ آج بھی اسی شد و مد سے جاری ہے۔

جنگلات کا پائیدار انتظام اور ان کے وسائل کا استعمال موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے اور موجودہ اور آنے والی نسلوں کی خوشحالی اور بہبود میں کردار ادا کرنے کی کلید ہے۔ غربت کے خاتمے اور پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) کے حصول میں جنگلات سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پھر بھی ان تمام انمول ماحولیاتی، اقتصادی، سماجی اور صحت کے فوائد کے باوجود، جموں و کشمیر کے تمام حصوں میں جنگلات کی کٹائی خطرناک حد تک جاری ہے۔ اس سیارے اور اس کے باشندوں کے لیے ماحول دوست طریقے سے لکڑی کا استعمال اور پیداوار بہت ضروری ہے۔ آئیے جنگلات کے پائیدار انتظام کے ساتھ اس قابل تجدید قدرتی وسیلے کی حفاظت کا عہد کریں۔ جنگل سلامت رہنے دو۔ اسے مت کاٹو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments