اسماعیل تارا: کیا ان کی موت واقعی حالتِ کسمپرسی میں ہوئی؟


عجیب اتفاق ہے کہ 1949 کے نومبر میں ایک ستارہ دنیا میں پیدا ہوا اور رواں سال بھی نومبر ہی کے مہینے کی 24 تاریخ کو خالق حقیقی سے جا ملا۔ یہ ستارہ ہم سب کا پسندیدہ فنکار اسماعیل تارا ہے۔ میں نے اسماعیل تارا اور ان کے ساتھی صلاح الدین طوفانی کے کامیڈی خاکے پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز سے منسلک ہونے سے پہلے بھی دیکھے تھے۔ میں 1980 کی دہائی میں پروڈیوسر سلطانہ صدیقی کی معاونت کر رہا تھا جب پروڈیوسر شعیب منصور کا پروگرام ففٹی ففٹی شروع ہوا۔ میں نے کئی ایک مرتبہ اس ٹیم کو اسٹوڈیو میں کام کرتے دیکھا۔ سب ہی سے دعا سلام ہو گئی تھی۔ جو ماشاء اللہ اب بھی اشرف خان سے جاری ہے۔ تارا کے انتقال کے موقع پر کچھ پرانے ساتھیوں سے تعزیت کی۔ دیکھئیے وہ تارا کو کیسے یاد رکھے ہوئے ہیں :

خالد نظامی:

میرے دوست، اسٹیج، ٹی وی اور فلم کے اداکار، گلو کار اور ذہین موسیقار ( نہ جانے اس میدان میں زیادہ کام کیوں نہیں کیا ) خالد نظامی نے تارا سے متعلق کہا:

” اسماعیل تارا اسٹینڈ اپ کامیڈین تھا۔ ایک پروگرام میں میری اس سے ملاقات ہوئی۔ وہ ابھی نیا تھا میں نے کہا تم یہ کام اچھا کرتے ہو۔ کیا اس میدان میں آگے آنا چا ہو گے؟ وہ کہنے لگا کہ میں تو اس فیلڈ میں کسی کو جانتا ہی نہیں۔ میں نے پھر اس کو ’جوبلی آرٹ سرکل‘ میں داخل کرا دیا۔ وہاں وہ اسٹینڈ اپ کامیڈی کرتا رہا۔ پھر میں نے پائلٹ پروگرام ’ففٹی ففٹی‘ لکھا۔ یہ وہ ہی دور تھا جب میں فلموں میں مصروف ہو گیا۔ شعیب نے پھر تارا کو ففٹی ففٹی میں کاسٹ کیا۔ اس نے اپنا کام بہت اچھا کیا اور اس پروگرام سے شہرت پائی“ ۔

انجنیئر ظفر اقبال:

میں نے اور ظفر اقبال نے ایک ساتھ ہی کراچی مرکز میں کام شروع کیا۔ وہ شعبہ انجینئیرنگ سے اور میں پروگرامز سے منسلک تھا۔ ماشاء اللہ آج بھی ہم دونوں کا یہ تعلق قائم ہے۔ ظفر اقبال پاکستان ٹیلی وژن کے پروگرام ففٹی ففٹی کے صوتی او ر بصری ریکارڈنگ کے دوران ساؤنڈ انجینئیر تھا۔ یہ مینٹیننس اور آؤٹ ڈور براڈکاسٹنگ میں بھی بخوبی ذمہ داری نبھاتا رہا۔ اس کا کہنا ہے :

” اسماعیل تارا ایک بہت اچھے ہنس مکھ انسان تھے۔ ہم لوگ ان کے ساتھ رات کی ریکارڈنگ کرتے تھے۔ یہ اپنے ساتھی فنکاروں اور ہنر مندوں کے ساتھ باقاعدہ اور بھرپور ٹیم ورک سے کام کرتے تھے۔ کبھی ہم نے ان کے چہرے پر مایوسی نہیں دیکھی۔ لوگوں کو ہنساتے رہتے تھے اور چاہتے تھے کہ ہم سب خوش رہیں۔ اسٹیج کی اداکاری ٹیلی وژن سے مختلف ہوتی ہے۔ اسٹیج پر بھی وہ اپنی اداکاری سے مقبول تھے۔ میں نے کراچی میں ان کے اسٹیج شو دیکھے اور ان کے لئے عوام کی بے ساختہ پسندیدگی خود دیکھی۔

ان کی اداکاری واضح طور پر منفرد ہوتی۔ جب اسٹیج پر انٹری دیتے تو لوگوں کی ستائش بتاتی کہ کس کی انٹری ہوئی ہے۔ ففٹی ففٹی کے علاوہ بھی میں نے ان کے ساتھ کئی ایک پروگرام کیے ۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ میں نے سوچا بھی ہو کہ میں اسماعیل تارا کی ریکارڈنگ نہیں کرنا چاہتا۔ اس کے بر خلاف میں نے ہمیشہ بڑے شوق سے اسماعیل تارا کی ریکارڈنگ کیں“ ۔

” ایسی کیا بات تھی کہ تم بصد شوق ان کی ریکارڈنگ کرنا چاہتے تھے؟“ ۔

” یہ پوری ٹیم ہی بہت اچھی تھی۔ ان کے پروگراموں میں نیند بالکل بھی نہیں آتی تھی (قہقہے ) ۔ میں تو ریکارڈنگ پینل پر ہوتا تھا لیکن وقفے میں ٹیم کے ساتھ نیچے اسٹوڈیو میں ہی بیٹھ جاتا۔ ساری رات یہی ہوتا لیکن کیسی نیند اور کیسا جھونکا! اتنی پر لطف ریکارڈنگ ہوتی کہ بتاؤں“ ۔

” کبھی کسی ہنر مند سے ناراض ہوئے؟“ ۔

” نہیں! میں نے ان کو کبھی کسی پر ناراض یا غصے سے بات کرتے ہوتے نہیں دیکھا۔ میں ان سے متعلق لفاظی نہیں کر رہا بلکہ حقیقت بتا رہا ہوں! اب بھی جب اسماعیل تارا کا کوئی پروگرام پی ٹی وی سے نشر ہوتا ہے تو میں اسے بڑے شوق سے دیکھتا ہوں اور میری وہ یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔ دنیا میں مایوسی اتنی زیادہ چھا گئی ہے کہ ہنسانے والے لوگ اب خال خال ملتے ہیں“ ۔

” ان کا پی ٹی وی کے ملازمین سے عروج کے زمانے میں کیسا سلوک تھا؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” ہمیشہ اسی طرح ملے جس طرح وہ پہلے دن تھے۔ میرا اسماعیل تارا سے تعلق ایک انجینئیر کا تھا۔ وہ ہم سب کی بہت عزت کرتے تھے۔ ہم بھی اس کو آرٹسٹ کی عزت دیتے تھے۔ کبھی مجھ سے یا میرے عملے سے اس کی تلخ کلامی نہیں ہوئی۔ میری کوشش ہوتی کہ سنیچر کا دن جلدی آئے تا کہ میں اسماعیل تارا اور ففٹی ففٹی کی ٹیم کی ریکارڈنگ کروں“ ۔

میک اپ آرٹسٹ شاکر احمد خان:

شاکر احمد خان سے میرا تعلق اس وقت سے ہے جب وہ اسکول میں پڑھتا اور سول ائر پورٹ میں میرا پڑوسی تھا۔ اس کی دادی جان نے مجھے کہا کہ اس کو اردو پڑھاؤں۔ اب کیا میں کیا میری اوقات۔ میرا واحد شاگرد بھی شاکر احمد خان ہی ہے۔ شاکر احمد خان پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں ففٹی ففٹی کے زمانے میں میک اپ آرٹسٹ تھا۔ ابھی کچھ عرصے پہلے چیف میک اپ آرٹسٹ کی حیثیت سے ریٹائر ہوا ہے۔ تارا سے متعلق شاکر کہتا ہے :

” میں جب پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز سے منسلک ہوا تو اول اول جن پروگرام کے لئے کام کیا اس میں ففٹی ففٹی شامل تھا۔ بلکہ وہ میرے سامنے ہی شروع ہوا“ ۔

” کبھی ایسا بھی ہوا کہ اسماعیل تارا میک اپ کروا رہیں اور کسی خاکے کی آمد ہو گئی؟“ ۔

” جی ہاں! یہ اکثر و پیشتر ہوتا تھا۔ میک اپ روم میں تیار ہوتے ہوئے بھی فی البدیہہ خاکے اور اس کے مکالمے بناتے رہتے تھے۔ یہ گفتگو اور مشورے گیٹ اپ کراتے ہوئے بھی جاری رہتے۔ پھر ان سب کی پشت پر شعیب منصور ہوتے تھے“ ۔

” اسماعیل تارا کو مزاج میں کیسا پایا؟“ ۔

” کردار میں ڈھلنے کے لئے وہ خاصے سنجیدہ بھی ہو جاتے تھے۔ لیکن صرف کردار کی تیاری کے لئے۔ اس کے بعد مذاق پھر شروع ہو جاتا۔ اشرف خان، ماجد جہانگیر، زیبا شہناز وغیرہ کی ریکارڈنگ رات کو ہوتی تھی۔ میں ہی رات کی ڈیوٹی پر ہوتا تھا۔ ایک خاندان کی طرح سے سب لوگ مل جل کر صبح تک بھرپور کام کرتے“ ۔

” اس زمانے میں ففٹی ففٹی کے ساتھ اسماعیل تارا اسٹیج بھی کرتے تھے۔ کیا کبھی ایسا ہوا کہ تم ان کا میک اپ یا گیٹ اپ کر رہے ہو اور وہ سو گئے؟“ ۔

” نہیں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ وہ اپنے خاکے ریکارڈ کر کے رات 9:00 بجے اسٹیج ڈرامے کے لئے نکل جاتے تھے۔ اس وقت اسٹوڈیو میں سیٹ بدلا جاتا۔ اس سب میں دو ڈھائی گھنٹے لگ جاتے۔ اس دوران وہ اسٹیج سے واپس آ کر کام میں جت جاتے“ ۔

” کیا ففٹی ففٹی کے ختم ہونے کے بعد اسماعیل تارا پی ٹی وی کراچی مرکز میں آئے؟“ ۔

” بہت کم آئے! وہ اسٹیج کی طرف چلے گئے تھے۔ پھر نجی طور پر ڈرامے بننا شروع ہو گئے۔ مزید یہ کہ ان کے ٹائپ کا کام پی ٹی وی پر ہو بھی نہیں رہا تھا۔ پھر وہ فلموں کی طرف چلے گئے“ ۔

” کیا کبھی ایسا ہوا کہ اسماعیل تارا نے خوش ہو کر ، خواہ مذاق میں، تم کو کچھ انعام دیا؟“ ۔
” نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس زمانے میں ویسے ہی پیسے کم ملتے تھے انعام کیا دیتے! ( قہقہے )“ ۔

” کیا وہ پیروڈی گانا بھی لکھتے تھے؟“ ۔
” نہیں یہ کام اشرف خان کرتے تھے۔ البتہ گیٹ اپ میں اسماعیل تارا کا اپنا آئڈیا ہوتا تھا۔ شاہد! تم اشرف خان سے بات کرو“ ۔ شاکر نے بے حد مفید مشورہ دیا۔

نگار ایوارڈ:

اسماعیل تارا صاحب کو پانچ عدد سال کے بہترین مزاحیہ اداکار کے نگار ایوارڈ حاصل ہوئے۔ ان میں سے چار ایوارڈ مسلسل چار سال ملے :

1 ”ہاتھی میرے ساتھی“ ( 1993 ) ۔ بہترین مزاحیہ اداکار ۔
2 ”آخری مجرا“ ( 1994 ) ۔ بہترین مزاحیہ اداکار ۔
3 ”منڈا بگڑا جائے“ ( 1995 ) ۔ بہترین مزاحیہ اداکار۔
4 ”چیف صاحب“ ( 1996 ) ۔ بہترین مزاحیہ اداکار۔
5 ”دیواریں“ ( 1998 ) ۔ بہترین مزاحیہ اداکار۔

اشرف خان:

ٹیلی وژن اور فلم اداکار اور رائٹر اشرف خان حسن اسکوائر، کراچی میں میرے پڑوس میں کوزی ہومز میں رہتے تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی سے بھی میری سلام دعا تھی۔ میں نے ان کو پی ٹی وی کے ڈرامہ سیریل : ”انتظار فرمائیے“ ، ”ہیلو ہیلو“ ، ”آبگینے“ ، ” کافی ہاؤس“ وغیرہ میں دیکھ رکھا تھا۔ اب جب میں پی ٹی وی کراچی مرکز سے منسلک ہوا تو سلام دعا مزید بڑھی۔ آج اشرف خان نے اپنے دیرینہ دوست تارا سے متعلق غمزدہ انداز سے بتایا:

” اسماعیل تارا کے بارے میں جتنا بھی کہا جائے کم ہے۔ پوری ٹیم میں وہ میرے پسندیدہ فنکار تھے۔ ان کے ساتھ پرفارمنس کے دوران اور اس سے ہٹ کر بھی مجھے بڑا مزا آتا تھا۔ بہت اعلیٰ انسان بہت اعلیٰ آرٹسٹ۔ میری ان سے دوستی اس وقت سے ہے جب وہ صلاح الدین طوفانی صاحب کے ساتھ اسٹینڈ اپ کامیڈی کرتے تھے میرا ملنا جلنا تب کا ہے۔ ففٹی ففٹی میں آ کر یہ تعلق گہرا ہو گیا“ ۔

” جب وہ لاہور منتقل ہوئے تو مجھے وہ روز فون کرتے اور میں ان کے پاس جا کر گھنٹوں باتیں کرتا۔ ان میں بغض اور حسد بالکل نہیں تھا حالاں کہ لوگوں نے ان کو تنگ بھی کر رکھا تھا لیکن ان کے خلاف بھی کبھی بات نہیں کی۔ وہ باصلاحیت اور لاجواب آرٹسٹ تھے۔ لوگوں کو ان کا مائیکل جیکسن والا آئٹم یاد ہے۔ وہ بہت ردہم میں تھے“ ۔

ففٹی ففٹی کی مقبولیت کا راز:

” ففٹی ففٹی کے خاکوں میں فی البدیہہ عنصر کتنا ہوتا تھا؟“ ۔

” پہلے تو عرض کر دوں کہ شروع کے تین ماہ انور مقصود صاحب نے لکھا پھر پروڈیوسر سے اختلافات کی وجہ سے چھوڑ گئے۔ قرعہ نکلا کہ ٹیم سے زیادہ کون جانتا ہے؟ اسماعیل تارا، میں اور شعیب منصور صاحب حسن اسکوائر پر بیٹھتے تھے۔ میں وہیں کوزی ہومز میں رہتا تھا پانچ دن ہم خاکے لکھتے تھے۔ فی البدیہہ بھی بہت ساری باتیں ہوتیں۔ ففٹی ففٹی کی مقبولیت کا راز یہ تھا کہ ہم 36 خاکے لکھتے ان میں سے 15 ریکارڈ ہوتے اور 10 سے 12 نشر ہوتے۔ کتنی کڑی جانچ پڑتال ہوتی! “ ۔

مستنصر حسین تارڑ والے خاکے کا پس منظر:

” پوری ٹیم اور خاص طور پر اسماعیل تارا کا مشاہدہ بہت اچھا تھا۔ مثلاً مستنصر حسین تارڑ والا خاکہ جس پر تارڑ صاحب ناراض بھی ہوئے۔ ہوا یوں کہ ماجد جہانگیر صاحب خاکہ ’شیطان کا انٹرویو‘ لکھ رہے تھے کہ سامنے شور سا ہوا۔ میں دیکھنے گیا۔ وہاں کانسٹیبل ایک لڑکے سے پنجابی اور اردو بول رہا تھا کہ موٹر سائیکل کی لائٹ نہیں ہے چالان ہو گا۔ لڑکا کراچی یونیورسٹی کا چالاک طالب علم تھا۔ وہ انگریزی میں لائٹ نہ ہونے کی وجہ بتانے لگا۔

کانسٹیبل کو انگریزی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ پولیس والا بہت کچا ہو گیا کہ یہ کیا ہوا میرے ساتھ۔ پنجابی میں کہنے لگا کہ پھر نہ کرنا اب تو چھوڑ رہا ہوں! اس پر تارا نے کہا کہ ایک بہت اچھا خاکہ بن سکتا ہے۔ کوئی مشکل نام نکالو جیسے محتشم بلا بن فلاں۔ میں نے کہا کہ کوئی دیسی نام رکھو جیسے مستنصر حسین تارڑ۔ شعیب منصور نے کہا کہ وہ ہمارے لئے بہت محترم ہیں یہ نہ ہو کہ گرمی کھا جائیں۔ اس سے پہلے کسوٹی کی پیروڈی میں قریش پور بھی غصہ ہوئے تھے“ ۔

” دو دن ریکارڈنگ ہوتی۔ جمعہ کے دن نو بجے اسٹوڈیو میں داخل ہوتے اور سنیچر کی رات 24 گھنٹے بعد اسٹوڈیو سے باہر آتے تھے۔ اندر ہی ملبوسات اور گیٹ اپ بدلے جاتے۔ بڑی محنت اور جانفشانی سے کام ہوتا جس کا نتیجہ خاص و عام میں ففٹی ففٹی کی مقبولیت میں نکلتا تھا۔ آج ویسا نتیجہ کیوں نظر نہیں آ رہا؟ یوں کہ آج ہم اپنا سین کروا کے اگلی ریکارڈنگ کے لئے بھاگتے ہیں۔ جس کے ساتھ ہم سین کر رہے تھے اس کو کھڑا کر کے اس کے سولو شاٹ لیتے ہیں۔ اس کی آنکھیں پھٹی پھٹی۔ کیوں کہ سامنے پائنٹ آف ویو ہی کوئی نہیں! کوئی ایکسپریشن نہیں مل رہا ہوتا یوں سین برباد ہو جاتا ہے“ ۔

اسماعیل تارا کا ایک دلچسپ واقعہ:

” تارا کے کئی ایک دلچسپ واقعات ہیں۔ مثلاً دوپہر کے کھانے کے لئے ہم لوگ بہادرآباد جایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ماجد اور تارا دونوں ایک ساتھ ٹی وی کے گیٹ سے باہر نکلے۔ نکلتے ہی دو افراد ملے۔ کہنے لگے کہ ہمارا تو پورا خاندان آپ لوگوں کا مداح ہے۔ پوچھا کہ کہاں جا رہے ہیں؟ تارا نے بتایا کہ کھانا کھانے جا رہے ہیں۔ اس پر ایک صاحب بے ساختہ بولے کہ ہمارا گھر تو یہ سامنے والی گلی میں ہے۔ ان لوگوں کی گفتگو کا انداز خالص دہلی والوں کا تھا۔

کہنے لگے آئیے گھر میں جا کر ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔ ماجد اور تارا دونوں پسیج گئے۔ ان کو ایک عالیشان گھر کے انتہائی پر تعیش ڈرائینگ روم میں بٹھایا گیا۔ لیموں پانی سے تواضع کی گئی۔ کہا گیا کہ کھانا ابھی آ رہا ہے۔ وقت گزرتا گیا حتیٰ کہ آدھا گھنٹہ بیت گیا۔ تب انہوں نے پکارا کہ بھائی صاحب کوئی ہے؟ باہر سے دہلی والوں کے انداز سے آواز آئی کہ

ابے صبر کر ! دروازہ کھلا تو میزبان کے ساتھ ہٹے کٹے تین چار افراد اندر داخل ہونے لگے۔ میزبان نے کرختگی سے ماجد اور تارا سے بہ آواز بلند کہا کہ تم لوگ اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو؟ دہلی والوں کا مذاق اڑاتے ہو؟ لو اب مزہ چکھو! کیسا کھانا کہاں کا دسترخوان۔ آنے والوں کے تیور لڑائی کے دیکھے تو برق رفتاری سے ان کے بیچ دھکم پیل کرتے ہوئے دونوں سر پر پیر رکھ کر جو بھاگے تو ٹی وی کے گیٹ کے اندر داخل ہو کر ہی دم لیا۔ پھر جب خود یہ آپ بیتی سنائی تو ہم سب لوٹ پوٹ ہو گئے ”۔

ندیا میں گانا:

” ایک گانا ’تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے۔ ‘ سی ویو پر ریکارڈ ہونا تھا۔ اس کی سیچوایشن میری ہی دی ہوئی تھی۔ بھینس بھی سوزوکی میں لاد دی گئی۔ یہاں پہنچے تو علم ہوا کہ دفعہ 144 نافذ ہے۔ تب تجویز دی گئی کہ عزیز آباد، دستگیر کے پل پر پہنچ کر ندی میں گانا کیا جائے۔ پورے کراچی کی غلاظت اس میں بہہ کر آتی ہے۔ مجھے اس میں دھوتی اور ٹی شرٹ پہن کر اترنے کا کہا گیا۔ میں نے صاف انکار کر دیا کہ میں یہ گانا اس غلیظ ندی میں اتر کر نہیں کروں گا۔ ایسے میں تارا نے مجھے زبردستی ندی میں اتار دیا۔ گھٹنوں تک، پھر کمر تک اس میں اتر گیا۔ میں نے پھر اس ’گندی ترین‘ ندی میں بھینس کو دیکھ کر گاتے ہوئے خوب لہریں اڑائیں ’تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے لہریں بھی ہوئیں مستانی سی۔‘ ۔

کیا تارا صاحب غربت کی حالت میں فوت ہوئے؟

” ایسے کئی ایک واقعات ہیں لیکن تارا صاحب کا نعم البدل نہیں۔ وہ عظیم آدمی تھے۔ یہ اس لئے نہیں کہہ رہا کہ وہ ہمارے دوست تھے اور بہت سا عرصہ ہم نے ساتھ گزارا۔ نہ ہی یہ ان کی ناجائز تعریف ہے۔ میں لاہور سے ان کے جنازے پر بھی گیا تھا۔ وہاں ان کے مخالفین بھی تھے۔ کسی نے بھی ایسی کوئی بات نہیں کی کہ تارا نے ایک دفعہ ان کے ساتھ یہ کیا تھا وہ کیا تھا۔ بلکہ مجھے بڑا گلہ ہوا جب تارا کے انتقال کے فوراً بعد کسی نے آپ کی طرح مجھے فون پر لیا تو تارا سے متعلق پاکستان فلم انڈسٹری کے ایک بہت بڑے ڈائریکٹر کے آخری جملے میں نے سنے۔

وہ کہہ رہے تھے کہ ہمارے ہاں فنکار کا آخر مفلسی میں ہوتا ہے۔ یہ بے چارے بھی ہینڈ ٹو ماؤتھ رہ کر کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے۔ پھر میرے متعلق کہا گیا کہ تارا کے دیرینہ ساتھی اشرف خان کچھ بتائیں گے۔ میں نے کہا کہ میں تارا صاحب کے بارے میں بعد میں کہوں گا۔ یہ کون صاحب تھے جو مجھ سے پہلے بات کر رہے تھے؟ بتلایا گیا کہ فلاں صاحب تھے۔ میں نے کہا کہ اگر وہ اب بھی لائن پر ہیں تو بڑے افسوس کی بات ہے کہ وہ فرما رہے تھے کہ اسماعیل تارا کسمپرسی کی حالت میں انتقال کر گئے تو عرض ہے کہ وہ میمن بچے تھے۔

میمن کاروباری لوگ ہوتے ہیں۔ تارا صاحب کی خوش قسمتی ہے کہ اچھے وقت میں تینوں بیٹوں کو ائر لائن میں ملازمت مل گئی۔ انہوں نے بیٹوں کو دبئی میں منتقل کروا دیا۔ چوتھا کراچی میں ہی تھا۔ تارا صاحب کو کسی چیز کی فکر نہیں تھی۔ خواہ مخواہ کی غربت ظاہر کرنے کے لئے تعزیت پر ان کے لئے نا زیبا جملے بولے گئے۔ اگلے کو فوت ہونے کے بعد بھی نہیں چھوڑتے اور برائی کرتے ہیں۔ ان کو کوئی مالی مسئلہ کبھی بھی درپیش نہیں تھا۔

ہم نے بیسیوں ریکارڈنگ اکٹھے کیں اگر ایسا کچھ ہوتا تو تارا نے کبھی تو کچھ کہا ہوتا! مجھے تو حیرت اس بات پر تھی کہ میں نے تارا صاحب کی بیماری کا بھی کبھی نہیں سنا۔ ماجد جہانگیر صاحب، اللہ انہیں صحت والی لمبی زندگی دے، ان کی ہمیں فکر لگی ہوئی تھی۔ وہ بحریہ ٹاؤن لاہور میں منتقل ہو گئے اور حالات کچھ بہتر ہو گئے۔ لیکن تارا کے متعلق تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے“ ۔

” اسماعیل تارا شمیم آرا کی فلموں جیسے ’ہاتھی میرے ساتھی‘ اور دیگر فلموں میں کام سے مطمئن تھے یا اسٹیج سے؟“ ۔

” دونوں چیزوں سے مطمئن تھے۔ ان کو فلموں کا بہت جنون تھا۔ فلم ’جاگ اٹھا انسان‘ ( 1966 ) شیخ حسن صاحب نے کراچی میں بنائی تھی۔ اس میں ایک سین میں کالے برقعے پہن کے اونٹوں پر جو بیٹھے ہوئے تھے ان میں سے ایک تارا صاحب بھی تھے۔ ایک فلم تو ہم دونوں نے اکٹھے بھی کی ’ییس باس‘ ( 1997 ) ۔ یہ جاوید شیخ کی فلم تھی“ ۔

” تارا صاحب بہت خود دار تھے۔ کبھی کسی کے خلاف روتے پیٹتے یا شکوہ کرتے نہیں دیکھا۔ ان کی زبان پر شکایت نہیں تھی۔ اسماعیل تارا صاحب کو اللہ تعالی غریق رحمت کرے اور ان کی اگلی منزلیں آسان کرے۔ میں بلا مبالغہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ تارا صاحب اپنے سلوک اور کسی کا دل نہ دکھانے اور حق نہیں مارنے کی وجہ سے جنتی آدمی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).