پرویز الہیٰ کا انٹرویو: عسکری قیادت اور عدلیہ اپنی پوزیشن واضح کرے


وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ کے یکے بعد دیگرے ٹی وی انٹرویوز سے ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ موجودہ نظام، جسے عرف عام میں جمہوری و آئینی نظام بھی کہا جاتا ہے، درحقیقت اسٹبلشمنٹ کے طاقت ور لوگوں کی ملی بھگت سے ہی چلتا رہا ہے۔ پرویز الہیٰ کو یقین ہے کہ آئندہ بھی یہ اسی طرح چلے گا۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ کا یہ بیان صرف ریٹائرڈ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سیاسی چالوں کا انکشاف ہی نہیں کرتا بلکہ یہ اشارے بھی دیتا ہے کہ فوج بدستور ملکی سیاست میں فیصلہ کن ’فیکٹر‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ نئے آرمی چیف ان دعوؤں کے ہوتے فوج کا امیج بہتر بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔

پرویز الہیٰ نے صرف ماضی کے سیاسی معاملات میں کردار ادا کرنے والے فوجی جرنیلوں کا نام ہی نہیں لیا بلکہ تفصیل سے بتایا ہے کہ کس نے کس موقع پر کیا کردار ادا کیا۔ مثال کے طور پر عثمان بزدار کو جنرل فیض حمید نے وزیر اعلیٰ پنجاب لگوایا۔ اور پھر پرویز الہیٰ کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بننے کے لئے جنرل باجوہ نے تحریک انصاف کے ساتھ چلنے کا مشورہ دیا۔ اب ان کا دعویٰ ہے کہ ’جو نیا سیٹ اپ آیا ہے وہ اس بات پر قائم ہے کہ منصفانہ اور شفاف انتخابات کرائیں گے‘ ۔

پرویز الہیٰ نے اپنے اس یقین کے لئے کوئی دلیل دینا ضروری نہیں سمجھا اور نہ ہی اس انٹرویو کے دوران ان سے پوچھا گیا کہ نئی فوجی قیادت کس حیثیت میں ملک کے سیاسی عمل میں کوئی بھی کردار ادا کر سکتی ہے؟ اور وہ کون سی معلومات کی بنیاد پر یقین سے کہہ رہے ہیں کہ فوج نئے انتخابات میں شفافیت کی ضامن ہوگی۔ جبکہ فوج کا جو اعلان اب تک سامنے آیا ہے اس کے مطابق فوج نے ’غیر سیاسی‘ ہونے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ اس ماٹو کے ہوتے کوئی فوجی ادارہ یا افسر کیسے پرویز الہیٰ کی خواہش کے مطابق ’انتخابات میں شفافیت‘ کو یقینی بنانے کے لئے میدان میں آئے گا؟

پرویز الہیٰ نئے سیٹ اپ کی اصطلاح فوج کی نئی قیادت کے حوالے سے استعمال کرتے ہوئے، شفاف انتخابات کی یقین دہانی کروا رہے ہیں۔ اس بات کو پرکھنے کی ضرورت ہے کہ جب ایک ایسا شخص ’شفافیت‘ کا معیار عسکری قیادت کی ضمانت کو قرار دے جس کا یہ ماننا ہے کہ وہ 1983 سے فوج ہی کے کہنے پر سیاست کرتے رہے ہیں تو اس سے ملکی سیاست اور عسکری اداروں کی ’غیر جانبداری‘ کے حوالے سے کون سی تصویر تیا رکی جائے۔ مونس الہیٰ کے بعد پرویز الہیٰ نے عمران خان کے ساتھ سیاسی الحاق کے حوالے سے جنرل باجوہ کے مشورے کا ذکر کیا ہے۔

باپ بیٹے کے انٹرویوز کا جائزہ لیا جائے تو جانا جاسکتا ہے کہ پاک فوج کے سابق سربراہ کے علاوہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ نے کتنی تفصیل سے سیاسی معاملات طے کروانے کے لئے اپنے عہدوں سے حاصل اثر و رسوخ کو استعمال کیا تھا۔ ملک میں سیاسی تصادم کی موجودہ فضا میں پرویز الہیٰ اور مونس الہیٰ کے یہ بیانات صرف ماضی کی داغدار صورت حال کی عکاسی ہی نہیں کرتے بلکہ ان میں یہ تاثر بھی دیا گیا ہے کہ فوج مستقبل میں بھی ’غیرقانونی ہتھکنڈے‘ جاری رکھے گی۔

یہ جائزہ لینا آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کام ہے کہ وہ اپنے پیشرو جنرل قمر جاوید باجوہ اور مبینہ طور پر قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے والے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے بارے میں کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ اور ملکی سیاست میں مداخلت کے لئے تمام آئینی و اخلاقی حدود عبور کرنے پر ان کے خلاف کس قسم کی کارروائی کی جاتی ہے تاکہ سیاسی حلقوں کے علاوہ فوجی افسروں کو بھی یہ دو ٹوک پیغام مل جائے کہ نئی عسکری قیادت ماضی کی غلط کاریوں کو جاری رکھنے پر تیار نہیں ہے۔

تاہم یہ تصویر کا صرف ایک پہلو ہے۔ متعدد معلوم اور نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر شاید ایسا ڈرامائی اقدام کرنا جنرل عاصم منیر کے لئے ممکن نہ ہو۔ البتہ ’انتخابی شفافیت‘ کے بارے میں ’نئے سیٹ اپ‘ کے کردار کے حوالے سے وضاحت نہ کی گئی تو یہ تاثر عام ہونے میں دیر نہیں لگے گی کہ فوج اب بھی کسی نہ کسی صورت ملکی سیاسی بکھیڑوں کو نمٹانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ واضح ہونا چاہیے کہ پاکستانی عوام فوج کا یہ کردار دو ٹوک الفاظ میں مسترد کرچکے ہیں۔ اس لئے مستقبل میں کسی سیاسی منصوبہ بندی سے مکمل لاتعلقی ہی فوج کی پامال شہرت اور وقار کو بحال کرسکے گی۔

یہ درست ہے کہ جنرل باجوہ کے سیاسی داؤ پیچ کو مسترد کرنے کے لئے گزشتہ چند ماہ کے دوران تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے شدید مہم چلائی ہے۔ عمران خان کی اس مہم کا جو بھی مقصد ہو لیکن یہ نواز شریف کی اسٹبلشمنٹ مخالف سیاسی مہم کا تسلسل بن گیا اور لوگوں نے سوچنا شروع کیا کہ ایک کے بعد دوسرا وزیر اعظم سیاست میں عسکری مداخلت کی ایک سی شکایت کر رہا ہے، اس طرز عمل کو ختم ہونا چاہیے۔ نواز شریف نے سابق آرمی و آئی ایس آئی چیفس کے نام لے کر سیاست میں فوجی مداخلت کے ذکر سے ملک میں سیاسی شعور کا ایک پرجوش ماحول پیدا کیا تھا۔

عمران خان کی اینٹی اسٹبلشمنٹ مہم نے لوگوں میں فوج کے سیاسی کردار کو مسترد کرنے کے اسی مزاج کو راسخ کیا ہے۔ اب یہ کسی ایک پارٹی کا اسٹبلشمنٹ کی سیاسی چال بازی کے خلاف گلہ شکوہ نہیں رہا بلکہ پاکستانی عوام پارٹی وابستگی سے قطع نظر یہ اصول ماننے لگے ہیں کہ فوج کو صرف وہی کام کرنا چاہیے جو ملکی آئین اسے تفویض کرتا ہے۔ اگرچہ ملکی سیاست دان ابھی تک یہ واضح اشارہ دینے میں کامیاب نہیں ہیں کہ وہ فوج کو مکمل طور سے ’غیر سیاسی‘ رہنے دینا چاہتے ہیں۔

عمران خان ہوں یا حکمران جماعتوں کے نمائندے، ان کی گفتگو بالواسطہ طور سے فوج کو اپنے مقصد کے لئے ساتھ ملانے کے اشارے دیتی ہے۔ ساتھ ملانے کی یہ خواہش قومی تعمیر کے کسی مقصد کے لئے نہیں ہے بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ ایک خاص سیاسی گروہ کو طاقت ور عناصر سرپرستی فراہم کریں تاکہ وہ اقتدار پر قابض رہ سکے۔ قومی تعمیر اگر سیاسی قائدین کے پیش نظر ہوتی تو وہ ذاتی اختلافات کے لئے ملک کو بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا نہ رکھتے۔

اب پرویز الہیٰ کھل کر سابقہ اور موجودہ فوجی قیادت کے عزائم کا اعلان کر رہے ہیں۔ ملک میں ابھرنے والی آگاہی کے نئے احساس میں اس قسم کی صورت حال نہ صرف فوج کے وقار و اعتبار بلکہ ملکی سلامتی و حفاظت کے لئے بھی خطرناک ہوگی۔ اس لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ پرویز الہیٰ کو اب راز ہائے دروں خانہ بیان کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی ہے۔ ان کی ’صاف گوئی‘ ذاتی سیاسی مفاد کے سوا کسی مقصد سے عبارت نہیں ہو سکتی۔ اس میں ایک مقصد عمران خان کی طرف سے اسمبلیاں توڑنے کے اعلان کے باوجود کسی بھی طرح اپنی وزارت اعلیٰ کی حفاظت کرنا ہے۔

وہ یہ بھی بتا رہے ہیں کہ آئندہ چار ماہ تک اسمبلیاں ٹوٹنے کا کوئی امکان نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ خود کو عمران خان کے حکم کا پابند بھی بتاتے ہیں۔ البتہ عمران خان کی ضد کے سامنے اپنی خواہش پوری کرنے کے لئے انہوں نے جنرل باجوہ کی جو کہانی بیان کی ہے، وہ بالواسطہ طور سے فوج کی نئی قیادت کے ارادوں اور حکمت عملی کے بارے میں شبہات پیدا کرے گی۔ پرویز الہیٰ کے بیان کی روشنی میں فوج کا سابق سربراہ جس وقت قوم سے ’غیر سیاسی‘ ہونے کا وعدہ کر رہا تھا، اسی وقت وہ وفاقی حکومت کو ’نگرانی‘ میں رکھنے کے لئے پنجاب میں پرویز الہیٰ کی حکومت قائم کروا رہا تھا۔

اس کھیل میں عدلیہ کے کردار کو پرکھا جائے تو بہت سے ایسے ناپسندیدہ پہلو سامنے آتے ہیں، الفاظ میں جنہیں بیان کرنے کی تاب نہیں ہے۔ پرویز الہیٰ نے نہایت ہوشیاری سے ان خالی جگہوں کو پر کیا ہے جن کے بارے میں اب تک قیاس آرائیاں ہی کی جاتی رہی ہیں۔ یاد کیجئے پاناما کیس سے لے کر اقامہ پر نا اہلی کا معاملہ اور پھر پارٹی لائن سے اختلاف کرنے والے ارکان کو نا اہل کرنے کا عدالتی طرزعمل جس میں پنجاب کو عمران خان کے خلاف عدم اعتماد لانے والوں کی سزا بنا دیا گیا۔ شاید یہی وجہ ہے پاکستانی عدالتوں کے فیصلوں کی بجائے ریمارکس زیادہ بلند آہنگ ہوتے ہیں۔

پرویز الہیٰ کا انٹرویو بہت سے کرداروں کو براہ راست اور اس سے بھی زیادہ کو بالواسطہ طور سے عریاں کر رہا ہے۔ اب بھی ان غیر آئینی و غیر اخلاقی حرکتوں سے سبق نہ سیکھا گیا تو اس ملک میں جمہوریت تو مذاق بن ہی جائے گی لیکن پاکستان کے وجود کو لاحق خطرات کو بھی آسانی سے ٹالا نہیں جا سکے گا۔ جب سرحدوں کی حفاظت کرنے والے حکومتیں توڑنے اور بنانے کا کام کرنے لگیں اور آئین کے محافظ قانون کو گھر کی باندی سے زیادہ اہمیت دینے پر تیار نہ ہوں تو اس کے بطن سے وہی انتشار جنم لیتا ہے جس کا مشاہدہ اس وقت ملکی سیاسی منظر نامہ میں کیا جاسکتا ہے۔ سوال صرف اتنا ہے کہ کیا غلطیوں سے سبق سیکھ لیا گیا ہے یا اب بھی ملک کی تقدیر پرویز الہیٰ جیسے ’رہنماؤں‘ کے ذریعے لکھنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments