باجوہ، فیض اور عمران کی تکون


اعتراف اور پچھتاوے، احساس اور ادراک، زوال اور ملال کے ان لمحوں میں راز اور ہمراز دونوں الگ الگ صفحوں پر ہیں۔ وہ جو خوشی اور غم کی سانجھ رکھتے تھے اب صرف درد کے قصے بیان کر رہے ہیں۔ وقت کہاں سے کہاں لے آیا ہے۔

طاقت کی تثلیث میں تین میں ایک یا ایک میں تین کا جو فارمولا ترتیب دیا گیا تھا اُس مثلث کے بازو بھی ہر چند مضبوط کیے گئے تاہم تکون میں درڑ باہر سے نہیں بلکہ اندر سے آئی ورنہ کون تھا جو طاقت کی اس تکون کو توڑ سکتا۔

جنرل باجوہ رخصت کیا ہوئے کہ ٹی وی سکرین پر جلوہ افروز عمران خان ہر روز ایک نئی غلطی، ایک نیا پچھتاوا لے بیٹھتے ہیں، ہاتھ ملتے ہیں اور شکوہ صرف یہ کہ کاش جنرل باجوہ پر اعتبار نہ کیا ہوتا۔

جنرل باجوہ کے ’دُکھ‘ کی داستان بھی کچھ کم نہیں اور چھ سات گھنٹوں پر محیط یہ داستان وہ کچھ عرصہ قبل ایک بریفنگ میں سُنا چکے ہیں۔

کہانی کے تین کردار اور مثلث کا ذکر پہلے بھی کئی کالموں میں کر چکی ہوں۔ یہ ایک صفحے کے وہ مرکزی کردار تھے جنھوں نے خود اپنے ہی کرداروں کو آئندہ کئی برسوں کے لیے منتخب بھی کر لیا تھا۔ بُرا ہو اُن سپنوں کا جو ادھ کُھلی آنکھوں سے دیکھے گئے اور تعبیر تقدیر کے بے رحم ہاتھوں انجام پذیر ہوئی۔

دھیرے دھیرے کھلنے والی اس کہانی کی کئی تہیں ہیں۔ کچھ منظر عام پر آ چکیں اور کچھ کو ابھی سامنے آنا باقی ہے۔ سکرپٹ رائٹر، مرکزی کردار اور ڈائریکٹر سب ایک صفحے کا کام سرانجام دے رہے تھے۔ چھوٹے بڑے فنکار اس بڑی کاسٹ کا حصہ تھے۔

اسلام آباد کے اہم ایوانوں اور سیاسی حلقوں میں گزرتے دسمبر میں یہ بحث دبے لفظوں جگہ لے چکی تھی کہ پندرہ سالہ منصوبہ تشکیل پا چکا جسے کسی صورت تکمیل سے روکا نہیں جا سکتا۔

اٹھارہ کے انتخابات میں اُس کی پہلی اینٹ رکھی جا چکی تھی۔ پی ڈی ایم جماعتوں میں تشویش تھی کہ جمہوری نظام میں غیر جمہوری پیوند کاری اور پارلیمانی نظام میں غیر پارلیمانی منصوبہ ترتیب دیا چکا کہ جس کی آخری منزل صدارتی نظام تھی۔

کئی ایک خدشات میں ڈوبی پی ڈی ایم قیادت عدم اعتماد کے ایجنڈے پر اکٹھی ہوئی تو طاقت کی مثلث جمع ہونے کی بجائے تقسیم ہوتی دکھائی دی۔ یہ وہ وقت تھا جب جنرل باجوہ ’تحریک‘ کے ساتھیوں کو ایک جگہ رکھنے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے۔

پی ٹی آئی میں شامل ایک شخصیت جو تب پی ٹی آئی کا حصہ تھی اور تحریک انصاف چھوڑنے کے لیے پر تول رہی تھی خود اُسے جنرل باجوہ کے دفتر سے پیغام بھجوایا گیا کہ وہ پی ٹی آئی نہ چھوڑیں کیونکہ اگلے انتخابات میں تحریک انصاف ہی وہ واحد جماعت ہے جو کامیاب ہو گی۔

یاد رہے یہ وہ دن تھے جب تحریک انصاف انتہائی غیر مقبول ہو چکی تھی اور اپنے ’وزن‘ پر گر رہی تھی مگر پھر آصف زرداری اور نواز شریف نے گرتی اس دیوار کو آئینی طریقے سے ہٹانا بہتر سمجھا۔

جنرل باجوہ نے عدم اعتماد آنے پر صرف تحریک انصاف کو سہارا ہی نہیں دیا بلکہ کئی ایک جماعتوں سے خود رابطہ کر کے عمران خان کا ساتھ دینے کا کہا اور اب اس سلسلے میں چوہدری پرویز الٰہی اور مونس اٰلہی کا بیان ’ڈبل گیم‘ کی گواہی کے طور پر سامنے آ چکا ہے۔

جنرل باجوہ کا کردار نیوٹرل نہیں بلکہ عمران خان کے پلڑے میں تھا اور اس کا ادراک پی ڈی ایم قیادت کو ہو چکا تھا۔ پھر بھی:

نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم، نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے

رہے دل میں ہمارے یہ رنج و الم، نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے

پنجاب کا معاملہ آیا تو جنرل باجوہ نے چوہدری پرویز الٰہی کو نہ صرف پی ڈی ایم کے پاس جانے سے روکا بلکہ حکومت سازی میں مدد دے کر عثمان بُزدار کی تبدیلی کے دیرینہ مطالبے پر عمل درآمد بھی کروا دیا اور یوں پنجاب بظاہر محفوظ ہاتھوں میں تو آ گیا مگرتحریک انصاف غیر محفوظ ہو گئی۔

اب جبکہ جنرل باجوہ گمنامی کی زندگی میں لوٹ گئے ہیں اور شاید کبھی منظر عام پر نہ آئیں مگر حقیقت یہی ہے کہ گذشتہ چھ برس میں جس ’ڈاکٹرائن‘ نے پاکستان کی معیشت، معاشرت اور سیاست کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اُسے کن لفظوں میں یاد کیا جائے گا؟

اب عمران خان اپنی غلطیاں آئے دن گنوا رہے ہیں تو ذرا دل بڑا کریں اور تسلیم کریں کہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی غلطیوں میں وہ نہ صرف شریک کار رہے بلکہ انھیں استعمال کرتے رہے اور استعمال ہوتے بھی رہے۔

مان لیں کہ جنرل پاشا سے جنرل فیض تک عسکری قیادتوں سے ملک فیض یاب ہوا یا نہیں کپتان ضرور فیض یاب ہوتے رہے۔

پچھتاوے اور افسوس کا یہ موسم نہ جانے کتنا طویل ہے مگر ابھی اس میں ایک اور باب کا اضافہ ہونے والا ہے۔ آہستہ آہستہ کہانی کے سب کرداروں کو منظر عام پر آنا ہے۔ پردہ ابھی گرا نہیں اور پردہ شاید ابھی گرے گا بھی نہیں۔ انتظار فرمائیے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments