ریاستی بحران اور اتفاق رائے کا ایجنڈا


پہلا اور بنیادی نوعیت کا سوال یہ ہی ہے کہ ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ مسئلہ محض قومی سیاسی بحران کا نہیں بلکہ ریاستی بحران سے جڑا ہوا ہے۔ یہ بحران آج کا پیدا کردہ نہیں بلکہ کئی دہائیوں پر مشتمل ہماری داخلی اور خارجی پالیسیوں، فیصلوں اور طرز عمل سے متعلق ہے۔ اس کی ذمہ داری کسی ایک فریق کی نہیں بلکہ طاقت کے مراکز میں شامل تمام فریقین کسی نہ کسی حوالے سے یا اپنے کردار سے ذمہ دار ہیں۔ اس لیے ہمیں اس سیاسی و ریاستی بحران کو کسی بھی طور پر سیاسی تنہائی میں نہیں دیکھنا چاہیے۔

اس بحران کا حل بھی کسی ایک فریق کے پاس نہیں ہے بلکہ اس میں تمام فریقین کو اپنا اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہو گا۔ اس وقت ریاستی اور سیاسی فریقین کے درمیان مقابلہ تدبر، فہم فراست، بردباری، سنجیدگی اور ذمہ داری کا ہے جہاں افراد کے سامنے ذاتی مفادات کے مقابلے میں ریاستی اور معاشرتی مفادات اہم ہوتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں نظام ہی الٹ ہے۔ فریقین کے ذاتی مفادات نے ریاستی مفادات پر بالادستی حاصل کرلی ہے۔ یہ ہی وجہ اس طاقت کی لڑائی میں جاری سرکس یا کشمکش کے کھیل نے ملک میں محاذ آرائی اور ٹکراؤ یا تصادم سمیت سیاست، معیشت، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے نظام کو کمزور اور انتشار میں مبتلا کر دیا ہے۔

اس وقت ہمارے سامنے چار بڑے چیلنجز ہیں۔ اول سیاست میں محاذ آرائی، تصادم اور ٹکراؤ سمیت سیاسی کشیدگی یا سیاسی دشمنی کے پہلووں کو کیسے ختم کیا جائے۔ دوئم کیا ہماری سیاسی قیادت سیاست اور معیشت سے جڑے مسائل پر مل بیٹھ کر مفاہمت، بات چیت یا کسی روڈ میپ پر کچھ بنیادی نکات اتفاق کرنے کے لیے تیار ہیں۔ سوئم آنے والے انتخابات کیسے ہوں گے ، کب ہوں گے اور کیسے انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے کوئی مشترکہ حکمت عملی یا اتفاق کرنے کے لیے کچھ عملی اقدامات کرسکیں گے۔

چہارم جو اس وقت ریاستی اداروں پر تنقید کا عملی ماحول بنا ہوا ہے اس میں کمی کا واقع ہونا اور سیاسی و عسکری قیادت میں کچھ بنیادی نکات پر اتفاق ممکن ہو سکے گا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ پڑھے لکھے یا سنجیدہ افراد کی خواہش اپنی جگہ لیکن جو تلخ سیاسی حقائق ہیں ان کی موجودگی میں اس طرح کے ایجنڈے پر فریقین میں اتفاق کا ہونا انہونی یا ناممکن بات ہوگی۔ کیونکہ اس طبقہ کے بقول حالات جب سازگار ہی نہیں اور فریقین ایک دوسرے کے وجود کو ہی تسلیم کرنے کے لیے ہی تیار نہیں تو ان میں مفاہمت کا عمل کیسے ممکن ہو گا۔

یہ بات کافی حد تک بجا ہے لیکن اس کے باوجود اہل علم افراد کو مایوس ہونے کی بجائے اپنی خواہش یا حقیقی ایجنڈے کو تواتر کے ساتھ پیش کرنا چاہیے۔ اسی نقطہ پر زور دینا چاہیے کہ حالات کیسے بھی ہوں ہمیں اسی ماحول میں اپنے لیے اور ملک یا ریاست کے لیے سازگار ماحول کو پیدا کرنے کی بحث کو ہی آگے بڑھانا چاہیے۔ نتائج سے ہٹ کر اگر سنجیدہ افراد اپنی کوششوں کو جاری رکھیں تو حالات میں تبدیلی ناگزیر ہوگی۔

ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ہم نے اپنے آپ کو دنیا اور علاقائی ممالک کی سیاست اور معیشت میں بہت پیچھے کھڑا کر لیا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں دنیا کے بڑے ممالک سمیت عالمی مالیاتی ادارے بھی ہم پر وہ مہربانیاں کرنے کے لیے تیار نہیں جو ہمیں درکار ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ہمیں آئی ایم ایف کی جانب سے ڈکٹیشن کا سامنا ہے اور ہم پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ ان ہی کی ہدایت پر ہی معاشی معاملات کو چلائیں وگرنہ تعاون ممکن نہیں ہو گا۔

حالانکہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قوم کو یقین دلایا تھا کہ وہ وزیر خزانہ بن کر نہ صرف آئی ایم ایف سے بھی اپنی شرائط منوا لیں گے بلکہ ڈالر کی قیمت میں کمی، مہنگائی اور پٹرول سمیت بجلی قیمتوں میں ریلیف کو بھی ممکن بنا دیں گے۔ مگر اب لگتا ہے کہ ان کو بھی اندازہ ہو گیا ہے کہ کوئی جادو چلنے والا نہیں۔ بدقسمتی سے حکمران طبقات نے معاشیات کو سنجیدگی اور عملی ضرورت کے اقدامات کو جان بوجھ کر چھوڑ کر اپنے مفادات کے پیش نظر جذباتیت کی بنیاد پر چلایا ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ہم معاشی عمل میں ایک گہری معاشی کھائی میں ہیں اور ہمیں باہر نکلنے کا راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔ جو سخت گیر معاشی اصلاحات یا ادارہ جاتی ڈھانچوں میں جامع تبدیلی درکار ہے اس کے لیے ہمارا حکمران یا ریاستی ذمہ داران تیار نہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ خود حکمران طبقہ بھی برملا کہہ رہا ہے کہ جب تک ہم لوگوں کو عملی معاشی ریلیف نہیں دیں گے نئے انتخابات میں جانے کا کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہو گا۔

بدقسمتی یہ ہے کہ اس وقت ہمارے سیاسی، انتظامی، قانونی اور اسٹیبلیشمنٹ سب ہی اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنے کی بجائے بلاوجہ ایک دوسرے کے کاموں میں مداخلت کر رہے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے ہمارے سیاسی ادارے جن میں سیاسی جماعتیں، پارلیمنٹ، حکومت اور حزب اختلاف کی سیاسی رسہ کشی میں پارلیمنٹ جیسا ادارہ غیر اہم ہو گیا ہے۔ مجموعی طور پر پارلیمانی نظام پر ہی سوال اٹھائے جا رہے ہیں اور یہ بحث بھی موجود ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے مسائل کو حل کرنے کی بجائے اس میں خود بگاڑ کے فریق بن گئے ہیں۔

کیا وجہ ہے کہ دنیا میں ہونے والی جغرافیائی، سیاسی اور معاشی تبدیلیوں کو بنیاد بنا کر اپنے لیے محفوظ راستہ تلاش کرنے میں ناکام ہیں۔ کیا اس ناکامی کا سارا ملبہ ہم کو غیروں پر ڈالنا چاہیے یا اس کی ذمہ داری خود بھی لینی چاہیے کہ ہم بھی مسائل کے بگاڑ میں ذمہ دار ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں سیاسی تقسیم اس قدر گہری ہو گئی ہے کہ اس نے پورے نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ لوگ عقلی بنیادوں پر کم اور جذباتیت کی بنیاد پر زیادہ سیاسی محاذ پر ہم کو تقسیم نظر آتے ہیں۔ یہ تقسیم محض سیاست تک محدود نہیں بلکہ اس تقسیم نے سیاست سمیت دیگر اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور ہم مجموعی طور پر اس تقسیم کی وجہ سے اپنے لیے زیادہ مسائل پیدا کر رہے ہیں۔

ہمیں بطور ریاست آگے بڑھنا ہے۔ داخلی اور خارجی چیلنجز سے نمٹ کر ملک کو محفوظ بنانا ہے۔ لیکن یہ کام محض خواہشات اور جذباتیت پر مبنی سیاست یا فیصلوں سے ممکن نہیں۔ اس کے لیے سب کو ہی سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا۔ سیاسی انا پرستی اور سیاسی اندھی دشمنی کو ختم کر کے اپنے سیاست سے جڑے مخالفین کو بھی قبول یا راستہ دینا ہو گا۔ جو ہمارے علاقائی مسائل ہیں ان کو حل کر کے ہی ہم جہاں علاقائی سیاست میں اپنی اہمیت کو بڑھا سکتے ہیں وہیں اپنے لیے کئی سیاسی اور معاشی مواقعوں کو بھی پیدا کر سکتے ہیں۔

لیکن اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنے گھر کا سیاسی، انتظامی پوسٹ مارٹم کرنا ہو گا۔ پوسٹ مارٹم سے مراد ہمیں اپنے داخلی مسائل یا پہلے اپنے گھر کے حالات کی درستگی کی طرف پیش رفت کرنا ہوگی۔ ایک ایسے سیاسی اور معاشی روڈ میپ جس پر کچھ بنیادی اصولوں کو بنیاد بنا کر محض سیاست یا سیاسی اسکورنگ نہ ہو بلکہ ہر سیاسی فریق یہ سمجھے یہ بنیادی سیاسی اور معاشی اصول ہماری ریاستی بقا کی ضمانت بنتے ہیں۔ ایک دوسرے پر سیاسی سبقت یا سیاسی بالادستی کی جنگ کو نمایاں کرنا ختم کر کے قانون کی بالادستی، آئینی دائرہ کار میں رہ کر مسائل کا حل تلاش کرنے پر زور دینا چاہیے۔

لیکن کچھ معاملات ایسے سنگین ہیں کہ ہمیں بہت سے فیصلے جہاں سخت اور کڑوے یا سخت گیر کرنے ہیں وہیں ہمیں معاملات کو مختلف زاویوں سے دیکھ اور پرکھ کر ان کا متبادل حل یا راستہ تلاش کرنا ہے۔ کیونکہ ہم مشکل میں اور مشکل حالات عملاً ہم سے بڑے غیر معمولی حالات میں غیر معمولی فیصلوں کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس لیے ہمیں خود کو بھی جھنجھوڑنا ہے اور دوسروں کو بھی جھنجھوڑ کر اس نقطہ پر لانا ہو گا کہ ہمیں روایتی انداز سے مسائل کی طرف جانے سے گریز کرنا ہو گا۔ کیونکہ روایتی اور فرسودہ طور طریقے ہمارے مسائل کا حل نہیں۔ حالات ہم سے کچھ بڑے تقاضے کرتے ہیں اور ہمیں ریاستی بحران کو مدنظر رکھ کر بڑے فیصلوں کی طرف پیش رفت کرنی ہے۔

پاکستان میں رائے عامہ تشکیل دینے والے افراد یا اداروں سمیت اہل دانش کی بڑی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس تقسیم سے بچ کو فیصلہ کرنے والی قوتوں یا افراد پر دباؤ کی سیاست کو بڑھائیں کہ وہ موجودہ بحران میں چھوٹے چھوٹے فروہی مسائل میں الجھنے کی بجائے ان حقیقی مسائل پر توجہ دیں جو ہمیں بطور ریاست، جمہوریت اور سیاست درکار ہیں۔ کیونکہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم واقعی اپنے طرز عمل میں تبدیلی لائیں اور کچھ کر کے دکھائیں وگرنہ حالات کے بگاڑ اور نقصان کے ہم ہی ذمہ دار ہوں گے اور ہمارا ہی ہر سطح پر احتساب ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments