اقتدار میں حصہ دار اور عوام


یہ انیس سو چھیانوے کی بات ہے ہم چند صحافی اور ادبی دوست غلنئی مہمند ایجنسی سے ماہنامہ (قبائل) کے نام سے ایک رسالہ نکالتے تھے۔ اس میں ایک صفحہ مزاحیہ سوال و جواب کے لئے مختص تھا۔ موبائل ایس ایم ایس اور وٹس ایپ تو تھا نہیں۔ قارئین خطوط کے ذریعے سوالات پوچھتے اور میں بحیثیت ایڈیٹر مزاحیہ انداز میں اس کے مختصر جوابات دیتا تھا۔ ایک مرتبہ کسی نے خاتون نے پوچھا اگر آپ ہمارے ایم این اے بن جاتے تو سب سے پہلا کام کیا کرتے۔ میں نے مختصر جواب دیا اب تک اسلام آباد میں میرا بنگلہ تعمیر ہو چکا ہوتا۔

کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں جو بھی شخص سیاست کرتا ہے وہ دراصل اقتدار اور اختیار میں حصہ دار بننے کی جدوجہد کر رہا ہوتا ہے۔ وہ وسائل کی تقسیم میں اپنا حصہ بڑھانے کی جدوجہد کرتا ہے۔ یہاں سیاست کا مطلب لازما ایم این اے یا ایم پی اے بننا بھی نہیں۔ گلی محلے کی لوکل باڈیز سے لے کر محکمانہ یونین سازی تک ہر شخص کی جدوجہد کا محور یہ ہوتا ہے کہ وہ وسائل کی تقسیم میں اپنا حصہ بڑھا سکے۔ اگرچہ یہ ایک فطری اور خدائی قانون بھی ہے کہ جو بندہ دوسروں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتا ہے ان کے مسائل سب سے پہلے حل ہوتے ہیں۔

فرق صرف نیت کی ہوتی ہے مثلاً عبدالستار ایدھی مرحوم نے بھی انسانیت کی خدمت کا بیڑہ اٹھایا تھا۔ مگر اس خاکسار انسان کو اللہ تعالی نے جہازوں اور ہیلی کاپٹروں سے نوازا اور انسانیت کی خدمت میں ان کو عظمت اور سہولت دی۔ دوسری طرف درجنوں سیاستدانوں کے نام گنوائے جا سکتے ہیں جنھوں نے خدمت اور سیاست کے نام پر وسائل کی تقسیم میں نہ صرف اپنا حصہ بڑھایا بلکہ دوسروں کے وسائل اور حصے پر قبضہ کیا اور اس کو اپنا حق سمجھنے لگا۔

پاکستان میں ایسے لوگوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جو زندگی میں صرف ایک دفعہ وزیر مشیر سینیٹر یا ایم این اے بنے ہیں۔ اس کے بعد نہ اسے نہ اس کے خاندان کو مزید سیاست کی ضرورت رہی نہ محنت مزدوری کی۔ پہلے تو وہ چار پانچ سال میں اتنا کماتے ہیں اتنے ٹھیکے اور کوٹے حاصل کرتے ہیں، کمیشن لیتے ہیں۔ کہ پھر دہائیوں تک اسے مزید محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے اگر فرض کرے اتنا نہ بھی کمائے تووہ اقتدار اور اختیار میں اپنے آپ کو حصہ دار بنا چکا ہوتا ہے۔ اقتدار کے خاتمے کے پانچ چھ سال بعد بھی وہ جہاں جاتے ہیں۔ کم از کم ان کے ذاتی کام کوئی نہیں روکتا ہے۔ اور مختلف قسم کے کوٹے سے اسے مستقل آمدن جاری رہتی ہے۔

مثلاً پختونخوا کے ایک سابق وزیر اعلی اور ایک سابق سپیکر کا سب سے بڑا ذریعہ آمدن ایل پی جی کے کارخانے ہیں جو انھوں نے اپنے اپنے دور اقتدار میں لائسنس لے کر شروع کیے تھے۔ ایک سینیٹر صاحب کا سب سے بڑا ذریعہ آمدن مائننگ کے لئے استعمال ہونے والے بارود کا کوٹہ ہے جس سے انہیں گھر بیٹھے سالانہ کروڑوں روپے کی آمدن ہوتی ہے۔ ایک مرحوم سابقہ سینیٹر صاحب نے افغانستان سے لکڑی لانے کا لائسنس حاصل کیا تھا۔ وہ دہائیوں تک کنڑ کے علاوہ باجوڑ اور دیر کی لکڑیاں بھی لاکر بیچتا اور جائیدادیں بناتا رہا۔

منتخب ایم این ایز صاحبان مائننگ لیز دلانے اور سرپرستی کی بدولت درجنوں ٹھیکہ داروں کے ساتھ مائننگ کے کاروبار میں حصہ دار بنے ہوئے ہیں۔ متعدد ایم این ایز اور ایم پی ایز صاحبان نے سیاسی اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے من پسند مقامات پر پیٹرول اور سی این جی پمپ کھول رکھے ہیں جس کے بعد ان کا پورا خاندان زندگی بھر کے لئے کم از کم گھریلو اخراجات سے بے فکر ہوجاتا ہے۔ یہ ان سیاست دانوں کی بات ہے جو پاکستان میں نسبتاً پاک دامن تصور ہوتے ہیں جن پر نیب کیسز نہیں ہے نہ ہی ان پر کرپشن اور کمیشن کے براہ راست الزامات ہیں اسی لئے تو میں نے شروع میں کہا کہ دراصل یہاں سیاست کا مقصد ہی وسائل کی تقسیم میں حصہ بڑھانا ہوتا ہے۔ اور جو بندہ زندگی میں جتنا ترقی کرتا ہے وسائل کی تقسیم میں اس کا حصہ اتنا ہی بڑھتا چلا جاتا ہے۔

ان تمام تفصیلات اور بحث کا مقصد یہ ہے کہ جب تک ملکی نظام یعنی سرکاری اداروں اور محکموں کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد نہ کیا جائے اور ان اداروں کے اندر سخت مگر شفاف چیک اینڈ بیلنس اور آڈٹ کا نظام متعارف نہ کیا جائے۔ عوام کی فلاح و بہبود کے تمام نعرے صرف نعرے ہی رہیں گے۔ عوام کی فلاح و بہبود اور متناسب ترقی کو یقینی بنانے کے لئے عوامی نمائندوں کو نہیں اداروں کو با اختیار بنانے کی ضرورت ہے منتخب نمائندے ان اداروں کے لئے پالیسی بنانے اور ان اداروں کو قانون اور پالیسی کے مطابق چلانے میں اپنا اختیار استعمال کرے۔

کیونکہ عوامی نمائندوں کی تعداد کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔ اس کے پاس بے شک بے تحاشا اختیارات بھی کیوں نہ ہو مگر عوامی مسائل حل کرنے کے لئے انہیں پھر بھی محکموں کو کہنا پڑتا ہے۔ کیونکہ قانون کی روسے کوئی بھی منتخب نمائندہ نہ پوسٹنگ ٹرانسفر کرنے کا حقدار ہے نہ کسی کو نوکری دینے پولیس سے چھڑانے شناختی کارڈ بنوانے اور سڑکیں سکول اور کالجز بنانے کا اختیار رکھتا ہے۔ مہذب اور ترقی یافتہ دنیا میں یہ سارے کام ان کاموں کے لئے بنائے گئے محکمے انجام دیتے ہیں۔

پاکستان میں بھی ان کاموں کے لئے باقاعدہ محکمے قائم ہیں اور ان کے ہزاروں ملازمین اربوں کی تنخواہیں لیتے ہیں۔ مگر بد قسمتی سے ہم نے ان محکموں کو اپاہج بنا کر ان کے کاموں کو منتخب نمائندوں کی سفارش سے نتھی کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے میرٹ کا ستیاناس ہے اور ہر محکمے کا سربراہ میرٹ کی بجائے حکومتی نمائندوں کی سفارشی خطوط اور ٹیلی فون کالز کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ ایسے میں نظام کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے۔ اور سیاسی خانوادوں کے حجرے اور ڈیرے دن رات آباد رہتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو کسی بھی صبح اپنے علاقے کے منتخب پارلیمنٹیرین کے حجرے میں جائے۔ وہاں سینکڑوں سائلین کو صاحب جی سے سفارشی خط کے انتظار میں قطاروں میں کھڑا پائیں گے۔

میرے خیال میں وقت آ گیا ہے کہ اس منافقت اور میرٹ کی پامالی پر مبنی نظام سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ہر باشعور شخص اپنا کردار ادا کرے۔ مجھ جیسے قلم کے مزدوروں کو لکھنا اور بولنا ہو گا۔ ٹریڈ یونین عہدیداروں کو اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ اپنے اداروں کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کرنے کے لئے آواز اٹھانا ہوگی۔ سماجی ادارے عوام میں شعور پیدا کرنے کے لئے سیمینارز واک اور ورکشاپس کا انعقاد یقینی بنائے۔ وکلاء تنظیمیں سفارش کلچر کے خاتمے اور محکموں کو خود مختار بنانے کے لئے عدلیہ کو متوجہ کرے۔

میرٹ کی خلاف ورزیوں پر متاثرین کے کیسز مفت لڑے۔ عدلیہ سرکاری افسران کو بات بات پر ٹوکنے اور جھڑکنے کی بجائے میرٹ کی بحالی کے لئے ان کی حوصلہ افزائی کرے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تعلیم یافتہ نوجوان اپنے مسائل کے حل کے لئے ہر صبح منتخب نمائندوں کے حجروں میں حاضری لگانے اور سفارشی خط کے لئے منتیں کرنے کی بجائے محکموں پر میرٹ یقینی بنانے کے لئے دباؤ ڈالیں عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائیں۔ پھر دیکھئے کہ تبدیلی آتی ہے کہ نہیں۔ اور یہی سے حقیقی تبدیلی اور ترقی کا سفر شروع ہو گا۔ کیا ہم ایسا کرنے کے لئے تیار ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments