خواب لے لو خواب۔ ”ہاں میری معیشت کا سہارا خواب ہیں!


عالم میں متعدد مثالیں ایسی ہوں گی اور ہیں بھی کے سیاست کا محور جمہور کی فلاح و بہبود ہوتی ہے۔ مختلف ممالک کے حکمران اپنی اپنی سیاسی جد و جہد میں، عوام کی روز مرہ زندگی میں بہتری لانے کے لئے اپنا منشور پیش کرتے ہیں اور حق حکمرانی عوام تک پہنچانے کے لیے عوام سے اعتماد کا ووٹ لیتے۔ عوام کارکردگی کی بنیاد پر انہیں اقتدار میں لاتے ہیں یا اقتدار سے باہر لے جاتے ہیں۔ عام طور پر ایسے حالات ترقی یافتہ ممالک میں رونما ہوتے ہیں جہاں عوام پڑھے لکھے ہوتے ہیں اور وہاں سیاست دانوں کی پرکھ، حقوق کی بروقت فراہمی اور بہتر سیاسی بندوبست پر کی جاتی ہے۔

دوسری طرف ترقی پذیر ممالک میں عوام چونکہ کم یا ترقی یافتہ ممالک سے نسبتاً کم پڑھے لکھے ہوتے ہیں اور ان کا معیار زندگی، جس میں بنیادی سہولیات شامل ہیں بھی ترقی یافتہ ممالک کے عوام سے واضح طور پر کم ہوتی ہیں۔ گویا ثانوی الذکر ممالک میں عوام عام طور پر زندگی کی کشمکش میں رہتے ہیں۔ ایسے ممالک کے خواص، یعنی اشرافیہ جو بر سر اقتدار ہوتے ہیں وقتاً فوقتاً عوام کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کے خواب تھوک میں بیچتے ہیں اور یاسیت میں ڈوبے عوام ”آج نہیں تو کل بہتری ہوگی“ کی امنگ لیے اس بر سر اقتدار طبقے کی آنکھ، کان اور گلا بن کر مزید رائے عامہ ہموار کرتے ہیں کہ جو ریڈی میڈ خواب لینے سے انکاری دو چار نظر آتے ہیں ان کو بھی اشرفیہ کا تابعدار اور آمادہ خریدار بنایا جائے۔ خیر یہ کشمکش یوں ہی رہتی ہے مگر ملال یہ ہے کے اس کشمکش کی صبح یاجوج و ماجوج کی کھدائی نما ہے جو جانے کب پوری ہوگی؟

وطن عزیز میں خوابوں کی سوداگری انتہائی فراوانی سے کی جاتی ہے۔ ہر آنے والا سیاستدان ہر جانے والے سے خود کو ممتاز بتاتا اور دکھاتا ہے۔ عوام کے سب دکھ، درد، محرومیاں، اور استحصال یکمشت ایک دھلائی چیلنج سے دھو دینے اور زندگی بھر کی بے فکری کا بگل بجا کر آتا ہے اور عوام ”آ گیا وہ شاہکار تھی جس کی تلاش“ کا ترانہ گاتے بغل گیر ہو جاتے ہیں۔ یوں نون م راشد کے حسن کوزہ گر سے متنوع ایک نیا حسن کوزہ گر جو کئی سالوں سے اس قطار اور ہجوم کو نئے خواب جن کی تعبیر بیانباں ہوتی ہے بیچ کر، گاؤ تکیہ لیے موسم کی تندی کو ملحوظ رکھے قہوہ بمعہ عربی کھجور لیے ہر گھونٹ میں کرب کی کتھک کا سرور لیے جاتا ہے۔

عوام اپنی بیچارگی اور کم مائیگی کا احساس لیے اپنے غم کے مدوائے میں اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے صنم کی بیوفائی کے بعد اس کے خدو خال، فٹنس، گیسو، سٹیمنا اور کبھی چپل کے عشق میں مبتلا ہو کر اپنی محرومی میں بھی ایک ان دیکھا مزہ کشید کرتے ہیں۔ ایسا کسی ایک پاسباں کے لیے نہیں بلکہ جو آیا، یاور ہی آیا، جو آیا بختاور۔

مملکت خداداد موجودہ وقت میں جس گرینڈ فینالے میں پہنچ چکی ہے، اس سے سالم باہر آنا فی الحال صنعت اہمال یعنی لایعنی لگتا ہے۔ معاشی ماہرین سر پیٹ رہے ہیں کے ملک دیوالیہ ہو چلا ہے۔ لیکن حکومت اور اپوزیشن بضد ہیں کے یارو یہ دیوالیہ ہونا جب تک ہم سہ نا لیں، دیکھ نہ لیں، ہم کیونکر مان لیں کے ملک ڈیفالٹ کر جائے گا؟ گویا آگ دونوں جناب یکساں ہے حکومت اور اپوزیشن ملک کے دیوالیہ ہو جانے کو عین شادی کے لڈو سے ملائے ہوئے ہیں کہ جب دیوالیہ نہ ہو کر بھی رونا، پچھتانا اور ہڑبڑانا ہے تو چلو موتی چور لڈو نہ سہی ”دیوالیہ چور“ ہی کھا لیتے ہیں، کم از کم ایک تذبذب تو ٹوٹے گا، ایک ”اکسٹیسی“ ملے گی ”وٹ نیکسٹ“ کا ورد ہو گا کیک کٹے گا تو سب میں بٹے گا۔ گر دیوالیہ ہی ہونا ہے تو نہ روکو ہمیں ہو جانے دو۔

ملک ایک ایسے دور سے گزر رہا ہے جہاں غربت، جہالت، بدامنی، مہنگائی، بیروزگاری، بال کھولے رقص کر رہی ہے وہاں سیاست دانوں کی ترجیحات دیکھ نہار منہ نوحہ کناں ہونے کو دل کرتا ہے۔ باقی مسائل اگر صحت خیال کے لیے ترک بھی کر دیے جائیں تو بھی محض خیال قرض ہی کافی ہے جاں سوزی کے لیے۔ ملکی معیشت کو لاحق مسائل میں سب سے بڑا درپیش مسئلہ تجارتی اور جاری کھاتہ خسارہ نہیں بلکہ آئندہ برسوں میں واجب الادا قرضوں کی واپسی ہے۔

مان لیں اگر دل پشوری کرنے کرنے کے لیے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ شنے / صفر بھی کر دیا جائے تب بھی پاکستان قرض ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں آ سکتا۔ کیونکہ ملک میں کثیر الجہتی قرضوں میں اضافہ ہوا ہے رواں مالی سال 2022 سے 2023 پاکستان کو 32 سے 34 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کا سامنا ہے۔ ایسے حالات میں سیاست دان ”لاہور دا پاوا اختر لاوا“ منجی تھلے پھیرو ڈانگ چک کے پاوا، لاہور دا پاوا اختر لاوا ”پر ڈب سماش کر رہے ہیں۔ یہاں بگڑا ہوا ہے آوے کا آوا، لاہور دا پاوا اختر لاوا۔

موجودہ عبقری وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار صاحب کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سی ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔ اچھا! اگر نہیں لیں گے تو اربوں ڈالر کا سرمایہ، ملکی معاشی صورت حال کی بہتری کے لیے کہاں سے لائیں گے؟ غلامی نہیں کریں گے، ہمیں کوئی جھکا نہیں سکتا، ہم خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے وغیرہ وغیرہ جیسے محض نعرے عوامی جذبات کی فصل سمیٹنے کے لیے تو کام آ سکتے ہیں مگر موجودہ معاشی بحران کو سمیٹنے کے لئے یہ لفاظی کافی نہیں۔

کسی ملک کے لیے قرض لینا کوئی معیوب بات ہرگز نہیں ہے۔ عالمی سیاسی معیشت میں ممالک دیگر ممالک سے قرض لیتے بھی ہیں اور قرض دیتے ہیں۔ کئی ترقی یافتہ ممالک بھی قرض لیتے ہیں۔ حتٰی بعض اپنے کل جی ڈی پی سے بھی زائد قرض لیتے ہیں جیسے جاپان، اپنے جی ڈی پی سے 226 گنا زائد قرض لے چکا ہے۔ اسی طرح امریکہ بھی اربوں ڈالرز کے قرض لے چکا ہے مگر ہم میں اور غنیم میں فرق یہ ہے کی وہ قرض کو تفہیم کے ساتھ پیداواری عمل میں خرچتے ہیں جس سے انہیں برآمدات میں اضافہ ملتا ہے اور ملک میں سرمایہ کاری کی ریل پیل ہوتی ہے۔

جبکہ وطن عزیز میں قرض کو سیاست دانوں نے مافق مہر سمجھ لیا ہے کے قوم کی ترجمانی کے عوض عالمی مالیاتی ادارے ان کا حق ادا کریں اور یہ حق، قرض کی صورت میں ہو جس کی واپسی قوم کا لہو نچوڑ کر کی جائے گی۔ ملال کی بات یہ ہے کے جب قوم کو فیصلہ سازی میں شراکت نہیں دی جاتی تو ان فیصلوں کی بوسیدہ فصل کاٹنے کا ہرجانہ قوم سے کیوں وصول کیا جاتا ہے؟

ایک طرف کہا جاتا ہے کے عوام ٹیکس چور ہے اس لیے حکومت مالی خسارہ برداشت کرتی ہے اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لے کر ملکی معاشی صورت حال کو چلنے لائق بناتی ہے۔ اگر اس ابہام کو جسے ہر حکومت استعمال کرتی ہے، کی پڑتال کی جائے تو عداد و شمار چونکا دینے والے ہوں گے۔ اس مفروضے کی پڑتال ریاستی ادارہ برائے عداد و شمار جس کے ہونے کا واحد مقصد ہی یہی ہے کے ملکی ریونیو کی بابت عداد و شمار جمع کیے جائیں اور یہ عداد و شمار حکومت و عوام کو پیش کیے جائیں، آئیے ان عداد و شمار پر ایک سرسری نگاہ ڈالتے ہیں۔

اگر پچھلی 3 دہائیوں کا ڈیٹا دیکھا جائے تو سنہ 1990 میں بمطابق سی بی آر ( سینٹرل بورڈ آف ریونیو) تب اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو اب، ٹیکس محصولات کا حجم 110 ارب روپے تھا۔ 1999ء میں یہی ٹیکس محصولات 347 ارب تک جا پہنچے۔ 2007 میں ٹیکس حجم ایک ہزار ارب یعنی ایک کھرب تک جا پہنچا۔ مالی سال 2021ء تا سال 2022ء تک ٹیکس محصولات حجم 5350 ارب تک پہنچ چکا ہے۔ سال 2022ء تا سال 2023ء تک حکومت کھلی بانہوں سے 7000 ارب روپے تک ٹیکس محصولات جمع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اگر عوام ٹیکس چور ہیں تو یہ سلیمانی ٹیکس کون جمع کروا رہا ہے؟

اس سطح پر ٹیکس کلیکشن کے باوجود ملکی معیشت کو قرضوں تلے دفن کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ حکمران چاہے جو بھی آئے یہ قرض عوام کی بہبود کے لیے نہیں بلکہ ذاتی آنیوں جانیوں، شاہ خرچیوں، اور ہے لگام نمائش پر سرف کرتے ہیں اور خمیازہ مفلس عوام کو نہ چاہتے بھگتنا پڑتا ہے۔

عوام کو اپنے منتخب کردہ نمائندوں سے مالی حساب بغیر کسی نرمی، رعایت یا رخصت کے لینا ہو گا اور قرض کو پیداواری عمل میں سرف کرنے تک مقتدرہ کا پہرہ دینا خود پر فرض کرنا ہو گا ورنہ رہتی دنیا تک رہے گا رونا ساتھ ہمارے۔

گھر میں تھا کیا جو تیرا غم اسے غارت کرتا
وہ جو رکھتے تھے اک حسرت تعمیر سو اب بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments