جوڑوں میں پیار بڑھانے والی محبت کی پانچ زبانیں


فرید میرے کزن تھے۔ ان کی شادی اپنے بچپن کی محبت میری کزن ثریا سے ہوئی تھی۔ لیکن شادی کے بعد فرید نے محبت کی آنچ میں کوئی کمی نہیں آنے دی تھی۔ فرید ہر وقت اپنی دنیا میں مست رہنے والے تھے۔ ہم ہمیشہ ان کو ہنستے مسکراتے ہی دیکھا تھا۔ ان کا فطری قہقہہ ہمیشہ سے مجھے یاد رہا۔ اس جوڑے کی محبت ایک شمع کی طرح ٹمٹماتا شعلہ نہیں تھا بلکہ تاریک سمندر کے درمیان ایک روشنی کے مینار کی طرح ہر طرف اپنی روشنی بکھیرتا رہا۔

فرید کو میں نے کبھی اپنی بیوی کا اصلی نام لیتے نہ سنا بلکہ ہمیشہ بھابھی کو کبھی شیریں، کبھی شیر بانو یا درخانئی کہہ کر پکارتا تھا۔ اپنے ہنس مکھ مزاج کے ساتھ ساتھ وہ اپنی محبت کا اظہار ستار کے تار چھیڑ کر موسیقی کی ہفت رنگ زبان میں بھی کرتا تھا۔ بدقسمتی سے ان کی وفات جوانی ہی میں ہوئی۔ ان کے جانے کے بعد ہم نے بھابھی کے منہ پر کبھی مسکراہٹ نہیں دیکھی۔ گیری چیپمین کی کتاب ”محبت کی پانچ زبانیں“ پڑھتے ہوئے میں اپنی یادوں کا دھارا فرید کے خاندان کی طرف جانے سے نہ روک سکا۔

دنیا کی بے شمار زبانوں کو ایک دوسرے سے رابطہ قائم رکھنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ آپ خود ہی سوچئے کی مخاطب کی زبان جانتے ہوئے ہم کتنی غلط فہمیوں کو جنم دیتے ہیں، تو ایک دوسرے کے ساتھ پوری زندگی میں کتنی رکاوٹیں بن سکتی ہیں۔ لیکن خوش قسمتی سے محبت کی زبان دو پیاروں کو جکڑنے میں کامیاب رہتی ہے اگر دونوں اس کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ہر شخص اپنے تعلق کا اظہار مختلف طریقے سے کرتا ہے۔ اور وہی ساتھی دیرپا تعلق کو قائم رکھ سکتا ہے جو محبت کی زبان سمجھتا بھی ہو اور ملتا جلتا جواب بھی دے سکتا ہو۔

ایک پھلتا پھولتا معاشرہ محبت کی زبان سمجھتا ہو تو پر امن رہتا ہے اور یہی زبان صحت مند زندگی کے لئے پانی اور ہوا کی طرح ضروری ہے۔ اس کا اظہار مختلف معاشروں میں مختلف طریقوں سے کیا جاسکتا ہے۔ ایک میٹھی مکمل چہرے کی مسکراہٹ، ہلکی سی گرم جوشی، مصافحے کی گرفت، معانقے کا انداز، گالوں یا سر پر چومنا کسی اجنبی کو بھی کھینچ سکتا ہے۔ بچپن ہی سے طبیعت میں محبت، گرم جوشی اور دوسرے جذبات خاندان کے اندر سے سما جاتے ہیں۔

یہی بچے آگے جاکر مستقبل بناتے ہیں۔ خاندان کی اکائی کے لئے بھی محبت اسی طرح ضروری ہوتی ہے جیسے گاڑی کے چلنے کے لئے پٹرول ٹینکی میں پٹرول۔ محبت کی ٹینکی بھری نہ ہو تو وہ خاندان زیادہ دور تک نہیں چل سکتا۔ ایک سرمایہ دار کے مطابق، مال و دولت، زمین، مکان اور دنیاوی خوشحالی، محبت کے ٹینک کو نہیں بھر سکتے۔ ورنہ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں اتنی جلدی جلدی علیٰحدگی نہ ہو پاتی۔

محبت کی کلی دل میں پھوٹتی ہے تو جذبات، عقلی فیصلوں پر غالب ہو جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے لئے کشش شروع میں تمام مسائل پر قابو پا لیتی ہے۔ تاہم ایک ماہر نفسیات کے مطابق، محبت کی شادی میں یہ جذبات دو سالوں کے اندر اندر مدہم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ”اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا“ کی حقیقت آشکارا ہونے لگتی ہے۔ اگر اس کے بعد تعلق کے اظہار کے دوسرے طریقے اختیار نہ کیے جائیں تو ہم آہنگی ختم ہوجاتی ہے۔ پھر یا تو پرانے اقدار کے مطابق کچے دھاگے سے بندھے رہتے ہیں اور یا موجودہ نسل کی طرح علیٰحدگی میں کوئی رکاوٹ نہیں باقی رہتی۔ اس لئے شروع کے ابال کے بیٹھتے ہی مستقل محبت کے لئے ایک دوسرے سے جذباتی وابستگی کا اظہار ضروری ہوجاتا ہے۔

زبان سے الفاظ کی ادائیگی ہی خیالات کے اظہار کے لئے کافی نہیں ہوتی، لہجہ، چہرے کا تاثر اور جسمانی حرکات بھی الفاظ کے معانی بدل سکتے ہیں۔ اسی طرح محبت کا اظہار بھی فریقین کے درمیان غلط فہمی کی وجہ بن سکتا ہے۔ ہر ساتھی اپنی محبت کا اظہار مختلف طریقے سے کرتا ہے۔

وجیہہ اور شاہد کی شادی کو بارہ سال ہونے کو ہیں۔ وجیہہ کو معلوم ہے کہ شاہد کو بچوں سے محبت ہے اور اس گھرانے کے لئے دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔ لیکن اس کا گلہ ہے وہ ان کے ساتھ دل کھول کے وقت نہیں گزارتا۔

شاہد مانتا ہے کہ وجیہہ پورے گھر اور بچوں کو اچھی طرح سنبھالی ہوئی ہے۔ لیکن وہ سمجھتا ہے کہ جب اس کی باری آتی ہے تو وجیہہ کی توجہ بدل جاتی ہے۔ اب دیکھا جائے تو وجیہہ کی محبت کی زبان کوالٹی ٹائم ہے جبکہ شاہد کی سوئی جسمانی لمس پر اٹکی ہوئی ہے۔ جب اس کتاب کے مصنف نے ان کی توجہ اس طرف دلائی تو دونوں کو احساس ہوا۔ اب شاہد جاب کے سارے تفکرات وہیں چھوڑ کے آتا ہے اور بیوی بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے لگا ہے۔ جو اباً وجیہہ بھی شوہر کے زیادہ نزدیک ہو گئی۔

سقراط کے شاگرد زینوفون کے مطابق سب سے میٹھا لہجہ تعریف کا ہے۔ محبت کے دھارے میں بندھے جوڑے کے لئے یہ ایک مہمیز کا کام کرتی ہے۔ اپنے جیون ساتھی کا ایک حوصلہ افزا جملہ، ایک فاخرانہ اچٹتی نگاہ، پسندیدگی کا معمولی اظہار پورے دن کی کوفت دور کر دیتا ہے۔ کبھی زبان سے کپڑوں کے انتخاب کی داد دینا، بالوں کی سجاوٹ پر واری جانا، گھر کے لئے سارا دن سخت محنت کے لئے ساتھ کا خلوص سے شکریہ ادا کرنا، جیون ساتھی کے گھر آنے پر مسکراہٹ سے استقبال کرنا ایک لحاظ سے ایک دوسرے کے لئے محبت کا اظہار اور دوسرے کی قربانی کا زبانی اقرار ہے۔ تاہم خیال رہے کہ یہ تعریف گلے شکوے کی صورت میں نہ ہو۔ ایک خواہش یا درخواست کی شکل میں ہو۔ ورنہ ساری فضاء مسموم ہو سکتی ہے۔

شکیلہ کئی ماہ سے گلہ کر رہی تھی کہ سلیم کو مسلسل کمرے کی تھوڑی بہت رنگ و روغن کے لئے کہتی رہی ہے لیکن چھ ماہ ہونے کو آئے ہیں اور کمرے کی دیواریں اسی طرح لکیروں سے بھی پڑی ہیں۔ اس کے ماہر نفسیات نے مشورہ دیا کہ شکیلہ آئندہ چند ہفتے تک کمرے کے رنگ کا ذکر بھی زبان پر نہ لائے۔ بلکہ ہر وہ کام جو سلیم رضاکارانہ طور پر کرے، اس کی تعریف کرے۔ تین ہفتے بعد ہی کمرہ نئے رنگ سے جگمگا رہا تھا۔

موجودہ دور میں توجہ کسی ایک چیز پر مرکوز رکھنا محال ہوتا جا رہا ہے۔ انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، اخبار، ٹی وی، اشتہارات، لگتا ہے ہمیں بہا کر لے جائیں گے۔ اس نقار خانے میں اپنے حواس قابو میں رکھنا بھی مشکل ہو گیا ہے کجا کہ ایک دوسرے کی قربت کو برقرار رکھنا۔ یوں جوڑوں کو معیت میسر نہیں ہوتی۔ البتہ ایک دوسرے کے قریب رہ کر اپنا اپنا وقت پاس کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی ساتھ ایک شغل میں وقت لگائیں۔ بیگم کپڑے خرید رہی ہیں، آپ پسند اور ناپسند کے لئے آئینہ بن جائیے۔ بیگم بھی آپ کی قربت کی وجہ سے خریداری میں ذرا سپیڈ بڑھا لیں گی۔ ساتھ ساتھ شاپنگ سے زیادہ اس سے وابستہ یادیں محفوظ رہ جاتی ہیں۔

چند ساتھیوں کے لگاؤ کی زبان تحائف پر مشتمل ہوتی ہے۔ اگر آپ کی زندگی کی ساتھی کو تحائف پسند ہیں تو آپ عام اشیاء کو بھی خوبصورت پیکنگ میں لپیٹ کر دیا کریں۔ یاد رہے کہ تحفے کی اصل قیمت اس کے دینے کا انداز اور وقت ہے، نہ کہ اس کی دنیاوی قیمت۔ اسی طرح اگر آپ کو آپ کا ساتھی ہر وقت تحائف سے خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے تو آپ بھی اسے کسی نہ کسی جوابی تحفے سے متوجہ کر لیا کریں۔ ہمارے معاشرے میں خواتین محنت کے چند کام اپنے فرائض سمجھ بیٹھی ہیں۔

کبھی کبھار ان کے ساتھ مل کر کپڑے، برتن دھونا، کمرہ آراستہ کرنا، کام پر جانے سے قبل بستر لگانا، سونے سے قبل دروازے بند کرنا وغیرہ یا ویک اینڈ پر ناشتہ تیار کرنا بھی الہ دین کے ”کھل جا سم سم“ سے کم اثر نہیں رکھتا۔ بجائے اپنے جیون ساتھی سے کسی کام کا مطالبہ کرنے کے پوچھ لیا کریں کہ آپ ان کے لئے کیا کر سکتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے لئے مردوں کو بچے سنبھالنا یا بیوی کو ڈرائیو کر کے سودا لانا نہ صرف مرد اور عورت کے روایتی رول کو ادل بدل سکتا ہے، بلکہ ایک دوسرے کی مشکلات کا اندازہ کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔

محبت کی ایک زبان لمس ہے۔ خواہ وہ ہاتھ پکڑنا ہو، موقع دیکھ کر ویسے ہی نزدیک کرنا، سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے یا اترتے ہوئے ہاتھ دینا، یہ سب ایک پیغام ہے کہ دونوں کے درمیان ابھی محبت کا شعلہ بجھا نہیں۔ خلوت میں لمس کے بے شمار دوسرے مواقع ملتے ہیں لیکن اکثر ہماری روایتی شرم و حیا بیچ میں حائل ہوجاتی ہے۔ اس پرایک دوسرے سے کھل کر گفتگو کی جا سکتی ہے کہ کہاں کہاں آپ کے ہاتھ سخت لگتے ہیں یا کہاں سنسنی خیزی پیدا کرتے ہیں۔ اس سے زیادہ تفصیل شاید اس مضمون میں ممکن نہ ہو۔ لیکن میری خواہش ہے کہ ہمارے ہاں بھی جوڑوں کے لئے ایک رہنمائی کا منبع ہونا چاہیے۔ جہاں سے وہ اشارے لے کر اپنی اور اپنے جیون ساتھی کی ”محبت کی زبان“ کو سمجھ سکیں اور یوں اپنی زندگی آخری وقت تک خوشگوار بنائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments