شاعر اہل بیت، استادوں کے استاد۔ گوہر جارچوی


معروف شاعر اہل بیت اطہار ع اور استادوں کے استاد جناب گوہر جارچوی نے مولائے کائنات حضرت المرتضی کرم اللہ تعالی وجہ الکریم اور مخدومہ کائنات بنت رسول مقبول، بتول بی بی فاطمتہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی شادی خانہ آبادی کے حوالے سے جو منقبتی سہرا بعنوان علی کے ساتھ ہے زہرا کی شادی لکھا اور ایسی محبت و عقیدت کے رنگ بکھیرے، وہ آج بھی دیس دیس کی فضاؤں میں دیکھے جا سکتے ہیں اور رہتی دنیا تک محبان علی و فاطمہ کی توجہ کا مرکز بنے رہیں گے۔

استاد گوہر جارچوی سے میری محبت کا رشتہ ایسے ہی بصیرت زا اور ایمان افروز کلام کی بنیاد پر قائم ہوا۔ شعرائے کرام کا منقبتی کلام میری روح کی غذا ہے۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے فارغ التحصیل استادوں کی محفل میرے والد بزرگوار قبلہ سید فخرالدین بلے کے آنگن میں سجی ہوئی تھی۔ انہوں نے ایک تنظیم بنا رکھی تھی قافلہ۔ اس قافلہ کے زیر اہتمام ہمارے ہاں جو محفلیں سجتیں، انہیں پڑاؤ کا نام دیا جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ 1990 انیس سو نوے کی دہائی میں علامہ طالب جوہری، احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر اجمل نیازی، اختر حسین جعفری، صدیقہ بیگم، سرفراز سید، شہزاد احمد، اشفاق نقوی، اسرار زیدی، منظر حسین اختر اور بہت سے ارباب ادب قافلے کے پڑاؤ میں موجود تھے۔ علامہ سید غلام شبیر بخاری علیگ نے میرے والد سید فخرالدین بلے سے فرمائش کی کہ آپ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جو منقبت کہی تھی ہمیں وہ سنائیں۔ اس کا ایک شعر یہ ہے

واللہ بے مثال تھی شادی بتول کی
بیٹا خدا کے گھر کا تھا، بیٹی رسول کی

اب ملاحظہ فرمائیے استاد گرامی جناب گوہر جارچوی کی مشہور زمانہ منقبت کہ جو مولائے کائنات و معصومۂ کونین اور مخدومہ کائنات کے عقد مبارک کی نسبت سے سہرا ہے۔

منقبت : علی کے ساتھ ہے زہرا کی شادی
منقبت نگار : استاد گوہر جارچوی
علی کے ساتھ ہے زہرا کی شادی
سبھی خوش ہیں خدائی بھی خدا بھی
علی کے ساتھ ہے زہرا کی شادی
لڑکا خدا کے گھر کا لڑکی ہے نبی ۖ کے گھر کی
وہ ارض و سما کا مالک یہ ملکہ بحر و بر کی
زمیں رخشا، ہے رخشا آسماں بھی
علی کے ساتھ ہے زہرا کی شادی
حیدر ہے کل ایماں اور کل عصمت زہرا
اس سر پہ وفا کا سہرا، اس سر پہ حیا کا سہرا
وہ شہزادہ ہے اور یہ شہزادی
علی کے ساتھ ہے زہرا کی شادی
بولا یہ خدا ہر جانب رحمت کی گھٹا برسے گی
جو بغض سے بنجر ہوگی بس وہی زمیں ترسے گی
اٹھو جبرئیل یہ کردو منادی
علی کے ساتھ ہے زہرا کی شادی
بارات چلی حیدر کی رحمت کے سائے شائے
بارات کے آگ قرآن قصیدے گائے
نبی سارے چلے بن کر براتی
علی کے ساتھ ہے زہرا کی شادی
قدرت کی طرف سے ان کو تحفے اور ملیں گے
ان کے حسیں آنگن میں دو اصلی پھول کھلیں گے
حسیں شجرے جنہیں دیں گے سلامی
علی کے ساتھ ہے زہرا کی شادی
کیسے ہو بیاں وہ منظر جب ختم ہوئی سب رسمیں
کونین کی ہر شے گوہر کہتی تھی کھا کر قسمیں
مبارک ہے مبارک ہے یہ شادی
علی کے ساتھ ہے زہرا کی شادی

حقیقت تو یہ ہے کہ استاد گوہر جارچوی نے میری یادوں کے دروازے کھول دیے ہیں، وہ آج کل شدید بیمار ہیں۔ اس لیے میری دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی انہیں صحت کاملہ عطا فرمائے۔ آمین۔ استاد گوہر جارچوی کی دعائے صحت کی اپیل امریکہ میں مقیم ہمارے انتہائی مقرب، استاد، خیر خواہ، برادر محترم اور قادر الکلام شاعر جناب عارف امام صاحب نے بھی کی ہے اور اس وقت مجھے استاد گوہر جارچوی کا خوبصورت کلام یاد آ رہا ہے۔ چھانے لگی ہے شام غریباں۔

نے میرے دل و دماغ میں ہلچل مچا دی ہے اور ناد علی کا ورد جو کرتی چلی گئی، نہ پونچھیے کہ کیا حسین ہے، اتنا شاندار اور جاندار کلام ہے کہ سبحان اللہ۔ دل کی زبان سے ناد علی کا ورد جاری ہو گیا ہے۔ آپ بھی استاد محترم گوہر جارچوی کا یہ خوبصورت کلام ضرور پڑھیں اور سنیں لیکن پہلے درود شریف کے ساتھ ایک بار ناد علی پڑھ کر محترم و مکرم گوہر جارچوی کے لیے یہ دعا ضرور کریں کہ اللہ تبارک و تعالی انہیں صحت کاملہ عطا فرمائے۔ آمین الہی آمین

استادوں کے استاد محترم گوہر جارچوی اور ان کے خاندان کے چند بزرگوں سے بھی ہمیں تعلق داری کا اعزاز حاصل ہے۔ بہت سی حسین ملاقاتیں، قصے اور باتیں ہیں جن کو ہم کسی الگ مضمون کا حصہ بنائیں گے اور محبان شاعر اہل بیت اطہار ع کو اپنی داستان سنائیں گے۔

ہم اپنی اس مختصر سی تحریر کا اختتام استاد گرامی گوہر جارچوی کے شہرۂ آفاق پر کرتے ہیں۔ نہ پوچھئے کہ کیا حسین ہے۔ بصد عقیدت و احترام پیش خدمت ہے یہ ہر دلعزیز کلام

منقبت : نہ پوچھیے کہ کیا حسین ع ہے
کلام : گوہر جارچوی
نہ پوچھیے کہ کیا حسین ہے
نہ پوچھیے کہ کیا حسین ہے
خدا کے دیں کا ناخدا ہر ابتداء کی ابتداء
کرم کی انتہا حسین ہے ’کیا حسین ہے
کرے جو کوئی ہمسری کسی کی کیا مجال ہے
جہاں میں ہر لحاظ سے حسین بے مثال ہے
یہ ہو چکا ہے فیصلہ نہ کوئی دوسرا خدا
نہ کوئی دوسرا حسین ہے کیا حسین ہے
ہے جس کی فکر کربلا حسین وہ دماغ ہے
یہ پنجتن کی انجمن کا پانچواں چراغ ہے
حسن کا پہلا ہمسفر علی کا دوسرا پسر
امام تیسرا حسین ہے ’کیا حسین ہے
اس۔ یر ش۔ ام پر نگ۔ اہ کی تو حر بنا دیا
جو مر رہے تھے ان کو زندگی کا گر سکھادیا
حسین ہے حیات گر حسین عظمتوں کا گھر
عظیم رہنما حسین ہے ’کیا حسین ہے
کرو کے گر مخالفت غم حسین کی یہاں
وہ حشر ہو گا حشر میں کہ الحفیظ و الماں
جہاں بھی چھپنے جاؤ گے کہیں پہ بچ نہ پاؤ گے
کہ ہر جگہ میرا حسین ہے ’کیا حسین ہے
میان دشت نینوا الٹنے فوج اشقیا
بڑھا جو شاہ کربلا اٹھا کہ تیغ لافتی
لگی جو سر اتارنے کہا یہ ذوالفقار نے
غضب کا سورما حسین ہے ’کیا حسین ہے
شہید کربلا کا غم جسے بھی ناگوار ہے
وہ بدعمل ہے بد نصب اسی پہ بے شمار ہے
ارے او دشمن عزا تو مر ذرا لحد میں جا
پتا چلے گا کیا حسین ہے ’کیا حسین ہے
قضا کے بعد پھر مجھے نئی حیات مل گئی
فشار سے عذاب سے مجھے نجات مل گئی
سوال جب کیا گیا ہے کون تیرا رہنما
تو میں نے کہہ دیا حسین ہے ’کیا حسین ہے
ہدایت حسین پر عمل کرو حسینیو
رہے گیں ہم بہشت میں یقیں رکھو حسینیو
قبول ہوگی ہر دعا کسی سے کیوں ڈریں بھلا
ہمارا واسطہ حسین ہے ’کیا حسین ہے
سرور گوہر ہنر ہوا یہ خواب دیکھ کر
سجے ہوئے ہیں خلد میں تمام مومنوں کے گھر
نشاں غم ہے جلوہ گر ہر آدمی کے سینے پر
ہر ایک لب پہ یا حسین ہے ’کیا حسین ہے
نہ پوچھیے کہ کیا حسین ہے
نہ پوچھیے کہ کیا حسین ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments