جاوید چودھری کے شاہکار کالم کا چرچا


بچپن کی بہت سے حسین یادیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو زندگی بھر پیچھا نہیں چھوڑتیں، آ گے کی طرف تیز تیز دوڑتے وقت کے ساتھ کہیں نہ کہیں ضرور پلٹ آتی ہیں، جس سے مخصوص یاد کی اہمیت ذہن کی تہوں میں کہیں نہ کہیں تازہ ہو جاتی ہے۔ گلی میں گونجنے والی ایک آواز جاوید چودھری کے موجودہ شاہکار کالم سے ریلیٹ کر گئی، اسی لیے اس کا تذکرہ کرنا مناسب جانا۔ جب چھوٹے تھے تو گلی محلے میں ایک آواز کبھی کبھار گونجا کرتی تھی کہ ”پانڈے قلعی کرا لو“

مطلب بے ڈھنگے اور دھوئیں دھول سے اٹے کالے ہوتے ہوئے برتنوں کو وارنش کروا لیں تاکہ برتنوں کا چہرہ دھل جائے۔ یہ ایک خاص قسم کی قلعی ہوتی ہے اور سفید رنگ کی ملائم دھات ہوتی ہے جو چاندی سے مشابہت رکھتی ہے اور تانبے پیتل وغیرہ کے برتنوں پر ملمع کرنے کے کام آتی ہے اور برتنوں کی کالک کو چھپا کر ان کی شیلف لائف کو بڑھانے کا ذریعہ بنتی ہے۔ یہ خاص قسم کی قلعی معروف اینکر پرسن و قصہ گو جناب جاوید چودھری کے پاس وافر موجود ہوتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ ان کے پاس اس مخصوص دھات کے ذخائر اس قدر موجود ہیں جو کم از کم ان کی زندگی میں تو ختم ہونے والے بالکل نہیں ہیں۔

ملمع سازی یا ظاہری ٹیپ ٹاپ کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں اور اپنا یہ نایاب ہنر اب تک بہت سوں پر آزما چکے ہیں، ان کا قلم ہمیشہ ایسے لوگوں کی شخصی نوک پلک سنوارنے میں پیش پیش رہتا ہے جو ایک طاقتور پوزیشن کو انجوائے کر رہے ہوتے ہیں یا ریٹائر ہو چکے ہوں، زمین و آسمان کے ایسے قلابے ملاتے ہیں کہ عقل محو تماشا بن کے رہ جاتی ہے۔ ہم میں سے بہت سے ایسے بھی ضرور ہوں گے جو اسی بھیڑ چال کے نرغے میں رہے ہوں گے اور چوہدری صاحب کے کالم بڑے شوق سے پڑھتے ہوں گے؟ یقین مانیں ہمارا شمار بھی انہی مداحین میں ہوتا ہے جن کی نظروں میں ”زیرو پوائنٹ“ کی اہمیت کسی مقدس صحیفے سے کم نہیں ہوتی تھی، ان کا لکھا ہوا ہر حرف ذہن کی گہرائیوں میں اتر کر ان کی ایک ایسی شبیہ بنا دیا کرتا تھا کہ جیسے علم و گیان ہاتھ باندھے اور سر جھکائے اسی بندے کے گرد طواف میں مصروف رہتا ہو اور غائبانہ روحیں و موکلات ان پر فدا ہوں جو سر جھکائے ان کے کانوں میں ایسے راز انڈیل رہے ہوں جن تک کسی دوسرے کی رسائی ممکن نہ ہو۔ ظاہر ہے بچپن تو پھر بچپن ہی ہوتا ہے زندگی کے اس مرحلے میں بہت کچھ حقیقت لگ رہا ہوتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ اس مرحلے میں ذہن عقلی باتوں سے زیادہ خیالی و تصوراتی رنگینیوں سے زیادہ بہلتا ہے، قصے کہانیاں، اڑن کھٹولے اور اور عمرو عیار طرز کی اساطیری کہانیاں اس دور کا خاصہ یا سرمایہ ہوتی ہیں۔ اسی لیے ہم جیسے اور بہت سے جاوید چوہدری کے کالموں سے فیض یاب ہوتے تھے تاکہ اندر کے بچے کو بہلا سکیں۔
جیسے جیسے بڑے ہوئے اور پختگی کی منزلوں کے راہی بنے تو یہ عقدہ کھلا کہ موصوف صحافی نہیں ہیں بلکہ اسٹوری ٹیلر یا کہانی گو ہیں اور ان کے ماورائے عقل گیان کا تعقل یا خرد مندی سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا، ہاں ذہنی عیاشی کی حد تک حسب ضرورت مستفید ضرور ہوا جا سکتا ہے اور اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے چونکہ ذہنی تفریح بھی تو زندگی کا حسن کہلاتی ہے۔ چودھری صاحب کا ایک خاصہ یا کمال یہ ہے کہ وہ امیج بلڈنگ بہت ہی شاندار انداز میں کرتے ہیں اور لفظوں کی صورت میں خیالات کی ایک ایسی مالا بنتے ہیں جس کے سامنے عقل والے بھی کچھ دیر تک کے لیے ٹھٹھک کے رہ جاتے ہیں اور ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، چونکہ آئیڈیل ازم کا سحر تو بہرحال ہوتا ہے بھلے کچھ وقت تک کے لیے ہی سہی مگر دل و دماغ پر ایک خوشگوار حیرت کے اثرات ضرور چھوڑ جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ طاقتور لوگ اقتدار میں رہتے ہوئے یا رخصت ہو جانے کے بعد چودھری صاحب کی خدمات حاصل کر لیتے ہیں۔ بس پھر ان کا ”اوتاری و معجزاتی“ قلم اس شخص میں سے وہ اوصاف کشید کرتا ہے یا ڈھونڈ نکالتا ہے جو مطلوبہ شخص کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے، چوہدری صاحب کی چیرتی ہوئی تیز نگاہ وہ کچھ ڈھونڈ لاتی ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھے ہوں اور نہ کسی کان نے سنے ہوں۔ لوگ امیج بلڈنگ کے لئے نجانے ویلفیئر کے نام پر کیسے کیسے کام کرتے ہیں، کچھ ہر سال حج پر تشریف لے جاتے ہیں، کچھ سال میں تقریباً چھ عمرے کر لیتے ہیں، کچھ مساجد وغیرہ تعمیر کروا دیتے ہیں اور کچھ گھروں میں باقاعدگی سے محفل وغیرہ بھی کرواتے ہیں تاکہ معاشرتی بھرم بنا رہے اور زندگی کی رنگینیوں پر بھی کوئی فرق نہ پڑے بلکہ نیک بازیوں کا یہ سارا چکر رچایا ہی اس لیے جاتا ہے کہ دنیاوی دھندے ”نظر بد“ سے محفوظ رہیں۔ جبکہ بہت سے تو یہ تکلف بھی نہیں کرتے بلکہ ڈائریکٹ جاوید چوہدری سے رابطہ کر لیتے ہیں جو مطلوبہ شخص کا اس قدر خوبصورتی سے شخصی سماں باندھتے یا مرہم پٹی کرتے ہیں کہ قارئین پڑھتے وقت سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ

”یار ہم ایویں خواہ مخواہ میں فلاں بندے کو برا سمجھتے رہے دراصل وہی تو سیاسی بساط پر “اکلوتا پارسا” تھا“ ۔

موصوف کی تحریر کا سب سے بڑا کمال ”احساس جرم“ کی ایک غائبانہ لہر و ٹیس کو قاری کے ذہن میں بیدار کرنا یا اجاگر کرنا ہوتا ہے اور ان کی اسی صلاحیت سے مستفید ہونے کے لیے حاضر سروس و ریٹائرڈ رابطہ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور وہ کمال مہارت سے کھل جا سم سم کا نعرہ مستانہ بلند کر کے کسی بھی شخصیت کے نہاں خانے میں دبکے یا چھپے ہوئے برگزیدہ بزرگ و درویش کو دریافت فرما لیتے ہیں۔ حیرت تو ان نا خداؤں پر ہوتی ہے جو اپنی حیات کا کل اثاثہ چودھری صاحب کے ذہنی بھڑولے میں ڈال کر خود اپنے قصیدے لکھوانے پر مجبور ہو جاتے ہیں حالانکہ اس مہان نباض یا حکیم کی خود کی حیثیت اور ساکھ داستان گوئی سے زیادہ نہیں ہے، ویسے بھی ہمارا دیس اس قسم کے قصیدہ گو یا درباری گوئیوں میں خود کفیل ہے، اس دراز فہرست میں سرفہرست اوریا مقبول جان، ہارون الرشید، مولانا امیر حمزہ، زید حامد اور طارق جمیل آتے ہیں جو اپنے روحانی خوابوں و بشارات کے ذریعے سے کسی کو بھی اوج کمال پر پہنچا دیتے ہیں۔ طارق جمیل صاحب کی رجسٹرڈ صادق و امین بارے بیان بازیاں ریکارڈ کا حصہ ہیں اور روحانی گینگ کی مرشد عالیہ کے متعلق جو ان کا موقف تھا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، لمحہ موجود میں امت ان کی طرف بے چینی سے دیکھ رہی ہے کہ اب ان کا اگلا موقف کیا ہو گا؟ وہ کینیڈا میں دبکے بیٹھے ہیں۔ سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ عام انسان صرف ایک نارمل حیوان ناطق ہوتا ہے اس پر بلاوجہ پارسائی کا اتنا بوجھ ڈالنے کا تکلف کیسا؟
چودھری صاحب کی فیکٹری یا لانڈری سے شخصی ڈرائی کلین کا شرف حاصل کرنے والوں میں افتخار چودھری، نیب والے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال اور اب حال ہی میں پروجیکٹ عمران کے کرتا دھرتا جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ بھی شامل ہیں، چوہدری صاحب کا شاہکار کالم جس کا چرچا آج کل میڈیا پر ہو رہا ہے جس میں انہوں نے جنرل ریٹائرڈ باجوہ کی صحبت میں گزرے کل چھ گھنٹوں کا تذکرہ فرمایا ہے، جس میں ان کے گھر کی بے تحاشا صفائی کے معیار اور کیک رس چائے میں ڈبو کر کھانے کے علاوہ ان کے کارناموں اور غلطیوں کے اعترافات کو ایک انوکھے رنگ و ترنگ اور الہامی ”لے“ میں بیان کرنے کی کوشش فرمائی ہے اور انکشاف کیا ہے کہ اب ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل باجوہ اور فیض حمید کوئی ویلفیئر پروجیکٹ کا آغاز کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ضرور شروع کرنا چاہیے کوئی مضائقہ نہیں مگر کیا یہ ویلفیئر پروجیکٹ پہلے جیسا ہو گا جس کا خمیازہ نہ جانے کب تک اس قوم کو بھگتنا پڑے گا؟ بقول جاوید چوہدری جنرل صاحب کا کہنا ہے کہ پروجیکٹ عمران کے حوالے سے جو راز ان کے سینے میں دفن ہیں اگر ان کا پانچ فیصد بھی انہوں نے شیئر کر دیا تو ان کو منہ چھپانے کی جگہ کہیں نہیں ملے گی، ویسے ہم غریبوں کا مشورہ ہے کہ پانچ فیصد میں سے صرف ایک فیصد حصہ فلوٹ کر کے بطور واٹر ٹیسٹ کے پیش کرنے میں کیا حرج ہے؟
ویسے بھی تو مجسمہ پارسائی کا بھرم آڈیوز یا ویڈیوز کی صورت میں توڑنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، عوام کو قسطوں میں بے وقوف بنانے کی بجائے ایک ہی بار بنا لیں لیکن جس کے متعلق یہ انکشافات کا سلسلہ چلایا گیا ہے اسے قطعی طور پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ ایک عادی شخص ہے اور اس کڑوی ”حقیقت“ کو لانے والے بھی بخوبی جانتے اور سمجھتے ہیں۔ عرض صرف اتنی سی ہے کہ شاید اب آپ کو اندازہ ہو گیا ہو کہ جب ٹرولنگ ہوتی ہے یا گالیاں پڑتی ہیں تو کیسا محسوس ہوتا ہے؟ کچھ بھی ہو جائے جناب! چودھری صاحب کا دھندا چلتا رہے گا اور آگے آگے کچھ اور لوگ بھی اپنی شان میں قصیدے لکھوانے کے لیے عزت مآب سے رابطہ کرنے والے ہیں، ممکن ہے کچھ وقت کے بعد ہمیں روحانی گینگ کی مرشد عالیہ، زلفی بخاری اور عمران خان کے قصیدے بھی بزبان جاوید چودھری پڑھنے کو ملیں؟ خود کو ذہنی طور پر تیار رکھیں، کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ آگے پیچھے کے بمپر سے ہوشیار!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments