الطاف حسین (صحافی) کے بارے میں مولوی محمد سعید کی نایاب تحریر


الطاف جنوری 1900 ءمیں سلہٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ قد درمیانہ تھا۔ بدن زیادہ فربہ نہیں تھا۔ رنگ سیاہی مائل اس حد تک کہ جب امریکا کے دورے سے واپس آئے تو صحافیوں نے پریس کلب میں تقریر کی دعوت دی۔ سوالوں کے دوران ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ امریکا کے سفید فام آپ کو حبشی سمجھ کے آپ سے گریزاں تو نہیں تھے؟ کہنے لگے۔ دو چیزوں کی بنیاد پر میں حبشی نژاد نہ سمجھا گیا۔ ایک میری ناک ستواں ہے اور دوسرے میرے سر کے بال گھنگریالے نہیں۔ ان دو نشانیوں کے علاوہ وحشیانہ تن و توش سے بھی عاری تھے۔ مزاج میں تیزی تھی اور بعض اوقات مغلوب الغضب ہو جاتے۔ ایک مرتبہ صبح نو بجے ہی میرے گھر رقعہ بھیج دیا کہ فوراً دفتر پہنچو۔ رات بھر جاگنے کے لیے وہی گھڑیاں خواب سحر کی ہوتی ہیں۔ نیند سے جگا یا گیا۔ قہر درویش برجان درویش، دفتر پہنچا تو الطاف صاحب کے کمرے میں نائب مدیر شکور بیٹھے ہوئے تھے۔ رات کی ایک خبر سامنے دھری تھی۔ سرد آتش فشاں کی طرح جی ہی جی میں ابل رہے تھے۔ سلام کا جواب دیے بغیر پوچھنے لگے۔ یہ کاپی کس کی ہے؟میں نے کاپی دیکھی تو سمجھ گیا سبوتاژ کے وہم میں مبتلا ہیں اور میرے لب پر متعلقہ سب ایڈیٹر کا نام آتے ہی ڈان کا نیوز روم ایک قابل سب ایڈیٹر سے محروم ہو جائے گا۔ میں نے لاعلمی ظاہر کی۔ اتنا سننا تھا کہ اخبار زمین پر پٹخ دیا۔ غصے سے کانپنے لگے اور گرج کے کہا ”تم چیف سب ایڈیٹر ہونے کے قابل نہیں۔ تم اپنے رفقا کا خط تک بھی نہیں پہچانتے“۔ کاپی اٹھا کے دوسری جانب پھینک دی اور ہم دونوں سے کہا کہ چلے جائیے۔

کمرے سے باہر نکلے تو شکور صاحب بڑی شکستہ دلی سے کہنے لگے کہ تعجب ہے آپ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کا خط بھی نہیں پہچان سکتے؟ میں نے کہا ’ایرک رحیم ہیں‘۔ ایرک انہی کے ہم خیال و ہم مشرب تھے (یعنی ترقی پسند تھے ۔ مدیر) ۔ یہ سن کر رک گئے میری طرف حیرت سے دیکھنے لگے۔ ’میں نے کہا متفکر ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ طوفان شام تک تھم جائے گا‘۔

رات دس بجے کے قریب آئے تو سیدھے میری سیٹ پر آگئے۔ میں احترامااٹھنے لگا تو کندھا دبا کے کہنے لگے بیٹھے رہو۔ پھر بڑی محبت سے پوچھا ۔ ’پتہ چلا کس کی کاپی تھی؟‘ میں نے کہا متعلقہ صاحب کو سرزنش کر دی گئی ہے۔ یہ سن کر مسکرا دیے۔ صاف دکھائی دے رہا تھا کہ انہیں میری بات کا یقین نہیں آیا تھا!

روس کا ایک اعلیٰ سطح کا وفد کراچی آیا۔ لیاقت علی خان کے ہاں جس روز ان کا کھانا تھا۔ الطاف ڈنر جیکٹ پہنے ہوئے دفتر آئے اور کہنے لگے۔ ”شاید ضیافت سے دیر میں لوٹوں۔ کچھ پوچھنا ہو تو ابھی پوچھ لیجئے“۔ میں نے مختصر سی خبر دکھائی جس میں عالمی سیاست میں روس کے رویے کی مذمت کی گئی تھی۔ کہنے لگے آخری صفحہ پر ایک کالم سرخی کے ساتھ چھاپ دو۔ میں نے اسے حسب ہدایت آخری صفحہ پر جما دیا۔

صبح کے تین بجے تھے۔ پرچہ چھپنا شروع ہو گیا اور میں رات کی روئداد لکھنے بیٹھ گیا۔ باہر ہلکی ہلکی ترشح ہونے لگی۔ اچانک ایسا معلوم ہوا کہ جیسے صحن میں چاندنی کھل گئی ہو۔ دیکھا تو الطاف صاحب کا پیکارڈ بڑے دروازے میں داخل ہو رہا ہے اور اس کی تیز شعاعوں میں بوندیں موتیوں کی طرح چمک رہی ہیں۔ موٹر رکا۔ الطاف صاحب شب خوابی کے لباس میں بڑی گھبراہٹ کے عالم میں اترے اور کہنے لگے وہ روس والی خبر ڈال دی تھی۔ میں نے کہا، جی ہاں! کہنے لگے ”دوڑو۔ مشین رکواﺅ اور خبر نکال دو۔ “ فرمے کو مشین پر سے اٹھوایا اور خبر نکال کر اسی جگہ دوسری خبر ڈال کر مشین کو پھر سے چلوا دیا۔

پانچ سات سو پرچے چھپ چکے تھے۔ الطاف صاحب نے انہیں اٹھوا کر موٹر میں لادا اور چلے گئے۔ چلتے چلتے کہنے لگے ”میں نے رات لیاقت علی خان سے اس خبر کا تذکرہ کیا تھا۔ انہوں نے منع کر دیا تھا۔ واپسی پر تمہیں بتلانا بھول گیا۔ اب سوتے میں اچانک جیسے کسی نے اٹھا کے بٹھا دیا ہو“۔

گھر پر اگر کسی بیرونی مہمان کو بلاتے تو بعض اوقات سٹاف کے کچھ لوگوں کو بھی مدعو کر لیتے۔ تیونس کے بورقیبہ اور مشہور ہندوستانی صحافی فرینک موریس کو میں نے الطاف صاحب کے ہی مکان پر دیکھا۔ برگری روڈ پر وہ اور ذوالفقار علی بخاری ایک ہی دو منزلہ مکان میں رہتے تھے۔ نچلی منزل میں الطاف صاحب کا قیام تھا۔ الطاف صاحب ہالینڈ گئے تو خواجہ ناظم الدین کی دیکھا دیکھی وہاں سے بہت سے مرغ اور مرغیاں لے آئے۔ بخاری شاکی تھے کہ مرغ اذانیں دے دے کے محلے والوں کا ناک میں دم کئے رکھتے ہیں۔ میں نے کہا ”بخاری صاحب اچھا ہے، آپ نماز تو وقت پر پڑھ لیتے ہو ں گے؟“ کہنے لگے کہ دشواری یہ ہے کہ یہ مرغ شاید آسٹریلیا سے آئے ہیں کہ جسے وہ صبح صادق سمجھتے ہیں وہ ہمارے ہاں نصف شب ہوتی ہے۔ ایک براڈ کاسٹر ہی وقت کے امتیاز سے یہ نکتہ پیدا کر سکتا ہے۔

حکومت اور ڈان یوں ایک دوسرے سے باہم مربوط ہو چکے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ ڈان میں جب کسی سیاست دان یا افسر کے خلاف کچھ چھپتا تو وہ اسے نوشتہ دیوار سمجھتا۔ الطاف صاحب نے خود ایک دن بتایا کہ آج پیر الٰہی بخش کوجو اپنے بنگلے کے برآمدے میں بیٹھے ہوئے تھے دور ہی سے پکار آیا ہوں کہ وزارت کی جس کرسی پر آپ آج براجمان ہیں، کل اسی پر کھوڑو بیٹھے ہوئے تھے۔ آج تم بھی نہیں ہو گے“۔ وہ دن واقعی پیر صاحب کی وزارت کا آخری دن ثابت ہوا۔

خوئے سلطانی کا خاصہ ہے کہ جو بھی دربار میں آتا ہے اس سے تخت و تاج کے استحکام کا کام لیا جاتا ہے۔ علماء آئے تو ان سے فتوے طلب کئے۔ شعرا آئے تو ان سے قصائد پڑھوائے۔ خطیب آئے تو ان سے مدح کرائی۔ صحافی آئے تو ان سے رائے عامہ کو ہموار کروانے کا کام لیا گیا۔ الطاف نے یہ خدمت انجام تو دی لیکن روح کا سکون کھو بیٹھے۔ ان کے ایک قریبی دوست مرزا علی اظہر برلاس نے انہیں آگاہ کرنے کی کوشش کی کہ آپ نہ محمد علی (جوہر) سے بڑے اہل قلم ہیں اور نہ اتنے بڑے خطیب اور دلاور۔ جب عامتہ الناس کی بے رخی نے انہیں عزلت نشینی پر مجبور کر دیا ۔ تو آپ کون ہیں“۔

الطاف کو قرب سلطانی سے جو گزند پہنچا اس کا احساس انہیں بڑا شدید تھا۔ ظاہر میں وہ بڑے دبدبے کے اہل قلم دکھائی دیتے تھے اور بعض لوگوں کے لیے ان کی تحریر سوہان روح تھی لیکن فی الواقعہ وہ کسی اور کا دبدبہ دجلال منعکس کر رہے ہوتے تھے اس لیے اپنی روح میں خلا محسوس کرتے تھے۔

altaf Hussain

چنانچہ ڈان غیر مقبول ہوتا گیا۔ طلبا کے جلوسوں میں شام کے اردو اخباروں اور بعض مساجد میں الطاف کے خلاف بہت کچھ لکھا اور کہا جانے لگا۔ سن سن کر کبیدہ خاطر رہنے لگے اور وہی پٹھان پہرہ دار جو دلی کے ہنگاموں میں ان کے ساتھ موٹر میں بیٹھ کر سبحان پاک آیا جایا کرتا تھا۔ اب پھر ساتھ بیٹھنے لگا۔ ہم خود جو انہیں اپنا مربی سمجھتے تھے انہیں اس حالت میں دیکھ کر بڑا دکھ محسوس کرتے۔ ایک روز کمرے میں اکیلے بیٹھے تھے، میں جا نکلا۔ میں نے کہا ”الطاف صاحب آپ کو معلوم ہے کہ دلی میں ایک مرتبہ آپ بیمار پڑے تو مساجد میں آپ کی صحت کے لیے دعائیں ہوئی تھیں اور جب جن سنگھ نے ڈان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا اعلان کیا تھا تو کوچہ فولاد خان اور تراہے بیرم خان کے جوشیلے مسلمانوں نے ہمیں پیغام بھجوایا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ جامع مسجد سے فیض بازار تک کی پوری مسلمان آبادی پہلے تہ تیغ ہو جائے گی تو پھر آپ کی باری آئے گی“۔ آج حال یہ ہے کہ وہی مسلمان ڈان جلانے کی فکر میں ہیں اور انہی مساجد سے الطاف مردہ باد کی آواز اٹھ رہی ہے۔ دو تین منٹ کی خاموشی کے بعد آبدیدہ ہو کر کہنے لگے۔ ”فی الحقیقت میرا کام 14 اگست 1947 کو ختم ہو گیا تھا اور مجھے بھی اسی دن ختم ہو جانا چاہیے تھا“۔

چونکہ ڈان کی ملازمت چھوڑنے کے بعد ہمارے کاروبار کے دائرے جدا ہو گئے تھے اس لیے ملنے جلنے کے مواقع کم ملتے تھے۔ اس اثنا میں انہیں دل کے دورے پڑنے لگے۔ اسی معالج نے علاج کیا جو میاں افتخار الدین کے علاج کے لیے لندن سے آیا تھا۔ جب ذرا افاقہ ہوا تو لاہور آئے۔ ان دنوں میں سول اینڈ ملٹری گزٹ میں پہنچ چکا تھا۔ ایک شام میں نے دیکھا کہ الطاف صاحب چلے آرہے ہیں۔ آکر میرے سامنے بیٹھ گئے۔ میں نے اپنی کرسی گھسیٹ کر ان کے برابر کر لی۔ پوچھنے لگے ایسا کیوں کیا ہے؟ میں نے عرض کیا۔ ”نامناسب تھا کہ آپ میرے سامنے ایک ملاقاتی کی حیثیت سے بیٹھے ہوں“۔ کہنے لگے۔”احمق نہ بنو۔ وہیں بیٹھے رہو۔“

میں نے طبیعت کا حال پوچھا تو کہا۔ ”موت سے بے پروا ہو گیا ہوں۔ گھر میں آجائے یا جہاز میں، یا یہیں تمہارے سامنے بیٹھے بیٹھے۔ اب میں ذہنی طور پر پابہ رکاب ہوں۔ پندرہ بیس منٹ کے بعد چلے گئے۔ لاہور میں شاید پانچ چھ روز قیام رہا۔ تقریباً ہر شام کو ٹہلتے ٹہلتے میری جانب آنکلتے۔ ایک روز میں بھی فلیٹی ہوٹل ملنے کے لیے گیا۔ اپنے لاہور کے نمائندہ خورشید الحسن سے کہنے لگے۔ پی آئی اے سے پوچھو کوئی سیٹ ہے؟ میں نے کہا لاہور ان دنوں بڑا حسین ہے چند روز اور رک جائیے۔ کہنے لگے۔ ”نہیں میں جاتا ہوں“۔ میں نے کہا اگر رات 9 بجے لوگوں کو ڈانٹے ہوئے زیادہ دن گزر گئے ہیں تو میں اپنا ٹیلی فون نمبر دیے دیتا ہوں۔ 9 بجے کال کا منتظر رہوں گا“۔ بے اختیار ہنسے۔ اتنے میں خورشید یہ خبر لے آئے کہ فلائٹ پر جگہ ہے۔ فوراً تیاری شروع کر دی۔

کئی برسوں کے بعد جب ان کا آفتاب گہنا چکا تھا اور ان میں اور سلہری میں اس حد تک ٹھن چکی تھی کہ بات چیت تک بند تھی۔ سلہری انہیں وطن سے دور جنیوا کے ایک ہوٹل میں ملے۔ بقول سلہری کے وہ اجنبی بن کر دور بیٹھے رہے پھر اٹھ کر انہی کی میز پر آکر بیٹھ گئے اور اپنے پرانے رفیق اور نئے رقیب سے کہنے لگے۔ ”سلہری ! میری غلطیوں کو نہ دہرانا“۔

جب وزیر ہو گئے تو سرکار دربار کا حصہ بن گئے۔ نامعلوم انہیں اس مرتبے پر فائز کرنے والوں نے ان کی قدردانی کی یا شیوا جی کا سا معانقہ کیا۔ بہرکیف ان کی آواز ہمیشہ کے لیے دب گئی۔ اسلوب پہچاننے والوں نے البتہ ایک آدھ بازگشت اس کے بعد بھی ڈان کے کالموں میں سنی۔ ایک روز پنڈی کے ہوائی اڈے پر اتفاقیہ ملاقات ہو گئی۔ میں نے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ کہا کل دفتر آجاﺅ۔ دفتر گیا۔ کام چھوڑ کے کافی پر ساتھ بٹھا لیا اور ہنس کے کہا۔ ابھی ابھی آٹھ صفحوں کا نوٹ لکھوا کے بیٹھا ہوں۔ میں نے کہا۔’الطاف صاحب ایک کالم کا ایڈیٹوریل جو گونج پیدا کرتا تھا وہ بعض اوقات دنیا کے دور دراز گوشوں میں بھی سنی جاتی تھی۔ یہ آٹھ صفحے کا نوٹ نامعلوم کس فائل کی زینت بنا ہے۔ کچھ عرصہ دربدر گھومے گا اور بالآخر جوگی کی صدا بن کے رہ جائے گا۔ کہنے لگے ۔ یہ احساس تو مجھے بھی ہے۔ ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں پھر کہا۔ ” یہ جنگ تو خیر اچھی نبھ گئی لیکن ہندوستان جس بے صبری سے عسکری قوت بننے کے لیے ہاتھ پاﺅں مار رہا ہے اس سے شدید خطرہ ہے“۔

دل کے مرض نے پیچھا نہ چھوڑا اور پیشتر اس سے کہ کوئی اور ملاقات ہوتی وہ بیمار پڑے۔ اب کے حملہ سخت تھا۔ لندن گئے بیمار ہی لوٹے اور پھر کچھ دنوں بعد سفر آخرت پر نکل گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments