سندھ دھرتی کے عوام اور فقرائی ستھ کی خدمات پر ایک نظر


”فقرائی ستھ“ سندھ میں قیامت صغریٰ کے مثل تباہ کن سیلاب شدید بارشوں اور کورونا وائرس جیسی قدرتی آفتوں کے دورانیے سمیت معاشی بحران غربت بھوک بدحالی اور بے روزگاری جیسے سنگین مسائل میں اپنی مدد آپ اور مخیر حضرات کے تعاون کے تحت بلاتفریق رنگ و نسل انسانیت کی خدمت میں شب و روز مصروف روشن خیال اور جمہوریت پسند فکر و نظر رکھنے والے افراد کے ایک سلسلے کا نام ہے۔ معروف لکھاری اور محقق ذوالفقار قادری معروف سماجی شخصیت ذوالفقار ہالیپوٹو اور انو سولنگی فقرائی ستھ کی سربراہی کرتے ہیں علاوہ ازیں خدمت انسانیت کا جذبہ رکھنے والے سینکڑوں افراد فقرائی ستھ میں رضا کارانہ طور پر کام کرتے ہیں۔

فقرائی ستھ نے مسائلستان بنائی گئی سندھ دھرتی کے باسیوں کو کسی بھی موقعے پر تنہا نہیں چھوڑا۔ قحط الرجال کے اس پر فتن زمانے میں انسانی خدمت کے جذبے کے ساتھ سرشار فقرائی ستھ کی جدوجہد یقیناً قابل قدر ہے۔ حیدرآباد سجاول ماتلی بدین ٹنڈو الہیار ٹنڈو آدم اور تھر کے کچھ علاقے خدمت کے لیے فقرائی ستھ کی توجہ کا خاص مرکز رہے ہیں۔

صوبہ سندھ کو مسائلستان لکھنے کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ سندھ کے عوام مسلسل تکلیفوں مشقتوں اور اذیتوں کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں اس امید کے ساتھ کہ شاید یہ آزمائش آخری ہو۔ اس مصیبت کے بعد شاید خوشحالی آئے لیکن یہ امیدیں اور خواب دم توڑ جاتے ہیں جب پہلے سے بڑی مصیبتیں سر اٹھا لیتی ہیں۔ کوئی اور بڑا بحران آن پہنچتا ہے۔ ازل سے تکالیف اور مشقتوں کے منہ میں زندگی بسر کرنے والے لوگوں کی دھرتی کو بھلا مسائلستان نہ کہیں تو کیا کہیں کہ کبھی بھی کرپشن کے سمندر میں غوطہ زن حکمرانوں اور اشرافیہ نے سندھ کے عوام کو سکھ کا سانس نہیں لینے دیا۔

تو ایسے میں جب کوئی نیک افراد یا فقرائی ستھ جیسے گروپ مصیبت زدہ لوگوں کے معصوم ارمانوں کو اور ان کے پست ہوتے ہوئے حوصلوں کو قتل ہونے سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں انہیں جینے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ امید دلاتے ہیں ایک ایسی صبح کی جو ان کے سب زخموں کا علاج کرے گی۔ مصیبتوں کے مارے افراد کے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں درد گھٹاتے ہیں ایسے لوگ بہت محبت کے مستحق ہوتے ہیں۔

گزشتہ سیلاب اور مون سون کی شدید بارشوں نے سندھ بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں بھیانک تباہیوں کے ایسے مناظر چھوڑے ہیں جن کا ازالہ کرنا عوام کے لیے مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ دال مچھلی کے قابل لوگ لمحوں میں راشن اور کھانا لینے کے لیے لائن میں لگنے والے لوگ بن گئے۔ اپنی اوطاقوں (بیٹھکوں ) پر مہمان نوازی کرنے والے خود دار افراد سڑکوں پر دربدر خیموں میں دھکے کھاتے ہوئے حکومتی امداد کے منتظر نظر آئے۔ لاکھوں لوگوں نے اپنی زندگی بھر کی کمائی کو بے بسی کی نظروں سے ڈوبتا ہوا دیکھا اور مال مویشی گھر بار املاک سب کچھ پانی بہا کر لے گیا۔

حکومت وقت تاحال متاثرین کی بحالی کے محض اعلانات کر کے بہت بڑا احسان کر رہی ہے لیکن جے ڈی سی الخدمت فاؤنڈیشن اور ”فقرائی ستھ“ جیسی سماجی تنظیموں اور فلاحی اداروں نے بر وقت اپنی بساط کے مطابق لوگوں کا درد گھٹانے کے لیے محنت کی اور سڑکوں پر رسوائی کا شکار ہونے والے افراد کو ٹینٹ کھانے پینے کی اشیاء، صحت کی سہولیات وغیرہ فراہم کر کے متاثرین کے بوجھ کو تھوڑا سا ہلکا ضرور کیا لیکن ظاہر ہے کہ حکومت کے علاوہ تمام متاثرین کی تمام ضروریات کو پورا کرنا کسی بھی فلاحی ادارے کی دسترس میں نہیں تھا۔ اس ضمن میں فقرائی ستھ نے جو خدمات سر انجام دی ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔

اس سے پہلے جب کورونا وائرس کے دوران مکمل طور پر لاک ڈاؤن ہوا تو دنیا بھر میں ایک بہت بڑے معاشی اور اقتصادی بحران نے جنم لیا۔ دنیا نے اپنے اپنے طریقوں سے ایک طرف وبا کو قابو میں لایا تو دوسری جانب گھروں تک محدود عوام کی کھاد خوراک کا بندوبست بھی کیا لیکن لاک ڈاؤن کی صورتحال کے دوران سندھ کے غریب اور عام آدمیوں کے لیے سانس لینا بھی محال ہو گیا کیوں کہ غربت اور پسماندگی تو پہلے ہی موجود تھی اوپر سے وبا نے دستک دی تو لاکھوں کروڑوں افراد یک دم بے روزگار اور گھروں تک محدود ہو گئے۔

اس بھیانک صورتحال میں ہمارے حکمران عوام کی بنیادی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے بجائے ٹی وی پر بھاشن دینے اور پریشانی کے عالم میں گھروں سے باہر نکلنے والے نوجوانوں کو پولیس کے ذریعے سڑکوں پر مرغا بنانے اور مقدمات درج کرانے میں مصروف تھے۔ ایسے وقت میں اگر مخیر حضرات اور فلاحی ادارے آگے بڑھ کر اپنے فرائض انجام نہ دیتے اور لوگوں کو کھانے پینے اور علاج معالجہ کی اشیاء ضروریات مہیا نہ کرتے تو شاید حکومتی نا اہلی ایک بہت بڑے انسانی المیے کو جنم دے سکتی تھی۔

اگر چہ لوگوں کے مسائل سو فیصد حل کرنا سماجی تنظیموں کے بس کی بات نہیں تھی لیکن ایسے مشکل وقت میں فقرائی ستھ سمیت دیگر فلاحی کاموں میں مصروف اداروں اور افراد کا کردار تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند خوشگوار تھا۔ فقرائی ستھ نے کورونا وبا کے دوران بھی ہزاروں افراد کو راشن، پکا ہوا کھانا، دوائیاں، اور نقد رقوم فراہم کر کے خلق خدا کی مشکلات کو کم کرنے کی کوشش کی بلاشبہ ان خدمتوں کے جواب میں فقرائی ستھ کو سندھ میں بے پناہ محبت ملی ہے۔

ہم نے شروع میں عرض کیا ہے کہ فقرائی ستھ کی سربراہی جمہوریت پسند افراد کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فقرائی ستھ نے ہمیشہ مظلوم سیاسی کارکنوں کا بھی ہر طرح سے ساتھ دیا ہے۔ جب زوری زمین ہتھیانے کے معاملات کے خلاف ڈیڑھ سال قبل سندھ کی قومپرست جماعتوں نے بحریہ ٹاؤن کے گیٹ پر احتجاجی دھرنا دیا تھا تب پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت نے مظاہرین کے خلاف تیس سے زائد مقدمات درج کیے تھے۔ مقدمات کے تحت کراچی کی مختلف فیکٹریوں میں کام کرنے والے ایسے سینکڑوں مزدوروں کو گرفتار کیا گیا تھا جو اپنے گھر والوں کے واحد کفیل تھے۔ فقرائی ستھ اس موقع پر بھی پیچھے نہیں ہٹا اور احتجاج کا جمہوری حق استعمال کرنے والے ایک سو سے زائد غریب سیاسی کارکنوں کو وکلاء کے اخراجات جیل میں کھانے پینے کی اشیاء اور کپڑے وغیرہ فراہم کیے۔ نہ صرف ان کی آزادی تک مقدمات کی پیروی کی بلکہ ان کے گھر والوں کی ضروریات زندگی کا بھی ہر ممکن خیال رکھا۔

سندھ میں خدمت کرنے کے حوالے سے ایسی بہت ساری تنظیمیں فعال ہیں جن کا بہت بڑا نظام ہے۔ فقرائی ستھ کی خاصیت یہ ہے کہ ہر مذہب اور مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد اس کا نہ صرف حصہ ہیں بلکہ فقرائی ستھ کی جانب سے تمام مذاہب و مسالک کے مذہبی تہواروں کے مواقع کو یکساں طور پر منایا جاتا ہے۔ عید الفطر و عیدالاضحی کے موقع پر مستحقین کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنا ہو یا رمضان المبارک میں سحر و افطار کا اہتمام۔ ربیع الاول میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا موقع ہو یا محرم الحرام میں حضرات اہلبیت عظام کی دردمندانہ شہادتوں کی داستان۔

رنگوں کا تہوار ہولی ہو یا کرسمس۔ رکشا بندھن ہو یا اقلیتوں کا کوئی اور خوشی کا دن۔ فقرائی ستھ آپ کو ہمیشہ صف اول میں ملے گا نفرتوں کی دکان چلاتے ہوئے نہیں محبتوں کا جام پلاتے ہوئے۔ یہی وجہ ہے فقرائی ستھ کی خدمات کو اس مضمون کی صورت میں آپ کے سامنے لانے کی۔ کہ جہنم سی بنائی گئی فضا میں ذوالفقار قادری ذوالفقار ہالیپوٹو اور انو سولنگی جیسے محبت اور بھائی چارگی کے سفیر بھی ہیں جن کے لیے مذہبی مسلکی اور لسانی تفریق کوئی معنی نہیں رکھتی تمام انسانوں کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں۔ فقرائی ستھ کو مزید مضبوط اور مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے درد دل رکھنے والے تمام افراد کو اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments