ڈپٹی کمشنر کی ڈائری


آج ڈائری لکھتے ہوئے سول سروس اکیڈمی میں ایک مہمان مقرر، جو ایک ریٹائرڈ آئی سی ایس تھا، کی شدت سے یاد آ رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انگریز دور میں ڈپٹی کمشنر کے اتنے وسیع اختیارات تھے جنھیں صرف پڑھنے کے لیے پورا دن درکار ہوتا تھا۔ میرا خیال ہے اگرچہ ریٹائرڈ افسر نے فرط جذبات میں کچھ لمبی چھوڑی ہوگی مگر میں سمجھتا ہوں کہ ڈپٹی کمشنر کے اختیارات پڑھنے کے لیے پورا دن نہیں تو چند گھنٹے ضرور لگتے ہوں گے۔ اچھا ہوا مغلیہ سلطنت اپنے انجام کو پہنچ چکی وگرنہ مغل شہزادے بادشاہ بننے کی بجائے ڈپٹی کمشنر بننا پسند کرتے۔

پولیس کپتان اور ڈسٹرکٹ جج خواہش تو ضرور کرتے ہوں گے مگر ڈپٹی کمشنر کے ہم پلہ کہاں ہو سکتے تھے۔ حالات کی ستم ظریفی آج ڈسٹرکٹ جج ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر کو دفتر میٹنگ کے لیے طلب کرتے ہیں اور پولیس کپتان اپنی کرسی کھسکا کر ڈپٹی کمشنر کے برابر بیٹھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر تو دور کی بات ایک اسسٹنٹ کمشنر کو سنبھالنا مشکل ہوتا تھا۔ وہ اسسٹنٹ کمشنر نہیں، مجسٹریٹ درجہ اول دفعہ تیس بھی ہوتا تھا۔ مگر مجسٹریٹ درجہ اول تو ایک طرف اب اسسٹنٹ کمشنر صبح صبح سبزی منڈی میں درجہ اول اور درجہ دوم کے پیاز اور ٹماٹر کے ریٹ چیک کرنے میں لگا ہوتا ہے۔ پرویز مشرف نے تو حد ہی کر دی تھی۔ اچھے بھلے ڈی۔ سی کو ڈی سی او بنا کر رکھ دیا تھا۔ کہا گیا ڈی سی او کے اختیارات بڑھا دیے گئے ہیں۔ اچار ڈالنا اختیارات کا جب عہدہ کا نام ہی ڈھنگ کا نہ ہو۔ ایک دہائی کی جدوجہد کے بعد اس ’۔ او‘ کی منحوس دم سے جان چھوٹی اور ڈی سی او دوبارہ ڈی سی بننے میں کامیاب ہوا۔

آج کی ڈائری لکھنے بیٹھا تھا اور خیالات کا سلسلہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ آج دن کا آغاز قدرے جلدی کیا اور ٹھیک گیارہ بجے دفتر پہنچ گیا۔ کاموں کی ایک لمبی لسٹ منتظر تھی۔ بیٹے کا سکول میں داخلے کا مسئلہ، کلب کی ممبر شپ کے لیے فارم بھرنا اور پتہ نہیں کیا کیا کام۔ مگر کافی کا کپ ابھی ختم نہیں کیا تھا کہ دو تین ممبران اسمبلی دفتر پہنچ گئے۔ احساس ذمہ داری بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ اپنے کام بھول کر ممبران اسمبلی کے کاموں میں لگ گیا۔

پھر گپ شپ کا دور شروع ہوا۔ در آئے مہمان کا احترام گھٹی سے ملا ہے اس لیے مہمانوں کے لیے دوپہر کے کھانے کا پروگرام ریٹائرنگ روم میں کیا۔ معزز ممبران اسمبلی ابھی رخصت ہی ہوئے تھے کہ بڑے صاحب کی اچانک وڈیو لنک میٹنگ کا پیغام آ گیا۔ فوراً دفتر سے میٹنگ روم میں آ گیا۔ وڈیو لنک میٹنگ کے دوران ہی کچھ ضروری فائلیں نمٹائیں۔ اب اتنی مصروفیت میں فائلوں کو کون پڑھ سکتا ہے، اس لیے صرف دستخط کر کے جان چھڑائی۔ ایک تو ڈپٹی کمشنر کی اتنی مصروف روٹین اوپر سے رہی سہی کسر وڈیو لنک کے نظام نے پوری کر دی۔

ڈپٹی کمشنر بھی آخر انسان ہی ہوتا ہے۔ پہلے شام کو کبھی کبھار کافی یا ڈنر کے لیے لاہور کا چکر لگ جاتا تھا مگر اب موت کے فرشتے کی طرح کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ دن رات کے کس پہر وڈیو لنک کا نوٹس موصول ہو جائے۔ پھر اتنی زیادہ میٹنگز کے احکامات پر کون عمل درآمد کروا سکتا ہے، لہذا ہم بھی ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں۔ وہ تو شکر ہے وڈیو لنک میٹنگز کے دوران دو تین بیچ میٹس کے ساتھ وٹس ایپ پر شغل لگا رہتا ہے وگرنہ اتنی بور میٹنگز میں تو بندے کو نیند آ جائے۔

میٹنگ سے فارغ ہو کر ناظر کو رات کے مشاعرہ کے پروگرام کے اچھے انتظامات کے لیے تاکید کی۔ ایک زمانہ تھا جب ڈپٹی کمشنر شعراء اور ادیبوں کی سر پرستی کرتے تھے اور مشاعروں کا اہتمام کرتے تھے۔ ابتداء میں ناظر نے مخالفت کی ایسے ہی آٹھ دس لاکھ روپے کا غیر ضروری خرچہ ہے۔ اسے کیا معلوم مغل بادشاہ بھی تو اپنے درباروں میں ایسے پروگرام منعقد کرتے تھے۔ مشاعرہ سے یاد آیا پچھلے دنوں ضلع کے ایس پی نے بھی ایک کل پاکستان مشاعرہ کروایا۔

اب۔ ”پلسیوں“ کے کام دیکھیں، ضمنیاں لکھنے والے لوگ بھی مشاعرے کروا رہے ہیں۔ سچ کہتے ہیں کہ دریاؤں پر برا وقت آیا تھا تو ہر کبڑا تیراک بن گیا تھا۔ ڈپٹی کمشنر کا ادارہ کمزور کیا ہوا کہ یہ لوگ بھی اب پر نکالنے لگ گئے ہیں۔ دفتر کی مصروفیات سے بڑی مشکل سے جان چھڑا کر تین بجے گھر روانہ ہوا۔ دفتر کے کاریڈورز میں بیٹھے ہوئے درخواست گزار ہاتھوں میں درخواست تھامے لپک لپک کر منہ تک آرہے تھے۔ تمیز نام کی چیز چھو کر بھی نہیں گزری۔

اپنی نہیں تو کم از کم ڈپٹی کمشنر کی عزت کا خیال کر لیں۔ ایک زمانہ جب بڑے بڑے نواب گھنٹوں صاحب بہادر کا انتظار کرتے تھے۔ حتیٰ کہ اسے دور سے دیکھنا سعادت سمجھتے تھے۔ دفتر میں کرسی خال خال ہی کسی کو پیش کی جاتی تھی۔ آج منشے، بوٹے قسم کے لوگ لپک لپک کر پڑ رہے ہیں اور دفتر کے اندر بلائیں تو کرسی پری ایسے بیٹھتے ہیں جیسے ابھی ’پھٹی‘ کا ٹرک بیچ کر آرہے ہوں۔ درخواست باز قسم کے لوگ عرضی نویس سے درخواست لکھوا کر ڈی سی کے دفتر میں حاضری لگوانے پہنچ جاتے ہیں۔

گھر جا کر قیلولہ کیا۔ شام کو کھلی کچہری کے لیے ایک تحصیل ہیڈکوارٹر گیا۔ ادھر بھی درخواست باز لوگوں کا جم غفیر۔ کوئی چیخ رہا کہ میری اتنی کنالیں اور کوئی رو رہا میرے اتنے مرلے۔ نہ بات کرنے کا ڈھنگ اور نہ عرض کرنے کا سلیقہ۔ بات ایسے کر رہے تھے جیسے ڈپٹی کمشنر بغل میں جریب لے کر پھر رہا ہو۔ کھلی کچہری جب تھوڑا زیادہ کھلی ہونے لگی تو میں نے بھی اسسٹنٹ کمشنر اور متعلقہ تحصیل دار کو ضروری ہدایات دے کر وہاں سے رخصت ہونے میں ہی عافیت سمجھی۔

آج بیٹے کی سالگرہ کے سلسلہ میں رات کو گھر میں ایک دعوت کا اہتمام بھی کیا ہوا تھا۔ ضلع ناظر نے مشورہ دیا کہ دعوت کا اہتمام شہر کے بڑے ہوٹل میں کرنا چاہیے۔ مگر میرا وہاں پچھلی دفعہ کے ڈنر کا تجربہ اچھا نہیں رہا تھا۔ نہ استقبال کے لیے وہاں کوئی موجود اور نہ ہی پروٹوکول کے لیے کوئی انتطام۔ اور پھر ٹیبل ایسی جگہ لگائی جہاں چاروں طرف عام گاہکوں کا رش اور شور ہی شور۔ ڈپٹی کمشنر کو ذلیل کر کے رکھ دیا تھا۔

خیر میں نے بھی ڈینگی سپرے کے بہانے ہوٹل سیل کر کے مالک سے ناکوں لکیریں نکلوائیں تھیں۔ دعوت کا پروگرام بہت شاندار رہا۔ دو ڈپٹی کمشنرز اور چند بیچ میٹس کو بمع فیملی مدعو کیا ہوا تھا۔ ضلع ناظر نے انتظامات میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ گھر کے لان کو برقی قمقموں سے سجایا ہوا تھا۔ کھانے میں دس سے زیادہ ڈشز دستیاب تھیں۔ بیگم صاحبہ بھی بہت خوش تھیں۔ مگر مہمانوں کے رخصت ہونے کے بعد شکوہ کرنا نہ بھولیں کہ باقی ڈپٹی کمشنرز کی بیگمات نے اتنی مہنگی جیولری اور لاکھوں روپے مالیت کے پرس لیے ہوئے تھے اور میرے پاس پرانی جیولری اور چند ہزار کا پرس۔ پھر اگلے ہفتے شاپنگ کا وعدہ کر کے بیگم کو راضی کیا۔ اب رات ہو چکی ہے۔ میں دن بھر کی تھکن سے چور مگر لوگ اب بھی سمجھتے ہیں کہ ڈپٹی کمشنر کوئی کام نہیں کرتا۔ عوام الناس کو خدا ہی راضی کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments