والدین کے ساتھ ظالمانہ سلوکت اور احساس کی موت


تین دسمبر کو معروف اداکار افضال احمد کے انتقال کی خبر آئی۔ وہ گزشتہ بیس سالوں سے معذوروں کے ایک مرکز میں مقیم تھے۔ ڈان اخبار کے مطابق سنہ 2001 میں ان کے دماغ کی رگ پھٹ گئی تھی۔ ہمیں سال سنہ 2000 میں پی ٹی وی پر نشر ہونے والا ڈرامہ ”کانچ کے پر “ میں ان کی اداکاری یاد ہے۔ کچھ سال پہلے ایک چینل پر ان کے بارے میں تفصیلی خبر دیکھی تھی کہ فالج کے حملے کے بعد وہ بولنے سے تقریباً قاصر تھے اور معذوروں کے ایک مرکز میں وہیل چئیر تک محدود تھے۔

ان کی وفات کی خبر کے ساتھ درج تھا کہ ان کی بیٹیاں امریکا میں تھیں جن کی وطن آمد کے انتظار میں تدفین اگلے روز طے کی گئی۔ ان کی وفات پر دلی تعزیت کے بعد کہنا یہ ہے کہ ان کی اولاد انہیں اپنے ساتھ امریکا کیوں نہیں لے گئی کہ جہاں ان کے علاج اور دیکھ بھال کے زیادہ بہتر مواقع ہوتے۔ کہتے ہیں کہ بیٹیاں میکے میں چڑیوں کی طرح ہوتی ہیں کہ جوان ہوتے ہی انہیں بیاہ کر دوسرے کا گھر آباد کرنا ہوتا ہے۔ تسلیم کہ ایسے ہی ہوتا ہے لیکن ان کی بیٹیاں پیدا ہوتے ہی دوسرے کے گھر تو نہیں چلی گئی تھیں۔

آخر کو والد نے ان کی دیکھ بھال کی تھی نا! انہیں کھانا پینا رہائش، تعلیم دینے کے لیے والد ہی جد و جہد کرتے تھے۔ اب جب وہ بڑی ہوئیں، شادی کی اور والد پر یہ برا وقت آن پڑا تو ان کا فرض تھا کہ والد کو امریکا لے جاتیں جہاں وہ خود ان کی دیکھ بھال بہتر طریقے سے کر لیتیں۔ یا اس کام کے لیے ملازم رکھ لیتیں۔ یعنی جس طرح اولاد پیدا ہوتی ہے تو والدین یا تو ان کی پرورش خود کرتے ہیں یا کسی کو اس کام کے لیے ملازم رکھتے ہیں۔

تو یہی کام بچے اپنے والدین کے لیے کیوں نہیں کر سکتے؟ اور کچھ نہیں تو کم از کم انہیں یہ تو تسلی رہتی کہ وہ اپنوں کے درمیان ہیں۔ انہیں یہ احساس تو نہ ہوتا کہ بیٹیوں نے بھی بیکار سمجھ کر معذوروں کے ادارے میں پھینک دیا ہے۔ ان کی بیٹیوں کے بچے بھی تو اب جوان ہوں گے یا ہونے والے ہوں گے۔ یعنی محض چند ہی سالوں بعد وہ بھی اپنے بچوں کے لیے بیکار سی چیز بن کر رہ جائیں گے۔ تنہاء ہو کے رہ جائیں گے۔

آپ کہیں گے کہ ہمیں ان کے ذاتی حالات کا علم نہیں اور ہم ٹی وی پر دیکھی گئی خبر پر اتنا جذباتی ہو رہے ہیں۔ لیکن یہ صرف افضال احمد کے ساتھ ہونے والے سلوک کی بات نہیں ہے۔ آپ نے بھی بہت سے دوسرے لوگوں کی ایسی حالت زار کے بارے میں سنا یا دیکھا ہو گا لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ کوئی اس سے سبق نہیں سیکھتا۔

اگر کوئی اولاد کہتی ہے کہ ہم کیوں اپنے والدین کی فکر کریں، انہوں نے ہمیں ملازموں پر چھوڑ دیا تھا۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ ملازم ان بچوں کی دیکھ بھال مفت میں تو نہیں کرتے تھے، وہ دیکھ بھال کے کام کا معاوضہ وصول کرتے تھے۔ تو یہ رقم کون ان کو ادا کرتا تھا؟ ظاہر ہے کہ والدین ہی ادا کرتے ہوں گے۔ اور والدین کو یہ رقم درختوں پر لگی ہوئی مفت میں تو نہیں مل جاتی، وہ اس کے لیے دن رات جان توڑ محنت کرتے ہوں گے تو تبھی اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے ملازموں کو معاوضہ ادا کرنے کے قابل ہوئے ہوں گے۔

اب اگر کوئی یہ کہے کہ وہ بھلا کیا جان توڑ محنت کرتے تھے۔ بس دفتر یا کاروبار کی جگہ جاتے، دوچار فائلوں پر دستخط کرتے یا دو چار گاہکوں سے کسی چیز کو بیچنے کا سودا کرتے اور گھر آ جاتے۔ لیکن پھر وہی بات کہ اگر کوئی بڑا افسر بنا ہے یا بڑا کاروبار رکھتا ہے تو یہ کام یوں ہی نہیں ہو جاتا۔ اس کے لیے کڑی جان توڑ محنت کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگر سرکاری نوکری ہے تو افسران کے ناز نخرے سہنا پڑتے ہیں، نچلے ملازمین کو ضروری احکامات دینا پڑتے ہیں۔

یا اگر ذاتی کاروبار ہے تو اس کے لیے بھی بہت سے لوگوں سے بناء کر رکھنا پڑتی ہے۔ سرکاری محکموں کے افسران کو رشوت دینا پڑتی ہے، کاروبار کے معاملات دیکھنا پڑتے ہیں، جو چیز بیچ رہے ہوتے ہیں، اس کی تشہیر کرنا پڑتی ہے۔ اگر سرکاری نوکری ملنا اتنا ہی آسان ہوتا تو آج اتنے زیادہ نوجوان سرکاری نوکری کی تلاش میں جوتیاں نہ چٹخا رہے ہوتے یا اگر کاروبار کرنا اتنا ہی آسان عمل ہوتا تو آج ہر کوئی اپنے ذاتی کاروبار کا مالک ہوتا یا یا کم از کم وہ نوجوان جو سرکاری یا نجی نوکری کی تلاش میں در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہوتے ہیں، وہ ذاتی کاروبار کے مالک ہوتے۔

یعنی مختصراً کہ والدین کے ساتھ ایسا سلوک بہت ہی ظالمانہ عمل ہے۔ اسے والدین کے احساسات کی موت یا قتل کا نام دیا جا سکتا ہے۔ کیا انہیں یہ خیال نہیں آتا کہ والدین اگر زبان سے شکایت نہیں کرتے لیکن دل میں تو اداس ہو جاتے ہیں۔ اور دل کی زبان اثر رکھتی ہے بقول اقبال

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں مگر طاقت پرواز رکھتی ہے

لوگ اپنے پالتو جانوروں کے نخرے اٹھانے کے لیے تو ملازم رکھ لیتے ہیں، لیکن والدین کی دیکھ بھال کے لیے نہ تو خود کچھ کرتے ہیں نہ دوسروں کو اس کام کے لیے رکھتے ہیں۔

کوئی یہ نہیں سوچتا کہ آخر یہ چکر کب تک یوں ہی چلتا رہے گا کہ والدین بچوں کی سب دیکھ بھال کریں لیکن بچے جوان ہونے پر ان کی کوئی خبر نہ لیں اور پھر کچھ ہی سالوں بعد ان کے ساتھ بھی ویسا ہی ملتا جلتا سلوک ان کی اولاد کرے۔ کیا اسے یوں ہی چلتے دینا چاہیے؟ لوگ اپنی اولاد کو تو ضرورت سے زیادہ وقت دیتے ہیں لیکن اپنے والدین کے لیے ایک آدھ گھنٹہ بھی نہیں نکال سکتے۔ اگر وہ ایسا کریں تو والدین کا بھی دل بہل جائے گا۔ اب دائرے کے اس چکر کو ٹوٹنا چاہیے۔

انسان آج چاند اور مریخ پر پہنچ چکا ہے لیکن صدیوں سے والدین اور اولاد کے درمیان یہ چکر یوں ہی جاری و ساری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے گا۔ والدین کی بھی بعض شکایات جائز ہیں اور بچوں کی بھی۔ والدین نئی تہذیب کو کوستے ہیں اور بچے پرانی تہذیب کو لیکن دلوں اور ذہنوں میں وسعت نظر پیدا نہیں کرتے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ والدین کو بڑھاپے کے بعد بیکار سمجھ کر پھینک دیا جائے اور ہر پچیس تیس سالوں بعد دائرے کا یہ سفر پھر سے شروع ہو جائے۔ آپ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے تو آپ کی اولاد کو بھی اس حوالے سے اچھی ترغیب اور مثال ملے گی۔

یہ دنیا اور اس کے رشتے لمحوں میں ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس لیے اپنے والدین اور دیگر قرابت داروں کے ساتھ اچھا سلوک کیجیے، پھر کیا خبر یہ ساتھ دوبارہ کبھی ممکن نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments