عدلیہ جاگ گئی؟ نہیں، ابھی نہیں!


ہمارے دین کی عمارت کی اہم ترین بنیاد ہے ’عدل‘ ۔ عدل قائم نا ہو گا تو دین اسلام ادھورا ہے۔ میں کوئی عالم دین نہیں ہوں، نا کوئی بہت بڑی لکھاری۔ میں کسی دوڑ اور کسی مقابلہ کا حصہ نہیں ہوں۔ میں ایک عام شہری کی آواز بننا چاہتی ہوں۔ ایک عام شہری جب میرا لکھا پڑھے تو بے ساختہ کہہ اٹھے، ”میرے دل کی بات کہہ دی“ ۔ میں اس کے ذہن و دل میں ابھرتے ہزاروں اندیشوں، لاکھوں وسوسوں اور کروڑوں سوالوں کو زبان دینا چاہتی ہوں۔ ان سوالوں کے جواب شاید کوئی نا دے لیکن میں سوال ضرور چھوڑتی جاؤں گی۔

عدل و انصاف آسان نہیں، مشکل ہے۔ ایک ماں بھی بعض اوقات اپنی اولاد میں عدل کرنے میں چوک جاتی ہے۔ کبھی جذباتی کیفیت میں اور کبھی مصلحتا۔ عدل کا وعدہ تو خود اللہ رب العزت نے کر رکھا ہے۔ لیکن اللہ رب العزت کے لیے یہ مشکل نہیں کیونکہ وہ کسی سفارش کو نہیں مانتا۔ وہ کسی عذر کو نہیں مانتا۔ بس میزان رکھے گا اور دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ہو جائے گا۔

مشکل تو ہم انسانوں کے لیے ہے جو ڈر جاتے ہیں، سہم جاتے ہیں۔ کبھی کسی کی طاقت سے مرعوب ہو جاتے ہیں اور کبھی کسی کی محبت میں پگھل جاتے ہیں۔ انصاف کے منصب پر بیٹھنے والے عدل قائم کرنے میں ناکام رہیں تو تباہی قوموں کا مقدر ہے۔ ارشد شریف کے کیس میں ہماری عدلیہ آنکھیں بند کیے بیٹھی رہی۔ انہیں جگانے کی لیے عوام کو ہاتھ پاؤں مارنے پڑے۔ سپریم عدلیہ کے پاس عوام کے خطوط کا سمندر آ گیا جس میں ایک ”قطرہ“ میرا بھی تھا۔

میری ادنی سی ایک کوشش۔ آخر کئی دن کی محنت کے بعد ”عدلیہ“ نے آنکھیں کھولیں۔ آنکھیں مسلتے مسلتے بڑی مشکل سے منظر کو دیکھنے کے قابل ہوئیں۔ سامنے وہیل چیئر پہ بیٹھی ایک ماں کو منتظر پایا۔ وہ عورت جو اپنا خاوند اور ایک بیٹا پہلے ہی ملک پر قربان کر چکی تھی۔ دوسرے بیٹے کا پھولوں سے لدا جنازہ دیکھ کے خوشی سے نہال ہو گئی تھی۔ لیکن جس طرح دیار غیر میں اسے شہید کیا گیا، اس کا سوال پوچھنے ”معزز عدلیہ“ میں حاضر ہوئی۔ لیکن اسے خالی ہاتھ لوٹایا گیا۔ عدل ان ”چند ناموں“ کے بوجھ تلے دب گیا۔

معزز جج صاحبان! آپ کے ذمہ تو عدل قائم کرنا تھا۔ آپ کو عہدہ کی لاج رکھنا تھی۔ سوچیے، اگر ان چند ناموں کو ہی دبا دیا جاتا تو آج انصاف کا بول بالا ہوتا۔ ماں کے دل کو قرار آتا لیکن اس عہدہ کو بے توقیر کر دیا گیا۔ حلف اٹھا کر بظاہر غلط فیصلے لیے اور کیے گئے۔ مفادات کی خاطر رات گئے عدالتیں کھولی گئیں۔ ”توہین عدالت“ کے پیمانے اپنی منشاء سے مقرر کیے گئے۔ یہ فراموش کر دیا گیا کہ توہین صرف عدالت کی نہیں ہوتی، عوام کی بھی ہو سکتی ہے۔

توہین ایک شہید کی بھی ہو سکتی ہے۔ جج صاحب! شہیدوں کی مائیں عظیم مائیں ہیں۔ وہ مستحق ہیں کہ انہیں انصاف ملے۔ ڈریے اس وقت سے، جب وہ ماں اللہ کی عدالت میں اپنا مقدمہ رکھے گی۔ اس دن کوئی سفارش نہ چلے گی۔ اس دن کوئی دلیل کام نہ آئے گی۔ اس دن انصاف ہو گا۔ اس دن ”عدل“ قائم ہو گا اور اس دن کوئی راہ فرار نا ملے گی۔ اس دن طاقتور اللہ رب العزت ہوں گے۔

اس دن کے آنے سے پہلے، اس دن تک جانے سے پہلے، آنکھیں کھولیے جج صاحب! آپ کے لوگ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ نشان عبرت بنائیے زمیں پر خدائی دعوی کرنے والوں کو! سب در بند ہیں سوائے آپ کے۔ فیصلے کا وقت ہے، کہیں دیر نا ہو جائے کیونکہ ۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments