بوسنیا کی چشم دید کہانی۔25


یہاں سے رخصت ہونے کے بعد ہم نے راونو کی جانب اپنے سفر کا ایک بار پھر آغاز کیا اور کوئی پون گھنٹہ بعد وہاں پہنچ گئے۔ یہ پرانے گھروں پر مشتمل ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ جس میں موجود واحد گرجا کے سامنے صرف دو نئی تعمیر شدہ عمارتیں تھیں۔ ان میں سے ایک عمارت تھانہ کی اور دوسری بلدیہ کی تھی۔ ہم نے وہاں پہنچتے ہی OSCE کے نمائندوں سے ملاقات کی۔ یہ دو خواتین تھیں جن کا تعلق جرمنی سے تھا۔ انہوں نے چھوٹتے ہی ہمیں بتایا کہ یہاں ایک بہت بڑا مسئلہ درپیش ہے۔

مہاجروں کے ووٹوں کے جو تھیلے مغربی ممالک سے یہاں پہنچے تھے، ان میں سے ایک تھیلہ سرائیوو کے ایک پولنگ اسٹیشن کے تھیلے سے غلطی سے تبدیل ہو گیا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ مقامی نمائندوں کا یہ خیال ہے کہ ایسا کسی غلطی کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس کا مقصد کروایٹ ووٹوں کی برتری کو ختم کرنا ہے۔ اس صورت حال میں ان کا یہ اصرار ہے کہ جب تک اصلی تھیلا یہاں نہیں پہنچتا نہ تو ووٹوں کی گنتی شروع ہوگی اور نہ ہی بیلٹ بکسوں کو یہاں سے لے جانے دیا جائے گا۔

یہ اطلاع ملتے ہی اقبال کی ساری افسردگی جاتی رہی۔ وہ بولا اس مسئلے کی موجودگی میں اب ڈیوٹی کا وقت گزارنا مشکل نہیں ہو گا۔ لہٰذا اب تم ایک طرف ہو جاؤ اور دیکھو میں کیا کرتا ہوں۔ کسی بھی بات کو جھٹ پٹ سنسنی خیز بنا دینا اقبال کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ ایسے مواقع پر اس کا ذہن ناقابل یقین تیزی کے ساتھ کام کرتا تھا۔ اس نے چند لمحوں کے لیے کچھ سوچا اور وائرلیس سیٹ کا مائیک سنبھال کر اسٹیشن کو کال کی۔ جواب میں ڈیوٹی افسر کی آواز سنائی دی۔ اس نے ڈیوٹی افسر کو بتایا کہ یہاں ایک ایسا مسئلہ درپیش ہے جو کہ میرے خیال میں اسٹیشن کے تفتیشی افسر بولک کے علم میں براہ راست لانا ضروری ہے لہٰذا بہتر ہے کہ اگر وہ اسٹیشن پر موجود ہے تو اسے مائیک پر لایا جائے۔

اب اقبال کو یہ پہلے سے علم تھا کہ بولک کی ڈیوٹی بھی اسی شفٹ میں ہے لہٰذا اس کا اسٹیشن پر پایا جانا یقینی تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد بولک مائیک پر آ گیا۔ اقبال نے اسے ساری صورت حال سے آگاہ کیا اور اس معاملے کو ڈسٹرکٹ اور ریجنل ہیڈکوارٹر کے نوٹس میں لا کر اس کا فوری حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ معاملے کو مزید سنگین بنانے کے لیے اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ آثار بتا رہے ہیں کہ اگر اس مسئلے کا حل نہ نکالا گیا تو شاید ہمیں بھی یرغمال بنا لیا جائے۔

پیغام ختم ہونے پر بولک نے کوئی تین مرتبہ میسیج کاپیڈ کہا جس سے یہ بات شک و شبہ سے بالا ہو گئی کہ اقبال کے حسب منشا بولک حواس باختہ ہو چکا ہے اور اب اسٹیشن پر تھرتھلی مچنے والی ہے۔ پیغام ختم کرنے کے بعد اقبال گاڑی کی اگلی سیٹ پر نیم دراز ہو گیا اور کہا کہ گولڈ لیف کا ایک سگریٹ پلاؤ۔ وہ کسی نہ کسی بہانے گولڈ لیف کی تاک میں رہتا تھا لیکن اس موقع پر اس کے سازشی ذہن کو رواں رکھنے کے لیے اس کی فرمائش چارو ناچار پوری کرنا ہی تھی۔

میں سگریٹ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔ میرے خیال میں یہ واقعی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے لیکن وہ اس سے محظوظ ہونے کے موڈ میں لگ رہا ہے۔ بولا تھوڑی عقل بھی کبھی کبھی استعمال کر لیا کرو۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔ ووٹوں کا جو تھیلا غلطی سے تبدیل ہو گیا ہے وہ آخر یہاں پہنچ ہی جائے گا لیکن اسٹیشن پر موجود افسران کو یہ تاثر ملنا چاہیے کہ ہم ہوشیار افسر ہیں اور اپنی ڈیوٹی ذمہ داری کے ساتھ سر انجام دیتے ہیں۔

اقبال کا خیال درست ثابت ہوا OSCE کی طرف سے یہ اطلاع پہلے ہی اپنے ہیڈ کوارٹر کو دی جا چکی تھی۔ چنانچہ کوئی دو تین گھنٹے بعد یہ خبر موصول ہوئی کہ اصل تھیلا آج ہی کسی وقت راونو پہنچ جائے گا۔

لیکن ادھر بولک نے اس مسئلے کو حکام بالا تک پہنچانے کے لیے جو وائرلیس کا مائیک سنبھالا تو پھر چینل پر اگلے آدھ پون گھنٹہ کے لیے اپنی گرفت کچھ ایسی مضبوط رکھی کہ کوشش کے باوجود کوئی اور پیغامبر دخل در معقولات کا موقع حاصل نہ کر سکا۔ ہم ایک اونچے مقام پر موجود ہونے کی وجہ سے بولک کی مختلف اسٹیشنوں کے ساتھ گفتگو آسانی سے سن سکتے تھے اور جہاں یہ محسوس کیا جاتا کہ پیغام میں سنسنی خیزی حسب منشا نہیں وہاں اقبال بولک کو لقمہ بھی دے دیتا تھا۔ اس دوران مسئلے کا حل نکل آیا تھا لیکن اقبال نے اسے جان بوجھ کر پوشیدہ رکھا اور ڈیوٹی کے اختتام سے کوئی ایک گھنٹہ قبل اس نے اسے افشا کیا۔

نصف شب کو اسٹیشن پہنچنے پر بولک نے بڑے پرتپاک انداز میں ہمارا استقبال کیا۔ اقبال نے اسے دیکھتے ہی کہا۔ بولک یہ ہمارے اور اس اسٹیشن کے لیے بڑا مبارک دن تھا کہ تم یہاں موجود تھے ورنہ جتنی دیر کوئی فرانسیسی مانیٹر میری انگریزی کا اپنی جیبی لغت کے ذریعے مفہوم سمجھ پاتا بوسنیا کا امن خطرے میں پڑ چکا ہوتا۔ بولک اس تعریف پر پہلے تو سراپا تشکر ہو کر ساکت سا ہو گیا اور پھر آگے بڑھ کر اقبال کو گلے لگایا اور پٹاخ سے اس کے ماتھے پر ایک بوسہ رسید کیا۔

انتخابات کا مرحلہ طے ہونے کے بعد سٹولک میں معمول کی ڈیوٹی کا ایک بار پھرسے آغاز ہو گیا۔ اب اسٹیشن کے سٹولک میں ہونے کی وجہ سے مقامی پولیس کے ساتھ پہلے کی نسبت رابطہ زیادہ رہنے لگا۔ دوسری طرف دوسری تنظیموں خاص طور پر UNHCR اور OSCE کے ساتھ بھی رابطہ بہتر ہو گیا۔

سٹولک کا مقامی پولیس اسٹیشن قصبے کے مرکز کے قریب ایک دو منزلہ وسیع عمارت میں قائم تھا۔ اس کے سربراہ ہمارے ہاں کے ڈی ایس پی کے عہدے کا ایک پولیس افسر تھے جن کا نام ماٹچ تھا۔ مسٹر ماٹچ خرابی صحت کی وجہ سے اسٹیشن پر کم کم ہی موجود رہتے تھے، عملی طور پر اس کا نائب مارکووچ سیاہ و سفید کا مالک تھا۔ مقامی پولیس کے ساتھ جو رابطے ہوتے تھے ان میں مسٹر مارکووچ ہی پولیس کے سربراہ کی حیثیت سے شرکت کرتے تھے۔ وہ پروٹوکول کے حوالے سے بہت کتابی واقع ہوئے تھے اور کسی بھی صورت میں پہلے سے طے نہ کی گئی میٹنگ میں شرکت کے لیے آمادہ نہ ہوتے تھے۔

مسٹر ماٹچ تو بھاری بھر کم، گول مٹول، میانہ قد اور قدرے بوڑھے شخص تھے جب کہ مارکووچ خوش شکل، دراز قد، متناسب جسم اور نوجوان تھے۔ وہ انتہائی مغرور اور سنجیدہ پولیس افسر تھے۔ ان کے لیے ان کی نسلی نسبت پیشہ ورانہ فرائض سے زیادہ اہم تھی۔ اس لیے پوری کوشش کے باوجود ہمیں کبھی بھی ان کی طرف سے وہ تعاون حاصل نہ ہو سکا جس کا تقاضا ڈیٹن امن سمجھوتہ کرتا تھا۔ IPTF کے بڑوں نے اس کی اس نسلی وفاداری کو بار بار آزمائش میں ڈالا لیکن وہ برہمن ہمیشہ کعبہ نشین ہی نکلا۔

مقامی پولیس کے اصل سربراہ مسٹر ماٹچ بظاہر ہٹے کٹے اور مکمل طور پر صحت مند شخص تھے۔ ہمارے اسٹیشن کے عقب میں واقع عمارت کے ایک فلیٹ میں رہائش پذیر ہونے کی وجہ سے ان سے اکثر آمنا سامنا ہو جاتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ کچھ خصوصی وجوہ کی بنا پر خرابیٔ صحت کا بہانہ بناتے ہوئے مسٹر مارکووچ کے لیے میدان خالی کیے ہوئے ہیں جو اپنے آپ کو سٹولک اور اس کے گرد و نواح کے کروایٹوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے درست انتخاب ثابت کر رہے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments