والدین بننے کا سفر – پیرنٹنگ


خدائے رب العزت نے بنی آدم کو جو چند دیو قامت مراتب عطا کیے ہیں ان میں ایک والدین (پیرنٹنگ) بن کر دکھانا بھی شامل ہے۔ والدین (پیرنٹنگ) بن کر دکھانے کا سفر ہم جیسوں کے لیے بڑا کٹھن مرحلہ ہے۔ اس سفر کے تاروپود سمجھنے کی لیاقت، ریاضت اور مزاج موزوں کے لیے بڑی محنت درکار ہے۔ کثرت معلومات کے بجائے علم نافع کے زیروبم پر نگاہ رکھنی پڑتی ہے۔ بچوں سے زیادہ اپنی ذات کو سمجھنا اور اپنے اوپر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بچوں کو زبانی کلامی کے بجائے عملی نصیحت کا سامان درکار ہے تاکہ کردار سازی کی بنیاد دکھائی دے۔ اور بچوں کو تاریخ میں غوطہ زن ہونے سے پہلے والدین کی زندگی سے معنی خیز اسباق مل سکیں۔ اور وہ گوشت پوست کے انسانوں میں تاریخ ساز کرداروں کا عکس تلاش کر سکیں اور والدین کے منصب کو ابدی مقام نصیب ہو جائے۔

والدین (پیرنٹنگ) کے اس اجتماعی قافلے میں کئی مکاتب فکر پائے جاتے ہیں۔ ایک مکتب فکر کے نزدیک معیشت کی ناؤ سب سے اہم ہے۔ جس کے چشمے سے حصول علم اور والدین کی بنیادی ذمہ داریاں جڑی ہوئی ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے کبھی اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈالنا پڑتا ہے، کبھی انسان کی خوشی کو دبیز پردوں میں اوجھل رکھنا پڑتا ہے۔ کبھی انسانی تعلق کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ جدیدیت کی دوڑ نے انسان کے اختیار کو سلب کر رکھا ہے اور اس کی ترجیحات بدل ڈالی ہیں۔

دوسرے مکتب فکر نے مذہب کی روح کو سمجھنے کے بجائے مذہب کے نام کی مالا کو اہم جانا اور پہلے مکتب فکر کی ہر شے کو نیا لبادہ پہنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ مذہب کے نام پر خوش نما اصطلاحات نے عجب رنگ دکھایا ہے۔ ان دونوں مکاتب فکر نے بچوں کے حق زندگی کو دنیاوی اور اخروی بھلائی کے نام پر سلب کر رکھا ہے۔ اس قافلے میں ایشیا، مشرق وسطی، افریقہ، یورپ، آسٹریلیا و امریکہ کی کوئی تخصیص نہیں۔ اس سفر میں والدین (پیرنٹنگ) کی گاڑی انسانیت کی شاہراہ سے اتر کر پگڈنڈیوں پر سفر کرتے کرتے نامانوس جزائر میں پہنچ گئی ہے۔

انسانیت نے اس سفر میں جو خوبصورت خواب دیکھے تھے وہ سارے حبس بیجا میں نظر بند ہو گئے۔ بازیچہ اطفال کے سارے رنگ میلے پڑ گئے۔ اس المیے سے دوچار ہماری نسلیں ملال کا بوجھ خوشی خوشی اٹھائے پھرتی ہیں کہ اچانک مربی سے ملاقات ہو جاتی ہے جو ہمیں والدین (پیرنٹنگ) کے اس سفر میں جینے کے اسلوب سکھاتے ہیں تاکہ والدین کے منصب کو توقیر بخشی جائے وگرنہ ہم تو کولہو کے بیل کی طرح دائروں کے سفر پر گامزن تھے۔ مربی ہمیں عہد الست یاد دلاتا ہے تاکہ ہم ہجوم کی طرح غبار راہ میں گم نہ ہو جائیں۔

آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ ہم سیدھی طرح بات کیوں نہیں کرتے اور تزویراتی گہرائی کے نام پر بھول بھلیوں میں کیوں جا نکلتے ہیں۔ دوستو! زندگی کے سفر میں اپنے دکھ اور زیاں کا نوحہ لکھنا آسان نہیں۔ اپنی درماندگی کی حکایت بیان نہیں کر سکتے۔ ہم نے خدا کے بجائے اپنی اور ہجوم کی اجتماعی فراست پر بھروسا کیے رکھا اب ملال کا مقام یہ ہے کہ پگڈنڈی پر شاہراہ کا راستہ نہیں ملتا۔ وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ پگڈنڈی شاہراہ نہیں ہوتی۔

اب آپ ہی ہماری مدد کریں۔ مربی ہمارے سامنے چند بنیادی سوال رکھ دیتا ہے۔ ہمیں اپنے بارے میں کیا جاننا چاہیے اور کیوں جاننا چاہیے تاکہ خود آگہی اور خود بینی کے سفر کا ادراک ہو سکے۔ یہ سوچنے کا عمل جان لیوا ہے۔ یہ بات مربی کو بھی معلوم ہے پھر بھی وہ ہمیں امتحان میں ڈالے رکھتے ہیں۔ سائل کی قبا میں آگہی کے پیوند لگے جاتے ہیں اور قبا اتنی بھاری ہو جاتی ہے کہ آگے جانا محال ہے۔ شاید اسی لئے کہا گیا ہے کہ you have to be blind to see۔ اب ہم جیسے کم فہم سائل ظاہر کی آنکھ بند نہیں کر سکتے اور باطن کی آنکھ کھول نہیں سکتے اور اپنی توجہ ایک جگہ مرکوز نہیں کر سکتے پھر تناظر کیسے درست ہو گا۔

مربی ہمیں ان سوالوں کے ذریعے مکالمے کا درس دیتے ہیں۔ مکالمہ بڑے جگر گردے کے لوگوں کا شیوہ ہے ہمارے پر یہاں بہت جلدی جلتے ہیں شاید ہمیں خاموشی کا مکالمہ ہی زیب ہے۔ ہم فرار کے سارے راستے مسدود پاتے ہیں۔ کتاب روشن کی آیات جھلملاتی ہیں اور مسکراتی ہیں۔ سو بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ سورت اشرح (6۔ 7)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments