سلاخوں کے پیچھے جھانکتے معصوم بچے


افغانستان میں امن و امان کی صورتحال سمیت معاشی مشکلات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تحفظات لیے لاکھوں افغانیوں نے نقل مکانی کی۔ کابل پر افغان طالبان کے قبضے کے بعد افغان مہاجرین کی بڑی تعداد نے غیر قانونی طور پر پاکستان کا بھی رخ کیا جن کی قانونی طور پر رجسٹرڈ مجموعی تعداد قریباً 14 لاکھ ہو چکی ہے جبکہ غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد کم و بیش 8 لاکھ ہے۔ نئی عبوری افغان حکومت کے آنے کے بعد ایک لاکھ سے زائد مزید مہاجرین غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوئے۔

واضح رہے کہ کراچی ایک ایسا شہر ہے جہاں جو غیر مقامی کہیں سے بھی آتا ہے، انسانوں کے سمندر میں گم ہو جاتا ہے۔ غیر قانونی طور پر آنے والوں میں صرف افغان پشتون ہی نہیں بلکہ بہاری، بنگالی، برمی، نائجیرین، صومالی، ایرانی، ازبک، تاجک، ہزارہ تارکین وطن کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد وہ بھی ہے جو ویزہ لے کر آئے لیکن واپس اپنے ممالک نہیں گئے۔ حکومت کی جانب سے ایک ایمنسٹی مہم بھی چلائی گئی کہ ایسے لوگ، ایگزٹ ویزہ حاصل کر کے واپس اپنے وطن جا سکتے ہیں بصورت دیگر انہیں قید، جرمانہ اور تا حیات بلیک لسٹ بھی کیا جا سکتا ہے۔ افغانی شہریوں سے بار بار کہا جاتا ہے کہ وہ خود کو رجسٹرڈ کرائیں تاکہ ان کے خاندان بھی کسی بڑی پریشانی سے بچ سکیں۔

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا میں سلاخوں کے پیچھے چند معصوم افغان بچوں کی تصاویر وائرل ہوئی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ سندھ میں دو ماہ کے دوران کومبنگ آپریشن کے دوران قانونی دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے اپنے والدین کے ہمراہ گرفتار کیے گئے۔ زیر حراست افغان شہریوں کو قانونی مدد فراہم کرنے والی ایک وکیل منیزہ کاکڑ کے مطابق کراچی جیلوں میں کم از کم چودہ سو افغان شہری قید ہیں ہمیں پاکستان بھر کی جیلوں میں رکھے جانے والے افغانوں کی اصل تعداد کے بارے میں تو نہیں پتا۔

مگر اس دوران ہم کئی سو افغان شہریوں کو رہا کروا کر ان کے ملک واپس بھجوا چکے ہیں۔ افغان حکومت نے بھی افغان مہاجرین کی رہائی کا مطالبہ کیا، کراچی میں افغان قونصل خانے کے ایک اہلکار گل دین کے مطابق وہ گرفتار شدگان کی فوری اور با وقار انداز میں واپسی کے معاملے پر پاکستان حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ وائرل تصویر نے عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ بھی حاصل کی اور جیلوں میں قید افغان مہاجرین کی سزاؤں کو علامتی قرار دے کر انہیں محفوظ مقام پر منتقل کرنے کا مطالبہ تا حال جاری ہے۔ یہاں ایک قابل ذکر اور افسوس ناک امر یہ دیکھنے میں آیا کہ افغان خواتین کی بڑی تعداد نے افغانستان میں علاج معالجہ کی سہولیات نہ ہونے کے باعث مجبوری میں پاکستان آمد کا بیان دیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بیشتر خواتین کو ہسپتال جانے سے قبل ہی گرفتار کر لیا گیا۔

یہ ایک درد ناک صورتحال ہے کہ چار دہائیوں سے جنگ کے مضر اثرات کے باعث افغان عوام زندگی کی اہم ضروریات اور سہولیات سے محروم ہیں، انہیں غیر قانونی طور پر پاکستان منتقل ہونا پڑتا ہے۔ چونکہ پہلے ہی پاکستان لاکھوں افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے لہٰذا مزید افغانیوں کی میزبانی کرنا ممکن نہیں رہا ہے، کیونکہ جن حالات سے اس وقت مملکت گزر رہی ہے اس کی سب سے بنیادی وجہ افغان صورتحال ہے۔ عالمی برادری، افغانستان میں امن اور انسانی حقوق کی عمل داری چاہتے ہیں لیکن دوسری جانب اپنے مطالبات منوانے کے لئے معاشی طور پر کمزور سے کمزور بھی کر رہے ہیں۔ انہیں اپنی پالیسی میں نظر ثانی کرنا ہوگی کیونکہ جہاں افغان ثقافت و روایات سینکڑوں برسوں سے رائج ہے وہاں چند برسوں میں یک دم ختم کرنا ممکن ہی نہیں۔

افغان مہاجرین کی نقل مکانی کے بوجھ کو کم کرنے کے لئے سندھ حکومت نے ماہ اکتوبر سے ایک آپریشن شروع کیا ہوا ہے جس میں افغانیوں کے ان علاقوں میں چھاپے مارے جاتے ہیں جہاں غیر قانونی آباد کاروں کی موجودگی کی اطلاعات ملتی ہیں۔ سندھ دھرتی ایک مہمان نواز ثقافت کی تاریخ رکھتی ہے لیکن پے در پے ایسے افسوس ناک واقعات سامنے آ رہے ہیں جس میں غیر قانونی طور پر سندھ کے شہری علاقوں بالخصوص کراچی و حیدر آباد میں جرائم پیشہ کارروائیوں میں افغانی ملوث پائے جا رہے ہیں۔

ایسے واقعات سے مقامی آبادی میں اشتعال بھی پیدا ہوتا ہے اور حکومت پر دباؤ بھی بڑھتا ہے کہ افغان مہاجرین کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو اقوام متحدہ کی اصولوں کے تحت پوری دنیا میں مہاجرین کے ساتھ روا رکھے جاتے ہیں۔ افغان مہاجرین سمیت مختلف غیر قانونی آنے والے تارکین وطن کی تکالیف کا اندازہ ہے اور ان کی ہر تکلیف میں شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں، لیکن جہاں مقامی آبادیوں اور بے گناہ شہریوں کا جینا کسی بھی قومیت کے جرائم پیشہ عناصر کی وجہ سے دوبھر ہو جائے تو صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔

کراچی کی جیلوں میں اسیر مختلف قومیتوں سمیت افغان خواتین اور بچوں کو جس حال میں بھی رکھا گیا، اس سے قطع نظر یہ امر ہی دل خراش ہے کہ انہیں اپنے گھر والوں سے دور جیل میں رہنا پڑ رہا ہے اور انہیں موجودہ عدالتی نظام کی سست روی کا سامنا ہے۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ ان معصوم بچوں اور ان کی ماؤں پر کیا گزرتی ہوگی کہ جن بچوں کا مستقبل تعلیم، کھیل کود ہونا چاہے تھا وہ جرائم کی یونیورسٹی میں بڑے ہو رہے ہیں، جس کے خطرناک نتائج مرتب ہوتے ہیں۔

سوشل میڈیا میں بیانات دے کر ارباب اختیار اپنے فرائض سے بری الزمہ نہیں ہو سکتے انہیں اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ افغان حکومت کو بھی اپنی پالیسی میں اجتہاد کی ضرورت ہے۔ افغان حکومت اپنی قدامت پسند پالیسیوں کی وجہ سے ایسے اقدامات کر رہی ہے جو چار دہائیوں میں جنگ کی شکار عوام متحمل نہیں ہو سکتی۔ اسلامی احکامات پر بھی فوری عمل درآمد نہیں کیا گیا تھا بلکہ حضرت محمد ﷺ نے حالات و ضروریات کے مطابق رب کائنات کے احکامات کو حکمت سے نافذ کیا تھا۔

افغان حکومت کا مسئلہ یہی ہے کہ وہ سب کچھ جبر و طاقت کے زور پر ایک دن میں نافذ کرنا چاہتی ہے، اس کے لئے ان کے نزدیک حالات جیسے بھی ہوں، افغان عوام پر لازم ہے کہ وہ اس کی پیروی کریں ورنہ سزا کے لئے تیار رہیں پاکستان نے بحالت مجبوری میں حتی امکان صبر و تحمل کے ساتھ مہاجرین کو اپنے طول و عرض میں پناہ دی ہوئی ہے اور دنیا کا واحد ملک ہے جس نے چار دہائیوں سے زائد افغان مہاجرین کو پناہ دی ہوئی ہے۔ دکھ ہوتا ہے کہ جب افغان معصوم بچے اور خواتین یا مجبور مہاجرین حالات کی زبوں حالی کا شکار ہو جاتے ہیں تو چاہنے کے باوجود فوری مدد کرنا بھی ممکن نہیں رہتا، اس کا ہم سب کو ادراک کرنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments