اقوام متحدہ اور مسئلہ کشمیر


ریاست جموں وکشمیر کے باشندگان ہر سال 5 جنوری کو ”یوم حق خود ارادیت“ کے طور پر مناتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اقوام متحدہ کی کشمیر سے متعلق منظور شدہ قرار دادوں کے مطابق استصواب رائے کراتے ہوئے کشمیر کے سنگین مسئلے کو حل کیا جائے۔ یہ وہ دن ہے کہ جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 5 جنوری 1949 کو پاکستان اور ہندوستان کی رضامندی سے ایک قرار داد منظور کی جس میں کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے رائے شماری کا طریق کار طے لیا گیا۔

کشمیریوں کی جنگ آزادی میں اپنی پوزیشن کو کمزور دیکھتے ہوئے ہندوستان یکم جنوری 1948 کو کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں لے گیا تھا۔ 15 جنوری 48 کو سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر پر بحث کا آغاز ہوا، 20 جنوری کو سلامتی کونسل نے کمیشن برائے ہندو پاک مقرر کیا اور 28 جنوری 48 کو سلامتی کونسل کے صدر نے اعلان کیا کہ ہندوستان اور پاکستان ریاست جموں وکشمیر کے مستقبل کا فیصلہ استصواب رائے کے ذریعے طے کرانے پر رضامند ہو گئے ہیں جو غیرجانبدار اور آزاد فضا میں اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہو گا۔

13 اگست 48 کو سلامتی کونسل کے کمیشن نے قرار داد کے حصہ اول میں جموں و کشمیر میں جنگ بندی سے متعلق طریقہ کار کا اعلان کیا، قرار داد کے حصہ دوم میں حلف نامہ کی شرائط کا اعلان کیا گیا۔ یکم جنوری 1949 کو کشمیر میں جنگ بندی کا اعلان ہو گیا اور 5 جنوری 1949 کو کمیشن نے دونوں فریقوں کی رضا مندی سے اپنی دوسری تاریخی قرارداد پیش کی اس کے پہلے حصہ میں جنگ بندی کا ذکر تھا جس پر عمل بھی ہو چکا تھا۔ اس میں ناظم استصواب رائے کے تقرر اور استصواب رائے کے طریقہ کار سمیت دیگر امور طے کیے گئے۔

22 مارچ 49 کو دونوں ملکوں کی رضامندی سے ناظم استصواب کا تقرر عمل میں آ گیا اور 25 دسمبر 48 کو کمیشن نے دونوں حکومتوں کی رضا مندی کے ساتھ 13 اگست 48 کی قرارداد کی حصہ سوم کی شرائط طے کیں جس میں استصواب رائے سے متعلق دیگر امور دونوں ملکوں کی رضامندی سے طے کیے گئے۔ پاکستان نے قرار دادوں سے متعلق اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کر دیں لیکن ان قرار دادوں پر عملدرآمد کے وقت ہندوستان نے استصواب رائے سے فرار کی راہ اختیار کرتے ہوئے ان قرار دادوں کی ایک بھی شرط کو پورا نہیں کیا۔ ہم اس تمام صورتحال اور سلامتی کونسل کی قرار دادوں کا جائزہ لیتے ہیں۔

28 اکتوبر 47 کو جب بھارتی حکمرانوں نے اپنی فوجوں کو کشمیر میں ڈوگرہ راج کے گرتے ہوئے محل کو بچانے کے لئے پہنچا دیا تو اس وقت وہ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ چند دنوں کے اندر ریاست ”حملہ آوروں“ سے خالی ہو جائے گی۔ بات تھی بھی ٹھیک۔ جدید ترین سامان جنگ سے لیس بھارتی فوج کے مقابلہ میں آزاد مجاہدین کی ایک بے قاعدہ اور رضا کار جماعت لڑ رہی تھی۔ جہاں تک تعداد اور سامان جنگ کا تعلق تھا بھارتی حکمران ٹھیک سمجھتے تھے لیکن وہ یہ بھول رہے تھے کہ آزاد مجاہدین اپنی آزادی اور مال و جان عزت و ناموس کی حفاظت کے لئے لڑ رہے تھے اور بھارتی فوج شخصی راج کی حفاظت اور عوام کو غلام بنانے کے ناپاک مقصد کو لئے ہوئے آئی تھی وہ ہوس ملک گیری سے سرشار تھے۔

اس لئے آزاد مجاہدین کا پلڑا بھاری رہا۔ چنانچہ انہوں نے بھارتی سورماؤں کو کشمیر کی گھاٹیوں اور پہاڑیوں میں بے بس کر کے رکھ دیا اور بھارتی ہر اول دستے کے کمانڈر کرنل رائے پہلے ہی معرکے میں ہلاک ہوا۔ جب آزاد فوج نے 8 نومبر 1947 کو شالہ ٹینگ سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا تو خوش فہم بھارتی یہ اعلان کر بیٹھے کہ اب مظفر آباد تک ان کو کوئی روکنے والا نہیں اور دوسرے دن مظفرآباد پہنچنے کا خواب دیکھنے لگے مگر جب آزاد فوج نے جنگی مصلحت کے پیش نظر اوڑی کے نزدیک اپنی دفاعی لائن قائم کی تو بھارتی سورما بسیار کوشش کے باوجود ایک انچ بھی آگے نہ بڑھ سکے۔ یہ امر بھارت ایسی فوجی طاقت کے لئے شرم کا مقام تھا اور اس بات نے بھارتی افواج کے وقار کو زبردست نقصان پہنچایا۔ ان حالات سے بے بس ہو کر بھارت نے اقوام متحدہ کی پناہ لی اور یکم جنوری 48 کو باقاعدہ طور پر مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل میں پیش کر دیا۔

لنڈن کے اخبار ”ٹائم اینڈ ٹائیڈ“ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا، ”نہرو اب کشمیر کے جنجال سے نکلنا چاہتے ہیں اور سلامتی کونسل میں جاکر باعزت طریق سے فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مشکلات کا اندازہ کیے بغیر افواج بھیج دی کہ امن قائم کریں گے۔ لیکن اب انہیں ایک جنگ کا سامنا ہے۔“ ۔ ایک اور اخبار ”اسپیکٹڈ“ نے لکھا، ”طوفان تو اسی دن سے ناگزیر ہو گیا تھا جب مسلم آبادی رکھنے والے کشمیر کے ہندو راجہ نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا اور ہندوستان نے اسے قبول کیا“ ۔

بھارتی حکومت نے ان تین نکات پر مشتمل اپنا کیس سلامتی کونسل میں پیش کیا۔ 1۔ حملہ آوروں کو پاکستانی علاقے سے گزر نے نہ دیا جائے۔ 2۔ حملہ آوروں میں پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔ 3۔ حملہ آوروں کا بیشتر اسلحہ، فوجی رسد ذرائع نقل و حمل پاکستان کا مہیا کردہ ہے اور پاکستانی افسران ان کو تربیت دے رہے ہیں اور امداد کر رہے ہیں۔

12 جنوری 48 کو نیویارک جاتے ہوئے پاکستان کے وفد کے لیڈر وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان نے اخباری نمائندوں سے کہا، ”ہم خوش ہیں کہ ہندوستان نے بین الاقوامی مداخلت کی خواہش کی ہے۔ ہم نہ صرف چاہتے ہیں بلکہ بے چین ہیں اس بات کے لئے کہ ریاست سے غیر ملکی فوجوں کو نکال دیا جائے اور مہاجرین کو واپس لاکر آزادانہ رائے شماری کرائی جائے۔ پاکستان کی دلی خواہش ہے کہ کشمیری عوام کو ان کی مرضی کے مطابق عمل کرنے دیا جائے“ ۔

بھارتی وفد کے لیڈر سر گوپال سوامی آئسنگر اور شیخ محمد عبداللہ اس وفد کے رکن تھے۔ حکومت آزاد کشمیر کی طرف سے اس کے صدر سردار محمد ابراہیم خان نیویارک گئے۔ شیخ عبداللہ نے نیویارک میں اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”کشمیر نے ہندوستان سے الحاق کر کے اپنے حق آزادی کا استعمال کیا ہے اور یہ امر کہ اہل کشمیر پاکستان سے آنے والے حملہ آوروں سے نبردآزما ہیں اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کا انتخاب ہندوستان کے حق میں ہے“ ۔

آزاد کشمیر کے صدر سردار محمد ابراہیم خان نے 12 جنوری 48 کو نیویارک جانے سے قبل کراچی میں بتایا، ”ہم سرزمین کشمیر میں امن وامان قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم ڈوگرہ راج کا خاتمہ چاہتے ہیں اور ریاست میں ایک جمہوری حکومت کا قیام ہوتا کہ لوگ اپنی مرضی کے مطابق بغیر کسی دباؤ کے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ مجھے امید ہے کہ سلامتی کونسل آزاد کشمیر کو ایک فریق تسلیم کر کے مجھے بھی اپنا نکتہ نظر پیش کرنے کی اجازت دے گی کیونکہ جنگ بھارت اور آزاد کشمیر کے درمیان ہے نہ کہ بھارت اور پاکستان میں“ ۔

ان ہی دنوں لنڈن کے مشہور اخبار ”ڈیلی ٹیلی گراف“ نے اپنے نمائندہ خصوصی ڈگسن براؤن کے حوالے سے مندرجہ ذیل رپورٹ شائع کی، ”کشمیر کی لڑائی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان نہیں بلکہ ہندوستان اور اس طاقت کے درمیان ہو جو اپنے آپ کو حکومت آزاد کشمیر کہتی تھی۔ اس حکومت کا مقصد صرف ڈوگرہ راج ختم کرنا ہے جس نے مسلمانان کشمیر کو ہندوؤں کا محکوم بنا رکھا ہے“ ۔

سلامتی کونسل کا ہند و پاک کمیشن کے قیام اور استصواب رائے پر اتفاق کا اعلان۔ 15 جنوری 48 سے سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر پر بحث شروع ہوئی اور 20 جنوری کو ایک قرارداد میں ایک کمیشن برائے ہندو پاک مقرر کرنے کا اعلان کیا گیا۔ کمیشن برائے ہندوستان و پاکستان میں شامل ممبر ان یہ تھے۔ 1۔ ارجنٹائن کے ڈاکٹر ریکارڈوجے سری (پاکستان کا نامزد کردہ) 2۔ چیکو سلاواکیہ کے جوزف کا ربیل (بھارت کا نامزد کردہ) 3۔ بیلجیئم کے آیگرٹ گرایفے۔

4۔ کولمبیا کے ابزٹوجی فرینڈ ہنر۔ ( 5 ) امریکہ کے جے ہڈل۔ 28 جنوری 48 کو صدر سلامتی کونسل نے اعلان کیا کہ ہندوستان اور پاکستان ان تین نکات پر متفق ہو گئے ہیں۔ 1۔ ریاست جموں وکشمیر کے مستقبل کا فیصلہ استصواب رائے کے ذریعے طے ہو گا۔ 2۔ استصواب رائے مطلقا غیرجانبدار اور آزاد فضا میں کیا جائے گا۔ 3۔ استصواب رائے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ہو گا۔

ایک طرف سلامتی کونسل میں بحث جاری تھی دوسری طرف بھارت نے کشمیر میں حریت پسندوں کے خلاف زبردست اور بڑے پیمانے پر جنگی کارروائی شروع کی اور اس سے آزاد مجاہدین ایک بڑا علاقہ خالی کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اس نازک صورتحال کے وقت آزاد کشمیر کے نگران اعلی چوہدری غلام عباس خان نے 11 مئی 48 کو اہل پاکستان کے نام مندرجہ ذیل اپیل جاری کی کہ ”پاکستان کی قسمت کشمیر سے اور کشمیر کی قسمت پاکستان سے وابستہ ہے دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا ورنہ تباہی یقینی ہے۔ اس لئے موقع آ چکا ہے کہ پاکستان ہماری عملی امداد کرے۔ اگر پاکستان نے عملی امداد اور رفقات کی شمع روشن ہمیں نہ دکھائی تو یہ ہو سکتا ہے کہ ہم اور آپ دونوں آنے والے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں راستہ بھول جائیں۔ ہمیں جو کچھ کرنا ہے جلد کرنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ وقت گزرنے پر کف افسوس آن پڑے“ ۔ (روزنامہ ”ڈان“ کراچی) ۔ آزاد کشمیر کے صدر سردار محمد ابراہیم خان نے بھی ایک خط کے ذریعے صدر سلامتی کونسل کو اس نازک صورتحال سے آگاہ کر دیا۔

یہی وہ وقت تھا کہ پاکستان نے اپنی افواج کو کشمیر میں داخل ہونے کا حکم دیا کیونکہ بھارتی جنگی کارروائی سے خود پاکستان کی سرحدیں غیر محفوظ ہو گئیں تھیں۔ 4 جولائی 48 کو کشمیر کمیشن کراچی پہنچا اور اسی دن پاکستان کے وزیر خارجہ چوہدری ظفر اللہ خان نے آزاد کشمیر میں پاکستانی افواج کی موجودگی کی اطلاع کمیشن کو دے دی۔ کمیشن نے 4 جولائی 48 سے لے کر 2 اگست 48 تک بھارت پاکستان مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کا دورہ کیا۔ انہوں نے بھارتی حکومت اور حکومت پاکستان کے ذمہ دار نمائندوں سے بات چیت کی۔ ان کے علاوہ انہوں نے شیخ محمد عبداللہ وزیراعظم مقبوضہ کشمیر چوہدری غلام عباس خان نگران اعلی آزاد کشمیر اور صدر آزاد کشمیر سردار محمد ابراہیم خان سے بھی ملاقاتیں کیں۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے کمیشن کی قرار داد۔ 13 اگست 48 کو کمیشن نے دونوں فریقوں کی رضا مندی سے اس قرارداد کا اعلان کر دیا۔ حصہ اول۔ ( 1 ) ۔ ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں ایک ہی وقت جنگ بندی کا حکم دیں گی۔ ( 2 ) ۔ دونوں جانب سے کوئی ایسا اقدام نہ ہو گا جس سے کشمیر میں ان کی فوجی طاقت میں اضافہ ہو۔ 2۔ کمیشن جنگ بندی پر عمل کرانے کے لئے فوجی مبصرین مقرر کرے گا۔ 3۔ دونوں حکومتیں اپنے عوام سے اپیل کریں گی کہ وہ گفت و شنید کے لئے فضا کو خوشگوار بنانے میں تعاون کریں۔

حصہ دوم۔ حصہ اول و متارکہ جنگ کی منظوری کے بعد دونوں حکومتیں ایک عارضی صلح نامہ کریں گی اس کی تفصیلات ان کے نمائندے اور کمیشن طے کرے گا۔ 1۔ حکومت پاکستان اپنی فوج واپس بلانے پر رضا مند ہے۔ 2۔ پاکستان اپنی بہترین مساعی ان قبائلیوں اور پاکستانی باشندوں کو واپس بلانے پر صرف کرے گا جو جنگ کی نیت سے کشمیر گئے ہیں۔ 3۔ آخری تصفیہ تک جو علاقہ پاکستانی فوج خالی کرے گی اس میں کمیشن کی نگرانی میں مقامی حکام کا نظم و نسق چلے گا۔

1۔ ب: جب کمیشن حکومت ہند کو یہ اطلاع دے گا کہ حصہ دوم الف نمبر 2 کے مطابق قبائلی اور پاکستانی شہری واپس بلائے گئے او رمزید یہ کہ پاکستان کی فوج ریاست سے واپس بلائی گئی تو حکومت ہند اس پر رضا مند ہے کہ اپنی فوج کا بیشتر حصہ کمیشن کے مشورے سے واپس بلائے گی۔ 2۔ آخری تصفیہ تک حکومت ہند متبارکہ جنگ کے اندر اپنی فوج کے وہ حصے باقی رکھے گی جو قیام نظم و نسق میں مقامی حکومت کو امداد دینے کے لئے ضروری ہوگی۔

3۔ حکومت ہند اس کی ذمہ دار ہوگی کہ حکومت ریاست جموں وکشمیر اپنے تمام اختیارات سے کام لے کر امن وامان کی کفیل رہے گی اور تمام انسانی حقوق کا تحفظ کرے گی۔ (ج) عارضی صلح نامہ کا پورا متن ایک اعلان کے ذریعے شائع کیا جائے گا۔ حصہ سوم۔ حکومت ہند و پاکستان اپنی اس خواہش کا اظہار کرتی ہے کہ ریاست جموں وکشمیر کا مستقبل اہل ریاست کی مرضی سے طے کیا جائے گا۔ آزادانہ اظہار رائے عامہ کے لئے مطلوبہ منصفانہ اور مساویانہ حالات کا تعین کمیٹی سے مشورہ کے بعد کیا جائے گا۔

مسلسل کئی ماہ کی بحث و تکرار کے بعد یکم جنوری 1949 کی رات کو کشمیر میں جنگ بندی کا اعلان کر دیا گیا اور اسی رات کو گیارہ بج کر 59 منٹ پر لڑائی بند کر دی گئی۔ ”ٹائمز آف انڈیا“ کی اطلاع کے مطابق بھارت کشمیر کی جنگ پر روزانہ 45 لاکھ روپے خرچ کرتا تھا۔ 5 جنوری 1949 کو کمیشن نے دونوں فریقوں کی رضا مندی سے اپنی دوسری تاریخی قرارداد پیش کی اس کے پہلے حصہ میں جنگ بندی کا ذکر تھا جس پر عمل بھی ہو چکا تھا۔

حصہ دوم (عارضی صلح) ۔ 1۔ قبائلیوں اور پاکستانی شہریوں کو جو جنگ کی غرض سے کشمیر میں ہیں، سب سے پہلے واپس آنا ہو گا۔ 2۔ اس شرط کی تکمیل کے بعد پاکستانی افواج اور ہندی افواج کا بیشتر حصہ ریاست سے بیک وقت اور ساتھ ساتھ واپس ہو گا۔ 3۔ ہندی فوج کا ایک حصہ اس علاقہ میں رہے گا جو متارکہ جنگ کے وقت ہندی قبضہ میں ہو اور آزاد کشمیر کی فوج علاقہ آزاد میں بدستور رہے گی۔ 4۔ اس کے بعد کمیشن اور ناظم استصواب حکومت ہند و پاکستان کی حکومت کے مشورے سے فیصلہ کرے گا کہ ریاستی اور ہندی فوج کس تعداد میں ریاست میں رہنے دی جائے اور آزاد فوج سے کیا کام لیا جائے۔

حصہ سوم۔ 1۔ عارضی صلح کے بعد انتظامات مکمل ہوتے ہی استصواب رائے عامہ ہو گا۔ 2۔ ناظم استصواب بین الاقوامی شہرت کے حامی ہوں گے، جن کی نامزدگی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کریں گے۔ اس کی رسمی تقرری کا اعلان ریاست جموں و کشمیر کی حکومت کرے گی۔ 3۔ ناظم آزاد اور بے لاگ استصواب کے لئے ضروری اختیارات کے مالک ہوں گے۔ 4۔ اپنے معاونین و مبصرین کی بابت فیصلہ ناظم استصواب خود کریں گے۔ 5۔ ناظم کو یہ فیصلہ بھی کرنا ہو گا کہ باقی ماندہ ہندی فوج اور ریاستی فوج کو کہاں رکھا جائے تاکہ استصواب پر اثر انداز نہ ہو سکے۔

6۔ ریاست سے خارج کردہ اور خارج شدہ باشندگان ریاست با آرام و آزادی واپس آ سکیں گے اور ریاست میں اپنے تمام شہری حقوق حاصل کریں گے۔ مسلم مہاجرین کی واپسی کی نگرانی ایک کمیشن کرے گا۔ جس کے ممبران پاکستان کے نامزد کردہ ہوں گے۔ اسی طرح غیر مسلم پناہ گیروں کی واپسی بھی ہندوستان کا نامزد کردہ کمیشن کرے گا۔ 7۔ جو لوگ ناجائز مقاصد کے لئے 15 اگست 1947 کے بعد ریاست میں داخل ہوئے ہیں وہ ریاست بدر ہوں گے۔ لیکن وہ غیر ریاستی جو جائز مقصد اور جائز سیاسی سرگرمیوں کے لئے آئیں گے، ان پر کوئی پابندی نہ ہوگی۔

22 مارچ 49 کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل ٹریگولی نے امریکی ایڈمرل چسٹرنمٹز کو ہندوستان و پاکستان کی رضا مندی سے ناظم استصواب نامزد کیا۔ 25 دسمبر 48 کو کمیشن نے دونوں حکومتوں کی رضا مندی کے ساتھ 13 اگست 48 کی قرارداد کی حصہ سوم کی شرائط پیش کیں۔ 1۔ ریاست جموں وکشمیر کے ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا سوال ایک آزادانہ و غیر جانبدارانہ استصواب رائے عامہ سے ہو گا۔ 2۔ ناظم استصواب کا یہ فرض ہو گا کہ وہ دیکھے کہ جائز سیاسی سرگرمیوں پر ریاست میں کوئی پابندی نہ ہو تمام ریاستی باشندے آزادی کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کر سکیں ریاست میں پریس پلیٹ فارم سفر اور جائز طور پر آنے جانے کی پوری پابندی ہو۔

3۔ تمام سیاسی قیدی رہا کر دیے گئے۔ 4۔ ریاست کے تمام حصوں کو اقلیتوں کو پورا تحفظ حاصل ہے۔ 5۔ کہ منتقمانہ کارروائی تو نہیں ہو رہی ہے۔ 6۔ استصواب کے خاتمہ پر ناظم استصواب نتیجے سے کمیشن اور حکومت ریاست جموں وکشمیر کو مطلع کردے گا۔ اس کے بعد کمیشن کے سامنے اس امر کی تصدیق کرے گا کہ آیا استصواب آزادانہ اور غیر جانبدارانہ ہوا ہے یا نہیں۔

جب ان قراردادوں پر عمل کا وقت آیا تو بھارتی حکومت نے نت نئے مسائل پیدا کیے ۔ اس کے برعکس پاکستان نے 10 فروری 49 تک تمام قبائلی اور پاکستانی باشندے آزاد کشمیر سے واپس بلائے اور اس طرح کمیشن کی قرارداد کے اہم ترین حصہ پر عمل کیا۔ بھارت نے قراردادوں کی ایک شرط کو بھی پورا نہ کیا۔ اس کے بعد کمیشن کی ناکامی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے سراون ڈکسن، ڈاکٹر گراہم اور مسٹر جارنگ کو ان بنیادی قراردادوں پر عمل کرانے اور اس سلسلے میں ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان اختلافات ختم کرانے کے لئے مقرر کیے ۔

لیکن یہ سب نمائندے بھارت کے حکمرانوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ناکام ہو گئے اور پرنالہ وہیں کا وہیں رہ گیا۔ ہندوستان بالخصوص گزشتہ تیس سال سے زائد عرصہ سے کشمیریوں کی طرف سے اقوام متحدہ کی منظور شدہ قرار دادوں کے مطابق استصواب رائے کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل کے مطالبے پر مبنی تحریک کو دبانے کے لئے بدترین ظلم و ستم، قتل و غارت گری کرتے ہوئے انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں میں مصروف ہے۔ اس دوران ایک لاکھ سے زائد کشمیری ہندوستانی فورسز کے ہاتھوں ہلاک کیے گئے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں خواتین کی عصمت دری، جائیدادوں، عمارتوں کی تباہی، ہزاروں کی تعداد میں جیلوں میں قید اور ہزاروں کو معذور کیا جا چکا ہے جن میں بزرگ، خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتحال اور مسئلہ کشمیر کا حل نہ کیا جانا نہ صرف ہندوستان بلکہ عالم انسانیت کے لئے بھی سیاہ داغ کی حیثیت رکھتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments