انگریزی کا استاد جو اپنی کلاس میں اسلامیات پڑھاتا ہے


گزشتہ دنوں ایک بزرگ دانشور نے اپنی فیس بک وال پر ایک بہت زبردست بات لکھی جسے پڑھنے کے بعد دماغ کہیں کا کہیں چلا گیا، فلیش بیک کی مانند دماغ کے پردے پر پرائمری، مڈل اور میٹرک کلاس کا منظر نامہ ابھرنے لگا کہ کیسے اساتذہ معصوم زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کیا کرتے تھے، معصوم ذہنوں کی خوابیدہ صلاحیتوں کو جھنجوڑ کر بیدار کرنے کی بجائے اپنے رعب و دبدبہ اور ”مولابخش“ یعنی ڈنڈے کے ذریعے سے تھپکی دے کر سلانے کی کوشش کرتے تھے، رٹا بازی اور ریڈی میڈ قسم کے جوابات دماغوں میں ٹھونس کر بچوں کی معصومانہ حیرت پر شب خون مارتے ہوئے ”کیا، کیوں اور کیسے“ یعنی سوال پوچھنے کی جستجو یا تجسس کو ابتدائی جماعتوں میں ہی مسخ کر دیا کرتے تھے۔

ظاہر ہے اس قسم کے روایتی جبر یا سوشل کنڈیشننگ کے نتیجے میں طالب علم کا جو چہرہ سامنے آئے گا وہ ایک اطاعت گزار یا تابعدار کا ہو گا نہ کہ ایک تجسس پسند یا حیرتوں کو ڈی کوڈ کرنے والے باغی کا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس قسم کا جبری بندوبست یا ذہنی مشق آج بھی جوں کی توں ہے اور وفاداری و تابعداری کے جراثیم وبائی امراض کی طرح یونیورسٹی تک پیچھا نہیں چھوڑتے۔ ویسے بھی ہمارے تعلیمی اداروں کو فرمانبردار غلام، استاد کے سامنے ہاتھ باندھے اور نظریں جھکائے کھڑے روبوٹ چاہئیں جو ہر قسم کے ”جنک مٹیریل“ کو مقدس جانتے ہوں اور بغیر کوئی سوال اٹھائے یا عذر کیے ازبر کر لیں، مقابلے کا امتحان پاس کریں اور بیورو کریٹک سسٹم کا حصہ بنتے چلے جائیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے وہ جملہ شیئر کرنا چاہوں گا جس کی وجہ سے میں نے اس پہلو پر لکھنے کا فیصلہ کیا۔

”جتنی تباہی ایک غیر معیاری اور تنگ ذہن استاد پھیلا سکتا ہے اتنی بڑی تباہی بڑی جنگوں سے بھی نہیں ہوتی“

بالکل درست بات ہے جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی ایٹم بم کی زد میں آنے کے بعد ایک طویل عرصہ بعد ہی سہی مگر آخر کار زندگی کی طرف لوٹ آئے۔ ذرا تصور تو کریں اس معاشرے کا کہ جہاں شروع سے ذہنی اغوا کاری کے بندوبست کے تحت تعلیمی اداروں کے نام پر ہزاروں فیکٹریاں قائم کر دی گئی ہوں وہاں کس قسم کی نسل تیار ہو رہی ہوگی؟ ذہنی اغوا کاری کے نتائج کتنی نسلوں تک منتقل ہوں گے کون جانے؟ مگر اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اس قسم کے روایتی بندوبست کے تحت حقائق تو تاریخ کے جھروکوں یا کونوں کھدروں میں کہیں کھو کر رہ جاتے ہیں اور نوجوانوں کے ہاتھ جو لگتا ہے اس کی بین الاقوامی سطح پر کیا اہمیت ہوگی؟

شاید اسی روایتی دھند کا نتیجہ ہے کہ ہمارا ”اسٹوڈنٹ مٹیریل“ آج جذبات کا ایندھن بن چکا ہے جو بغیر سوچے سمجھے اور تدبر و تفکر کیے خیالات کی صورت میں کہیں بھی پھٹ جاتا ہے، غصے سے لال پیلا اور منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہو جاتی ہے۔ وہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بھی ذہنی طور پر ایبنارمیلٹی کا شکار ہوتا ہے۔ نئے خیالات و افکار کے متعلق اس کا ظرف وسیع ہونے کی بجائے دن بدن سکڑنے لگتا ہے، ظاہر ہے یہ سب سولہ یا اٹھارہ سالوں کے روایتی تعلیمی بندوبست کا ما حاصل ہوتا ہے یعنی ہمارا نظام تعلیم نارمیلٹی کی بجائے ایبنارمیلٹی کو فروغ دینے کا سبب بنتا ہے۔

اسی تسلسل کی ایک زندہ مثال پیش کرنا چاہوں گا چونکہ میرا تعلق ایجوکیشن فیلڈ سے ہے تقریباً پندرہ سال سے مختلف اذہان سے ڈیل کر رہا ہوں کوشش کرتا رہتا ہوں کہ سٹوڈنٹ کے اندر کی بات کا سراغ لگا پاؤں، انہی سراغ رسانیوں کے نتیجے میں کچھ ایسا بھی ہاتھ لگ جاتا ہے جسے شیئر کرنا بہت ضروری ہو جاتا ہے، خاص طور پر اگر اس حقیقت کا تعلق آپ کے قرب و جوار سے ہو۔ چند دن پہلے فرسٹ ائر کے کچھ اسٹوڈنٹس کو جنگ کے لئے میرے پاس آئے وہ انگریزی کے مضمون میں فیل ہو گئے تھے اور سپلیمنٹری کی تیاری کرنا چاہتے تھے۔

میں نے ان سے ناکامی کی وجہ جانی تو وہ اس طرح سے پھٹے کہ جیسے کسی نے ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہو، کہنے لگے کہ کالج میں جو ہمارے انگریزی کے پروفیسر ہیں وہ انگریزی بہت کم لیکن اسلامیات بہت زیادہ پڑھاتے ہیں۔ ان کا موقف تھا کہ آخرت میں اسلامیات نے کام آنا ہے انگریزی نہیں وہ تو تم رٹا لگا کر بھی کلیئر کرلو گے بس آخرت کی فکر کیا کرو۔ اسٹوڈنٹس کا کہنا تھا کہ ہمارے انگریزی کے استاد پینتالیس منٹ کے دورانیے میں بمشکل پندرہ منٹ انگریزی پڑھاتے تھے اور 35 منٹ اسلامیات کا درس دیا کرتے تھے اور ان کا موقف تھا کہ ایسا کرنے سے ہمارے نامہ اعمال میں ثواب کی شرح بڑھتی رہتی ہے اور اس نیک فریضے کی بدولت یا برکت سے آپ کی انگریزی بھی کلیئر ہو جائے گی مگر جو ہوا اس کے برعکس ہوا شاید نیکیاں تو بڑھ گئی ہوں مگر انگریزی نے آڑے ہاتھوں آ لیا اور بری طرح سے امتحان میں پٹ گئے۔

میں نے سوال کیا کہ آپ نے ان سے بات نہیں کی؟ ان کا کہنا تھا کہ اسٹوڈنٹس کے علاوہ کالج کی انتظامیہ نے بھی بارہا انھیں بتانے کی کوشش کی کہ آپ انگریزی کے استاد ہیں نہ کہ اسلامیات کے، مضمون پر فوکس کریں تاکہ بچوں کا قیمتی وقت ضائع نہ ہو مگر موصوف ان باتوں کو سنجیدگی سے لینے کی بجائے اپنی چال میں محو رہتے ہیں اور اس معاملے میں کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ ان کا موقف ہے کہ وہ بطور استاد معاشرے کے بچوں کی صحیح رہنمائی کرنے کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں اور ان کا یہ مشن جاری و ساری رہے گا بھلے بچوں کی دنیا تباہ ہو جائے مگر عاقبت ضرور سنور جائے گی۔

یقین مانیں ہمارے معاشرے کے اکثر تعلیمی اداروں میں یہی کچھ چل رہا ہے، اساتذہ اپنے مضمون میں سو فیصد دینے کی بجائے بچوں کی عاقبت سیدھی کرنے میں مصروف پائے جاتے ہیں۔ یہ پروفیشنل اونیسٹی کا کیسا معیار ہے کہ آپ اپنے جینوئن مضمون کو اگنور کر کے بچوں کے مستقبل سے کھلواڑ کریں خود تو آپ انگریزی میں ماسٹرز کرنے کے بعد بطور پروفیشنل ٹیچنگ فیلڈ میں آ گئے اور آپ کا مستقبل محفوظ ہو گیا مگر جو آپ سے سیکھنے آئے ہیں ان کا کیا قصور ہے؟

اگر انگریزی اس قدر بری یا پلید چیز تھی تو آپ نے اسے اختیار کیوں کیا؟ ظاہر ہے سوشل سٹینڈنگ کا چکر تھا جسے آپ نے اچیو کر لیا مگر اس میں طلبہ کا کیا قصور؟ مذہب ہر انسان کا ذاتی فعل ہوتا ہے، خدا اور بندے کے خالص روحانی تعلق کو یوں سر بازار رسوا نہیں کرنا چاہیے۔ اگر بطور مذہبی انسان آپ اپنی پرسنل لائف اور پروفیشنل لائف کے بیچ واضح فرق کو نہیں سمجھ پائے تو آپ اجڈ تو ہو سکتے ہیں پڑھے لکھے بالکل نہیں۔ چونکہ آپ پڑھے لکھے ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی انسان ہونے کے باوجود بھی اس حقیقت کو جاننے میں ناکام رہے ہیں کہ آپ اپنے مضمون کی آڑ میں جو کر رہے ہیں وہ سب پروفیشنل ڈس اونیسٹی کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ اس فرض کی ادائیگی کا آپ معاوضہ لیتے ہیں جسے آپ تبلیغ کی نذر کر رہے ہیں۔ معذرت کے ساتھ بات تلخ ضرور ہے مگر کرنا ضروری ہے کہ ہمارے مذہبی بھائی چاہے ان کا تعلق کسی بھی پروفیشن سے ہو وہ دنیا اور آخرت کے بیچ ایک توازن قائم رکھنے میں اکثر ناکام رہتے ہیں۔ سوچنا ہو گا کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیا اس کا کوئی سدباب کیا جا سکتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments