گندم مافیا کا راج، آٹے کا بحران، غریب طبقہ پریشان


حالیہ بارشوں اور سیلاب کے بعد عام آدمی بھوک بدحالی سے پریشان تھا، مہنگائی نے کمر توڑ دی تھی۔ روزگار کے مواقع ختم ہو گئے، لائیو اسٹاک، زراعت، گھر تباہ ہو گئے۔ اپر سے سندھ حکومت نے گندم کی خریداری کا سرکاری ریٹ 2 ہزار روپے سے بڑھا کر 4 ہزار روپیہ کر دیا، اوپر سے آٹا مارکیٹ میں اتنا مہنگا ہو گیا کہ غریب کی سکت سے باہر ہو گیا۔ سندھ بھر میں اس سال ایک کروڑ 40 لاکھ گندم کی بوریاں خریدی گئی تھی۔ فی گندم کی بوری 5500 سو میں خریدی گئی ہے جو کہ اس وقت 12 ہزار سے زائد میں بک رہی ہے۔

عوام کو مشکلات سے نکالنے کے لئے ریلیف دینے کے بجائے الٹا آٹا مہنگا کر کے نوالہ بھی چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سندھ کے بعد پنجاب، بلوچستان اور اب کے پی کے میں بھی پرائیویٹ آٹا 130 روپے سے زائد کلو فروخت ہو رہا ہے۔ سرکاری نرخوں پر ملنے والا سستا آٹا غائب ہو گیا ہے اور غریب کی پہنچ سے دور ہے۔ گندم مافیا آٹا کس طرح مہنگا کر کے فائدہ اٹھاتی ہے! مجھے ایک اہم ذمہ دار سیاسی رہنما نے بتایا کہ ہر ماہ سندھ حکومت مختلف فلور ملز کو دس ہزار سے 12 ہزار تک گندم کی بوری کا کوٹہ دیتی ہے۔

فلور مل مالکان سرکاری کوٹہ والی ایک بوری پر پانچ سے دس ہزار روپے کما رہے ہیں۔ مل مالکان سے ایک بوری پر 300 روپے کمیشن لے کر کوٹہ جاری کیا جاتا ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر اور ڈی ایف سی فی بوری پر 200 روپے مزید اپنی کمیشن لے رہے ہیں، جس وجہ سے آٹا مہنگا ہوجاتا ہے۔ ملز مالکان کو گوڈاؤن کیپر 200 روپے چارج کر کے گندم کی بوری لے جانے کی اجازت دیتا ہے۔ ایک بوری ملز تک پہنچتے 800 سے ایک ہزار تک کمیشن ادا کر کے پہنچ جاتی ہے۔

اس پر مزید ظلم کہ مل مالکان چار ہزار سے پانچ ہزار نفع خوری کر رہے ہیں۔ لیکن سندھ حکومت کی بے خبری سمجھ سے باہر ہے۔ کیونکہ زیادہ تر فلور ملز ان کے اپنے لوگوں کی ہیں۔ 5500 سو والی بوری 12 ہزار میں لے کر فروخت ہو رہی ہے۔ ایک ایک فلور ملز والا ایک ایک مہینہ میں حکومت سے ملنے والی گندم پر کروڑوں روپے نفع کما رہا ہے۔ اس سال ایک کروڑ 40 لاکھ گندم کی بوریاں خریدی گئی تھیں۔ گندم کی بوری 5500 سو میں خریدی گئی ہے جو کہ اس وقت 12 ہزار سے زائد میں بک رہی ہے۔

مبینہ طور پر ایک کروڑ چالیس لاکھ بوری پر تین سو کے حساب سے کمیشن 30 فیصد ہے۔ یوں تو صرف وزیر خوراک کی آفس کی کمیشن ایک ارب 26 کروڑ روپے سے زائد کی بنتی ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر اور ڈی ایف سی سمیت فوڈ سپروائزر، گوڈاؤن کیپر کی کمیشن بھی تقریباً اتنی ہی بنے گی۔ جب سرکاری گندم پر ڈھائی ارب سے زائد کی کرپشن ہو تو عوام کو خاک گندم یا آٹا سستا فراہم ہو گا۔ سرکاری ریٹ ہے 65 روپے جبکہ فی کلو مل رہا ہے 130 روپیہ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بلوچستان میں آٹے کا بحران سندھ کی طرح شدت اختیار کر گیا ہے۔ بلوچستان حکومت کے پاس گندم کا سٹاک تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ آٹا مارکیٹ سے غائب ہونے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔

بتایا جا رہا ہے کہ بلوچستان حکومت کے پاس گندم کے ذخائر ختم ہونے کو ہیں اور مارکیٹ میں 20 کلو کا تھیلا 300 روپے تک مہنگا کر دیا گیا، چند دن پہلے تک 20 کلو کا تھیلا 2300 روپے میں دستیاب تھا۔ اب 2500 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ کہیں تو ریٹ 2600 روپے تک بتایا جا رہا ہے۔ صوبائی حکومت 20 کلو کا تھیلا 1470 روپے میں فراہم کرنے کا اعلان کر چکی ہے لیکن حکومت کے پاس آٹا وافر مقدار میں نہیں۔ کوئٹہ کی 18 فلور ملز کو یومیہ 25 ہزار بوری گندم کی ضرورت ہے۔

پاسکو سے صرف اڑھائی لاکھ بوری گندم خریدی جو کم پڑ گئی۔ 9 سے 10 لاکھ بوری گندم کا بندوبست نہ کیا گیا تو آٹا مارکیٹ سے ختم ہو جائے گا۔ دوسری جانب پنجاب میں بھی آٹے کا بحران سنگین ہو گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب میں سرکاری آٹے کی اضافی رقم پر سندھ اور خیبرپختونخوا میں فروخت کرنے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔ جس کے بعد 1295 روپے والا سرکاری تھیلا 2400 روپے میں مل رہا ہے۔ پنجاب بھر میں آٹا شارٹ ہو گیا ہے، جبکہ لاہور میں چکی کے آٹے کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ بحران کے باعث لاہور میں چکی کا آٹا 140 روپے فی کلو جبکہ دس کلو کا تھیلا 1400 اور بیس کلو کا تھیلا 2800 روپے میں فروخت کیا جانے لگا ہے۔

دیکھا جائے تو پاکستان کا سب سے بڑا المیہ، غربت، مہنگائی، بے روزگاری، بھوک افلاس تو ہے ہی، لیکن یہ سب کیوں ہو رہا ہے۔ اس کی اہم وجہ جڑ کیا ہے؟ اس کا حل کیا ہے، اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جس کے پاس حل ہے وہ خود اس عمل میں ملوث ہیں۔ غریب طبقہ مزدور دو وقت کی روٹی کے لئے پریشان ہے۔ جب ملک چلانے والا طبقہ اشرافیہ نہیں چاہیں گے کوئی بہتری ممکن نہیں ہے۔

صوبائی وزیر شرجیل میمن صاحب روزانہ ٹی وی چینل پر آ کر کہتے ہیں کہ سرکاری سستا آٹا 65 روپے کلو فروخت ہو رہا ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ سستا آٹا خریدیں لیکن انہی کوئی بتائے کہ وہ آٹا انسان تو دور کی بات جانوروں کے کھانے کے قابل بھی نہیں ہے۔ سخت سردی میں مرد خواتین غریب 10 کلو آٹے کے حصول کے لئے لائن میں لگ کر بیٹھے رہتے ہیں اور شام کو مایوس ہو کر واپس چلے جاتے ہیں۔ اس گندم مافیا کے آگے سب کیوں خاموش ہیں۔ لوگ کس جرم تمنا کی سزا کاٹ رہے ہیں حکومت، انتظامیہ آخر کیوں خاموش ہے، آخر اس ملک میں کب تک عوام کے ساتھ اس طرح کا سلوک ہوتا رہے گا۔

لیکن یاد رکھیں جب روٹی مہنگی ہوتی ہے تو دو چیزیں سستی ہوتی ہیں ایک عزت دوسری غیرت۔ ترک کہاوت ہے کہ دسترخوان بغیر روٹی کے ادھورا ہوتا ہے۔ خالی سوکھی روٹی پڑی ہو تو پیٹ بھر جاتا ہے، ! ترکی میں خلافت عثمانیہ کے دوران صرف روٹی کے دام میں اضافہ ہوا، تو ریاست کی جانب سے پورے استنبول میں لوگوں کو گھروں میں روٹی مفت فراہم کی گئی۔ اس کے بعد ایک ہی دن میں گندم مافیا نے گھٹنے ٹیک دیے تھے۔ ہمارے حکمرانوں میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اربوں کھربوں روپے کے اثاثے بنانے والوں کو کیا پتا کہ آٹا کتنے کلو کا ہے اور جب گھر میں آٹا نہی ہوتا تو کیا منظر ہوتا ہے؟

کم از کم شہید بھٹو کی پارٹی والوں سے یہ امید نہی تھی جن کا نعرہ ہے روٹی کپڑا اور مکان ہے! لیکن ان کو کیا کہا جائے جو متاثرین کی امداد تک کھا جاتے ہیں، غریبوں کی مچھر دانیاں فروخت کرتے ہیں، ٹینٹ اور پلاسٹک تک کھا جاتے ہیں اور ڈکار تک نہی دیتے! نیب سکھر کے رپورٹس کے مطابق نیب سکھر نے محکمہ خوراک سے 15 ارب روپے کی رقم واپس کر کے قومی خزانے میں جمع کرا چکی ہے۔ یہ رقم محکمہ خوراک کے وزراء، افسران، ملز مالکان اور بیوپاریوں سے واپس لی گئی تھی۔ نیب نے گندم خرید کر رقم واپس نہ کرنے، گندم گم کرنے اور کرپشن کی مد میں تفتیش کر کے لوٹی گئی واپس کی گئی ہے اور متعدد کیسز زیر سماعت ہیں شاید نیب ایکٹ 2022 کے بعد زیادہ تر کیسز ختم ہو جائیں گے۔ یو تو صرف ریجنل سکھر کی رپورٹ ہے پورے پاکستان میں کیا نہ کیا ہو گا۔

حکمرانوں سے جب آٹا مہنگا ہونے کی شکایت کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ چاول کھالیں، یا کہا جاتا ہے کہ پیسٹری کھائیں، جو مزدور ہاری، کسان روزانہ 3 سو روپے یا پانچ سو روپے کی اجرت پر مزدوری کرتا ہے بھلا وہ آج کے دور میں اپنے بچوں کا پیٹ سوکھی روٹی سے کیسے بھر سکتا ہے؟

اس وقت سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور وفاق میں پیپلز پارٹی سمیت پی ڈی ایم جماعتوں کی مشترکہ حکومت ہے، عوام کو مہنگائی بیروزگاری، بھوک بدحالی سے نکال نہی سکتے تو کم از کم آٹا ہی سستا دیدو تاکہ لوگ ایک یا دو وقت سوکھی روٹی کھا سکیں، !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments