جہیز اور سماجی نفسیات


ہندوستان ٫بڑے ٹکڑوں میں منقسم تو ہو گیا مگر اس کے زمینی رسم و رواج اپنی نشوونما پاتے رہے۔ تقسیم سے قبل ہندؤں اور مسلمانوں کا اکٹھا رہن سہن تھا اسی وجہ سے بہت سی روایات آپس میں گھل مل گئیں۔ اسی طرح جو ہندو، سکھ یا دیگر مذاہب کے لوگ مسلمان ہوئے تھے وہ مذہبی طور پر تو نو مسلم ہو گئے مگر اپنے قبائل میں طے شدہ رسم و رواج جو اسلام کے منافی تھیں، انھیں بدلنا نہ بھول پائے۔ یہیں روایات بعد میں جاری رہیں اور مسلم سماج کے کلچر کا حصہ بنتی گئیں۔

انھی روایات یا رسم و رواج میں ایک جہیز کی صورت میں موجود ہے۔ جہیز عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی سامان یا اسباب کے ہیں۔ دہیج، دہیز اور داج اسی کے مترادفات ہیں۔ انگریزی میں اسے ڈاؤری کہتے ہیں۔ جہیز در اصل اپنی بیٹی کی شادی میں اہل خانہ (والدین) کی طرف سے دیا گیا وہ سامان ہے جس میں گھریلو روزمرہ استعمال کی اشیا موجود ہوتی ہیں۔

مسئلہ یہ نہیں کہ یہ رسم ہمارے ہاں ہندو دھرم سے شامل ہوئی بل کہ روح فرسا حقیقت یہ ہے کہ والدین کے کندھوں پر جہیز وہ بوجھ ہے جسے وہ اٹھانے سے مضمحل ہیں۔ والدین ہندو ہوں یا مسلمان، بیٹی کی شادی میں جہیز ٹانکے کی فکر ہر والدین کو کھائے جاتی ہے۔ یہ رسم کسی بھی مذہب میں ہو قابل مذمت ہے کیوں کہ یہ آسانی نہیں بلکہ دشواری کا باعث بنتی ہے۔ یہ رسم شادی میں اپنی بیٹی کو دیے جانے والے چند تحائف کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ جو سسرال والوں کی پست اور لالچی سوچ کا نتیجہ ہے۔

وہ والدین جنھوں نے اپنی نازک کلیوں کو آغوش نگہداشت میں بڑی شفقت اور محبت و مروت سے پالا ہو، جن کے لیے اپنی بیٹی سے بڑھ کر کوئی شے گراں قدر نہ ہو اور وہ آخر کار اپنے پھول کو آپ کے حوالے کر دیں تو اس سے بیش بہا جہیز کیا ہو سکتا ہے؟

غیور خاندان کبھی جہیز جیسے لعنت کا طوق اپنے گلے میں نہیں ڈلواتے۔ انھیں دوسروں کی بیٹیوں کا احساس ہوتا ہے اور یہی احساس سسرال میں بیٹی کی چت شانتی کا سبب بنتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق آج بھی بہت سے خاندان رشتہ طے کرتے وقت جہیز کی طویل فہرست بیٹی کے اہل خانہ کو تھما دیتے ہیں جو مہنگی اشیاء پر مشتمل ہوتی ہے۔ جس کے تناظر میں وہ خاندان جن کو بہ مشکل کوئی رشتہ مسیر آتا ہے وہ جلد رضا مند ہو جاتے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں جو دوسروں کو جہیز کا کہہ کر مشکل میں ڈالتے ہیں یہ کون مسلمان ہیں اس کا جواب قارئین پر چھوڑتا ہوں۔

ہمارے ادب، فلم، ڈراموں، الغرض ہر پلیٹ فارم پر جہیز لینے کی مذمت کی جاتی ہے۔ ٹی وی شوز میں آئے روز یہ بحث زور و شور پر ہوتی ہے کہ جہیز لعنت ہے۔ مگر پھر بھی کیا وجہ ہے کہ یہ چلن عام ہے؟

اس سوال کا جواب سماج کی نفسیات میں مضمر ہے۔ سماجی نفسیات سے مراد سماج اور معاشرے کی مجموعی طور پر اس سوچ اور محرک کو منصۂ شہود پر لانا ہے جو جہیز کے لین دین میں شامل ہے۔ بہت سی لڑکیاں ایسی ہیں جن کی شادی محض اس وجہ سے نہیں ہو پاتی کہ جہیز کا سامان تیار نہیں یا اس کی تیاری میں روپوں کی قلت ہے۔

بقول منظر بھوپالی
باپ بوجھ ڈھوتا تھا کیا جہیز دے پاتا
اس لئے وہ شہزادی آج تک کنواری ہے

اگر کوئی رشتہ بغیر جہیز کے ہو بھی جائے تو لڑکی کی بقیہ زندگی جہیز نہ دینے کے طعنوں پر گزر جاتی ہے۔ ایسی باتیں لڑکیوں کے لیے از حد شرمندگی کا باعث بنتی ہیں اور انھیں ذہنی طور چڑچڑا بنا دیتی ہیں۔ یہ ذہنی اذیت کہلاتی ہے۔ مگر اگلے وقتوں میں لڑکیوں کو جسمانی اذیت کے طور پر تشدد کر کے جہیز کی یاددہانی کروائی جاتی تھی اور بہت سی لڑکیاں اسی آگ میں جل کر راکھ ہو گئیں

بقول حفیظ جالندھری
رویا، کہ تھا جہیز ترا واجب الادا
مینہ موتیوں کا قبر پہ برسا کے آ گیا

اردو شاعری کے خدائے سخن میر تقی میر نے بھی اپنی بیٹی سے متعلق ایک شعر میں اظہار تعزیت کیا کہ
اب آیا دھیان اے آرام جاں، اس نامرادی میں
کفن دینا تمھیں بھولے تھے ہم اسباب شادی میں

جہیز کی سوچ، سماجی نفسیات کے طور پر ہمارے سماج اور رسم و رواج کا حصہ بن چکی ہے۔ جو شعوری و لاشعوری طور پر لڑکیوں اور ان کے والدین کو گھائل کرتی رہتی ہے اور انسان نا چاہتے ہوئے بھی اس دلدل میں دھنس جاتا ہے۔ کیوں کہ جہیز کا لین دین ہمارے سماج میں سسرال اور خاندان میں عزت رکھنے کے بول پر مجبوری کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ جہیز نا دینے کے بدلے سماج میں ناک کٹنے کا خوف رہتا ہے۔ یہی وہ سماجی نفسیات ہے جو معاشرے میں راسخ ہو چکی ہے۔

اس کا سد باب تب تک ممکن نہیں ہے جب تک سماج و معاشرے کی نفسیات روشن خیالی، ہمدردی اور احساس مروت کے افق پر نہیں پہنچ جاتی۔ اس ضمن میں ہر سطح پر ان نونہال بچوں کی نو عمری ہی میں جہیز جیسی آگ کے تدارک میں ذہن سازی کرنی ہوگی اور یہیں سے روشن خیال کا بیج تناور شجر کی صورت نشوونما پائے گا وگرنہ یہ آگ کبھی نہیں بجھے گی اور ہمیشہ کی طرح کئی گھروں کو اپنی لپیٹ میں لے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments