شاہ فاروق کی خلافت: محترم آغا خان سوئم سے کرنل محمد خان تک


دنیا کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ کسی نہ کسی مذہبی مسلک کی پیروی کرتا ہے۔ اور ان میں سے کئی گروہ اپنے اپنے مذہبی راہنماؤں کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ ایک معمول کی بات ہے۔ لیکن اب تک مسلمانوں میں کئی حکمران عالم اسلام کی خلافت کے حصول کی کوششیں کرتے ہیں۔ ان حکمرانوں کی ان کوشش کا مقصد اپنے ملک کی حدود سے باہر مسلمانوں میں اپنے اقتدار اور اثر و رسوخ کو بڑھانا ہوتا ہے۔ آج سے ایک صدی قبل تک سلطنت عثمانیہ کے بادشاہ عالم اسلام کے خلیفہ ہونے کے دعویدار تھے۔ ہم تحریک خلافت اور اس کے بعد مصطفے کمال پاشا کے ہاتھوں اس خلافت کے خاتمہ کی تاریخ سے واقف ہیں۔ اور موجودہ دور میں داعش نے بھی اپنی خلافت کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان میں بھی 1995 میں قیام خلافت کے نام پر بغاوت کی کوشش کی گئی تھی۔

ترکی میں جو برائے نام خلافت باقی رہ گئی تھی، اس کے مکمل خاتمہ کا ایک آخری سبب یہ بھی بنا تھا کہ اسماعیلی فرقہ کے روحانی پیشوا محترم آغا خان سوئم اور امیر علی صاحب نے ایک خط لکھا تھا جس میں اس بات کا اظہار کیا گیا تھا کہ خلافت کا مسئلہ پوری دنیا کے سنی مسلمانوں کے لئے اہم ہے اور اس کے متعلق کوئی فیصلہ کرتے ہوئے ان کی آراء کا خیال رکھنا چاہیے۔ کمال اتا ترک نے اس خط کو ترکی کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دے کر 1924 میں اسمبلی کی قرارداد کے ذریعہ عثمانی خلافت کو مکمل طور پر ختم کر کے پورے خاندان کو ملک بدر کر دیا۔ اس واقعہ کا ایک حیران کن پہلو یہ ہے کہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ خود سر آغا خان سوئم شیعہ فرقہ کے ایک مسلک کے روحانی پیشوا تھے اور سنی مسلک کی اس خلافت کے لئے ان کا یہ خط لکھنا حیران کن تھا۔

ابھی ان واقعات کو تیرہ سال ہی گزرے تھے کہ ایک اور خلافت کا سوال اٹھا دیا گیا۔ اس مرتبہ ایک طبقہ مصر کے بادشاہ شاہ فاروق کو خلیفہ بنانے کے لئے کوشاں تھا۔ چونکہ اس مہم میں زیادہ کامیابی نہیں ہوئی اس لئے عموماً اس کا زیادہ تذکرہ نہیں ہوتا لیکن اس کا کچھ ریکارڈ قطر ڈیجیٹل لائبریری اور برٹش لائبریری میں محفوظ ہے۔

جب یہ تذکرے شروع ہوئے اس وقت شاہ فاروق کی عمر صرف سترہ اٹھارہ برس تھی۔ اس وقت مصر کے حالات باقی عرب ممالک سے بہتر تھے۔

1937 کے شروع میں یہ افواہیں شروع ہوئیں کہ شاہ فاروق کو خلیفہ بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ پہلے کسی شیخ ارسلان نے ایک مضمون میں یہ تجویز دی کہ شاہ فاروق کو مسلمانوں کا خلیفہ بنا دینا چاہیے۔ جب مصر زیادہ مضبوط ہو جائے تو وہ اس منصب کو سنبھال لیں۔ یہ خبریں بھی سننے میں آئیں کہ اطالوی ایجنٹ بھی جامعہ الازہر کے علماء میں اس غرض کے لئے پروپیگنڈا کرتے رہے لیکن پھر یہ خیال اس لئے ترک کر دیا گیا کیونکہ شاہ فاروق مکمل طور پر برطانیہ کے ہاتھوں میں تھے۔

ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس وقت محترم سر آغا خان سوئم ایک مرتبہ پھر خلافت کے قیام کی حمایت کر رہے تھے۔ اور وہ یہ نظریہ پیش کر رہے تھے کہ ہر فرمانروا اپنے ملک میں اپنی خلافت کا اعلان کر سکتا ہے۔ اور اس وقت برطانوی حکام کی رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت یہ حکام آغا خان سوئم کو اس تجویز کی حمایت سے روکنے کی کوششیں کر رہے تھے۔

بہر کیف 1938 تک یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ مصر کے علماء مختلف ممالک جا کر وہاں کے لوگوں کو شاہ فاروق کی خلافت پر آمادہ کرنے کی کوششیں کر رہے تھے اور جامعۃ الازہر کے علماء اس غرض کے لئے مصر کے باہر علماء سے خط و کتابت بھی کر رہے تھے۔ اور یہ نظریہ پیش کر رہے تھے کہ مختلف مسلمان ممالک میں ان کے ماتحت نائب خلیفہ مقرر کیے جا سکتے ہیں۔ مصر میں برطانوی سفارت خانے نے اطلاع دی کہ علماء یہ تجویز پیش کر رہے ہیں کہ قاہرہ میں ایک سپریم اسلامک کونسل قائم کی جائے جس میں تمام ممالک سے مسلمان علماء شامل ہوں۔ ترکی میں برطانوی سفیر پرسی لورین نے اپنی حکومت کو یہ رپورٹ بھجوائی کہ ترکی کی حکومت اس تجویز کے سخت خلاف ہے۔ میرے سر آغا خان سے بہت خوشگوار تعلقات ہیں لیکن وہ خلافت کے لئے جو مہم چلا رہے ہیں مجھے اس سے تشویش ہے۔

اپریل 1938 میں مصر میں برطانوی سفارت خانے نے وزیر خارجہ لارڈ ہیلیفیکس کو یہ رپورٹ بھجوائی کہ اس تجویز کے نتیجہ میں دوسرے مسلمان ممالک اور مصر کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو سکتے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ برطانوی حکومت اس مسئلہ سے علیحدہ رہے۔ جون 1938 میں ہندوستان کے برطانوی حکام نے یہ رپورٹ بھجوائی کہ اس تجویز کو ہندوستان کے مسلمانوں کی حمایت حاصل نہیں ہو گی۔

البتہ 30 جون 1938 کو لاہور کے روزنامہ پرتاپ میں یہ خبر شائع ہوئی کہ شاہ فاروق کو خلیفہ بنانے کی تجویز سامنے آ چکی ہے اور یہ دعویٰ بھی شائع کر دیا کہ دوسرے مسلمان ممالک میں بھی اس تجویز کی حمایت کی جا رہی ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔

اس پس منظر میں مصر کے شہزادہ محمد علی نے انگلستان میں اپنے قیام کے دوران ایک اخبار کو انٹرویو دیا۔ اس میں انٹرویو لینے والے نے معنی خیز طور پر یہ سوال کیا کہ یہ افواہیں سننے میں آ رہی ہیں کہ مصر کے شاہ فاروق اپنی خلافت کا اعلان کریں گے۔ اس کے جواب میں شہزادہ محمد علی نے کہا کہ خلافت کے قیام کی خواہش اور اس کے قیام میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اس کے لئے تمام عالم اسلام کا راضی ہونا ضروری ہوتا ہے۔ فی الحال تو کوئی مسلمان حکمران اتنا طاقتور نہیں ہے کہ بطور خلیفہ تمام مسلمانوں کی حفاظت کر سکے۔

البتہ عثمانی خلافت ختم ہونے کے بعد اب تمام عالم اسلام سے علماء تعلیم کے لئے جامعہ الازہر کا رخ کرتے ہیں۔ اس طرح اب مصر کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ شاہ فاروق کی بہن اور ایران کے ولی عہد کی منگنی کا حوالہ دیا اور کہا کہ اس رشتے سے نہ صرف مصر اور ایران کے شاہی خاندان قریب آئیں ہیں بلکہ سنی اور شیعہ مسالک بھی ایک دوسرے سے قریب آئیں گے۔ [کیونکہ ایران کا شاہی خاندان شیعہ مسلک سے وابستہ تھا۔ ]

برطانوی حکام کا رد عمل یہی تھا کہ یہ ایک ناممکن اور نامعقول تجویز ہے۔ البتہ ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ برطانوی حکومت نے اس معاملہ کی تحقیق شروع کر دی۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مصر کے سیاستدان اور کابینہ کے وزراء کو بھی اس معاملہ میں اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ کیونکہ جولائی 1938 میں مصر میں برطانوی سفارت کار سر لیمپسن نے اپنی حکومت کو تار بھجوائی کہ انہوں نے مصری وزیر اعظم محمد محمود احمد سے ملاقات کی ہے اور انہیں بتایا ہے کہ برطانوی حکومت کے نزدیک یہ ایک غیر دانشمندانہ فیصلہ ہو گا۔

مصری وزیر اعظم نے انہیں بتایا کہ انہیں بھی چند روز پہلے ہی اس تجویز کا علم ہوا اور وہ بھی اس پر بہت حیران ہوئے ہیں۔ یہ شاہی محل سے اٹھنے والی تجویز ہے۔ اور انہوں نے برطانوی سفارتکار کو کہا کہ وہ مصر میں اس تجویز کے حامیوں کو سمجھانے کی کوشش کریں۔ معلوم ہوتا ہے کہ مصری سیاستدان علی مہر اس تجویز کی حمایت کر رہے تھے۔

بہر حال چونکہ اس وقت مصر بڑی حد تک برطانیہ کے زیر اثر تھا، اس لئے یہ تحریک زیادہ زور نہیں پکڑ سکی اور جلد دم توڑ گئی۔ سر آغا خان سوئم بالکل مختلف مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور برطانوی حکام ان پر بہت اعتماد کرتے تھے، اس کے باوجود وہ اس تحریک کی حمایت کر رہے تھے۔ یہ حقیقت کافی حیران کن ہے۔

شاہ فاروق سے وابستہ ایک واقعہ کرنل محمد خان صاحب نے اپنی کتاب ”بجنگ آمد“ میں بھی لکھا ہے۔ جب وہ برطانوی فوج میں کپتان کی حیثیت سے شامل تھے اور مصر میں خدمات سرانجام دے رہے تھے تو میلاد کی تقریب میں کچھ مسلمان فوجیوں کے ساتھ شامل ہوئے۔ تقریب میں شاہ فاروق نے بھی شامل ہونا تھا۔ ایک صوبیدار صاحب نے کہا کہ کیا شاہ فاروق کے آنے پر نعرہ تکبیر لگائیں۔ غریب کپتان محمد خان نے کہا کہ کس لئے؟ صوبیدار صاحب نے کہا کہ شاہ فاروق خلیفہ اسلام ہے ہمارا دل چاہتا ہے کہ نعرے لگائیں۔

بہر حال منع کرنے کے باوجود بادشاہ کی آمد پر صوبیدار صاحب کا سانس تیز ہونے لگا چنانچہ بادشاہ کے آنے پر ، ان کے اٹھنے پر ، چلنے پر ، بولنے پر نکلنے پر صوبیدار صاحب اور پچاس مسلمان فوجی فرط جوش و عقیدت سے نعرے ہائے تکبیر بلند کرتے رہے۔ اور شاہ فاروق ان کی عربی نہ سمجھ سکے اور یہ سمجھ کر کہ کوئی تماشا ہو رہا ہے ہنستے رہے اور درباری خوش کہ ظل سبحانی آمادہ خندہ ہیں ہنس ہنس کر بے حال ہو گئے۔ برصغیر کی غریب عوام ہر ایک کے لئے نعرے لگاتے رہے کبھی عثمانی بادشاہوں کے لئے کبھی شاہ فاروق کے لئے کبھی داعش کی حکومت کے لئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments