مولانا طارق جمیل کی صحت، نیو ائر نائٹ پر پیغام اور یورپ فیکٹر


گزشتہ دنوں مولانا طارق جمیل کینیڈا کے دورے پر تھے، ممکن ہے ابھی بھی وہیں ہوں کیونکہ ان کے دل کا حال احوال کچھ دگرگوں ہے۔ سنا ہے ان کا ظالم دل امت کے گناہوں سے دلبرداشتہ ہو کر آس و امید کے تمام دیے بجھانے ہی والا تھا کہ بیچ میں کینیڈین ڈاکٹرز ٹپک پڑے اور انہوں نے فوری مداخلت کرتے ہوئے ان کے مایوس دل کو پھر سے باغ باغ کر دیا اور مولانا دوبارہ سے زندگی کی طرف پلٹ آئے۔ غالباً مولانا صاحب کفار کو راہ راست پر لانے کے مشن پر تھے کہ اسی دوران دل ناہنجار کفار کے گناہوں پر اتنا نادم اور مغموم ہوا کہ ہارٹ اٹیک نے آ لیا۔

اتفاق سے جنہیں روحانی ”دعائیں“ دان کرنے گئے ہوئے تھے انہی کے ”دوا خانے“ کے اسیر ہو گئے، زندگی میں کیا کیا دیکھنا پڑ جاتا ہے، مطلب جن کے گناہوں کے سبب بیمار ہوئے انہی کے دوا خانے سے دوا بھی لینی پڑ گئی۔ چلیں خیر زندگی سے بڑی کیا نعمت ہو سکتی ہے؟ لمحہ موجود میں شنید ہے کہ انہیں کفار کے دوا خانے سے رو بصحت ہونے کے بعد ”رہائی“ مطلب ڈسچارج کر دیا گیا ہے۔ رہائی کے فوراً بعد انہوں نے نیو ائر نائٹ کی رات روتے ہوئے اپنے ویڈیو پیغام میں ارشاد فرماتے ہوئے کہا کہ

”آج نئے سال کی رات ہے اور آج شباب، کباب اور شراب کے مظاہرے دیکھنے کو ملیں گے، نجانے کتنے لڑکے لڑکیاں ناچیں گے، شراب پئیں گے اور مالک کائنات کو ناراض کریں گے کاش میری پکار ان تک پہنچ جائے“

مولانا کو تو بڑے دور کی سوجھی ہے انہی کے چہیتے اور ریاست مدینہ کے سربراہ عمران خان اپنے مشہور زمانہ 126 دنوں کے دھرنوں میں جو کچھ کرتے رہے ہیں کیا وہ ان سے بے خبر رہے؟ میوزیکل پروگرام اور لڑکیوں کا ڈھول کی تھاپ پر والہانہ رقص اور اب آڈیوز کا سلسلہ، مگر مولانا کو فکر ہے تو صرف کفار کی، باقی سب خیر ہے کیونکہ فرق بالکل واضح اور صاف ہے ہم ٹھہرے مسلمان اور وہ کافر دونوں کا موازنہ بھلا ایک ساتھ کیسے کیا جاسکتا ہے؟

حیرت صرف اس بات کی ہے کہ مولانا کی روحانی و عقابی نگاہیں سات سمندر پار ہونے والی خرافات، عیاشیوں یا غلیظ گناہوں کو تو چند دنوں میں تاڑ لیتی ہیں اور صحت یاب ہوتے ہی ویڈیو پیغام کے ذریعے روتے ہوئے وارننگ میسج بھی جاری فرما دیتے ہیں مگر جو کچھ اپنی سرزمین پر ان کی آنکھوں کے سامنے ہوتا رہا جس کی شہادتیں بھی موصول ہونا شروع ہو گئی ہیں ان تک ان کی عقابی نگاہوں کی رسائی ممکن کیوں نہیں ہو پائی؟ کیا کفار کی سرزمین پر گناہ کا اسٹیٹس تبدیل ہو جاتا ہے؟

یا گناہ کی شدت و حدت میں ان کی سرزمین پر اضافہ ہو جاتا ہے اور ہماری سرزمین پر گناہوں کے اثرات نارمل یا زائل ہو جاتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو صاحبان جبہ و دستار کا اس طرح کی ناپاک سلطنتوں یا ریاستوں کی سرزمین پر اپنا مبارک قدم رنجہ فرمانا شرعی اعتبار سے درست اقدام تصور ہو گا؟ جب خود کی تبلیغ اپنوں میں کارگر ثابت نہ ہو رہی ہو تو کفرستان یا ناپاک گڑھ میں غیروں کے بیچ جانے میں کیا حکمت عملی ہو سکتی ہے؟ جن کی وعظ و نصیحت پر اپنے ہی کان نہ دھر رہے ہوں انہی فرامین کی دہرائی ایسے لوگوں کے سامنے کرنے کا کیا مقصد جن کی معاشرت و دیانت ہم سے کہیں بہتر ہو؟

جن کے ایمان کا تو خیر پتہ نہیں کیونکہ یہ تو ہر ایک کا انتہائی نجی سا معاملہ ہوتا ہے مگر جو انسانی وجود کے اندر جانے والی اشیائے خورد و نوش میں ملاوٹ کے قائل نہ ہوں اور ملاوٹی تصور کے خلاف زیرو ٹالرنس رکھتے ہوں ان کا موازنہ محض ہمارے ایمان کے ساتھ کیا جا سکتا ہے؟ ہم ”چوزن ون“ اسٹیٹس کے ساتھ بھی ایک ایسا مثالی معاشرہ قائم نہیں کر پائے جہاں کم از کم انسانی خوراک تو ملاوٹ سے پاک نصیب ہو پاتی؟ اور چلے ہیں دوسروں کو مسلمان کرنے اور راہ راست پر لانے کو؟

منافقت کا اقبال بلند رہے اس کے بغیر تو ہم کہیں کے بھی نہیں ہیں، معاشرت کا تو پہلے ہی بیڑا پار ہے اور مذہبی بنیادوں پر بھی اس قدر تقسیم ہوچکے ہیں کہ کچھ بھی واضح نہیں رہا، سب فرقوں کی دھند میں کہیں کھو چکا ہے، بس جاوید احمد غامدی اور انجینئر محمد علی مرزا احیا و اصلاح کے نام پر خود کو طفل تسلیاں دیتے رہتے ہیں۔ منافقت کا عالم یہ ہے کہ ہمیں یہود و نصاریٰ سے دوستانہ روابط قائم نہ کرنے کا کہہ کر ہمارے مشائخ عظام اپنے بچوں کو اعلی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے امریکہ اور کینیڈا بھیجتے ہیں۔

امریکہ مردہ باد سلوگن کے پرچارک اور جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ نے اپنے بیٹے احمد جبران بلوچ کو پی ایچ ڈی کے لیے کینیڈا بھیجا تھا اور انہوں نے غالباً 2021 میں ٹورنٹو آف یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کی تھی۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی کے سابق سربراہ مرحوم قاضی حسین احمد بھی کئی کئی بار امریکہ کی یاترا فرماتے رہتے تھے اور اپنی سرزمین پر امریکہ مردہ باد ریلی کی قیادت فرمایا کرتے تھے۔ پرویز ہود بھائی نے امریکہ میں ہونے والے ایک سیمینار کا کہیں حوالہ دیا تھا جس سے قاضی حسین احمد نے خطاب فرمایا تھا، ان کا کہنا تھا کہ قاضی صاحب بڑی کیوٹ اور سافٹ سی انگریزی میں انتہائی شائستہ انداز میں اپنے خیالات کا اظہار فرما رہے تھے ہود بھائی چونکہ قاضی صاحب کے روایتی انداز فکر سے بخوبی واقف تھے اور اب جو قاضی صاحب ان کے سامنے تھے وہ بالکل ہی مختلف تھے۔

اب اسے فیضان مغرب کہیں یا سمے کے حساب سے موقع پرستی یا منافقت کہیں بلکہ معاشرتی جبر کہنا زیادہ بہتر ہو گا کیونکہ جو وہ اپنے ہاں بیچ کر روزی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں وہ سب تو ان کی سرزمین پر نہیں چل سکتا ناں۔ حیرت ہوتی ہے ایسوں کی ذہنیت پر کہ خود تو چالاکیاں کر کے اپنی معیشت و معاشرت بہتر کر لیتے ہیں مگر دوسروں کے لئے تمام راستے بند کر دیتے ہیں۔ اس سیمینار کا یہاں حوالہ دینے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے مذہبی پنڈت حالات کے مطابق خود کو ایڈجسٹ کر کے اپنی آخرت کے علاوہ معاشرت کو بھی ٹپ ٹاپ کرتے رہتے ہیں اور اپنے پیروکاروں کو ان راہوں پر چلنے سے منع کرتے رہتے ہیں جن کے وہ خود راہی ہوتے ہیں۔

ہمارے بچوں کو مغرب اور مغرب کے تعلیمی اداروں سے دور رکھنے کے جتن کرتے رہتے ہیں جب کہ اپنے بچوں کو انہی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجتے ہیں جہاں ان کے موقف کے مطابق الحادی تصورات پڑھائے جاتے ہیں۔ ”روایتی گرگٹ“ تو وقت و حالات کے حساب سے اپنا قبلہ و سمت درست فرما لیتے ہیں مگر دوسروں کو اجازت نہیں دیتے بلکہ بھنک تک پڑنے نہیں دیتے۔ ان سے بھلا کون پوچھ سکتا ہے کہ جناب! ہم سے ہمارے بچے جہاد کے لیے مانگتے ہو جب کہ اپنے بچوں کو اعلی تعلیم کے لئے باہر بھیجتے ہو آخر کیوں؟ ہمارے لیے یہود و نصاریٰ کی دوستی حرام اور آپ کے لیے جائز کیسے ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments