جاوید چوہدری کی تحریر میں جنرل باجوہ کے الفاظ


جاوید چوہدری کا انکشافات سے بھرپور کالم پڑھ کر حیرت یہ ہوئی ہے کہ کس بھونڈے انداز میں ریٹائرڈ جنرل باجوہ اپنے یک طرفہ موقف کو پروموٹ کر رہے ہیں اور ظاہر ہے آج بھی وہ اپنے الوداعی قول کے مطابق گمنامی کی زندگی میں نہیں گئے۔

کالم کا مرکزی نقطہ یہ ثابت کرتا ہے کہ عمران خان نے کم از کم تین بار آرمی چیف جنرل باجوہ کو مختلف اوقات میں اس وقت ایکسٹینشن کی آفر بھیجی یا دی جب وہ عوامی جلسوں میں انھیں میر جعفر اور میر صادق کہہ رہے تھے۔

وزیراعظم عمران خان کے ان دنوں کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو عمران یہ کہتے بھی نظر آتے تھے کہ وہ سیاستدانوں کا احتساب نہیں کرپائے کیونکہ نیب ان کے کنٹرول میں نہ تھا بلکہ کسی اور (اسٹیبلشمنٹ ) کے نیچے کام کر رہا تھا جسے بعد میں واشگاف الفاظ میں انھوں نے اس طرح سے بیان کیا کہ نیب کو باجوہ صاحب کنٹرول کرتے تھے جسے چاہتے پکڑا دیتے اور جسے چاہتے چھڑوا دیتے اور ایک وقت میں تو سابق وزیراعظم نے یہاں تک بیان کیا کہ سابق آرمی چیف مجھے کہتے تھے کہ احتساب کو چھوڑیں اور معیشت پر کام کریں۔ واپس آتے ہیں کالم کی طرف تو جب ساری طاقت یعنی عدلیہ، بیورو کریسی اور پولیس حتی کہ ساری پولیٹیکل انجنیئرنگ کا کنٹرول جنرل باجوہ اور ان کی اسٹبلشمنٹ کے پاس تھا تو عمران خان کو اپنی حکومت بچانے اور امپورٹڈ حکومت گرانے کے لئے کس سے ملاقات کرنی چاہیے تھی؟

کالم کے مطابق جنرل باجوہ نے ایکسٹینشن کی آفر کو تین بار قبول کرنے سے انکار کیوں کیا جبکہ وہ پہلے ہی ایکسٹینشن پر بیٹھے ہوئے تھے لہذا اسے۔ ہائی ویلیوز۔ کے ساتھ جوڑنا تو درست نہ ہو گا۔ تو پھر آفر کو قبول نہ کرنے کی وجہ اس وقت کے حالات میں چھپی تھی۔ سابق آرمی چیف کے پاس کوئی ایسا آپشن موجود ہی نہ تھا۔ کیونکہ اس وقت کی سیاسی انجنیئرنگ (عدم اعتماد کی تحریک) میں صاف صاف ایسٹیبلشمنٹ نظر آ رہی تھی اور سارا ملبہ جنرل باجوہ پر گرنے والا تھا روزانہ فوج جسے معتبر ادارے کو سوشل میڈیا پر بر ابھلا کہا جا رہا تھا۔ ٹویٹر اسپیسز۔ پر آرمی کے ادارے کا دفاع مشکل ہو گیا تھا ایسے وقت میں صحافیوں پر مقدمات کرائے جا رہے تھے تو ایکسٹینشن کی قبولیت سے ایک بڑا عوامی بلکہ فوجی ردعمل بھی آ سکتا تھا۔

کالم کے مطابق جنرل باجوہ وزیراعظم عمران خان کو کبھی پرویز خٹک کو وزیراعلی کے پی کے بنانے کا مشورہ دیتے رہے تو کبھی وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کی جگہ علیم خان کو لانے کے لئے مبینہ انٹیلی جنس رپورٹس کا استعمال کرتے رہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آرمی چیف کا وہ کون سا فیصلہ تھا جس کو اپنے زیر تسلط نہیں سمجھ رہے تھے؟ اور وہ سیاست اور حکومتی معاملات میں کس حد تک ملوث اور مداخلت کر رہے تھے

جنرل باجوہ نے جاوید چوہدری کے اس کالم کے ذریعے یہ بھی بتا دیا کہ وہ جنرل عاصم منیر کے آرمی چیف بننے کے خلاف نہیں تھے تو پھر ایک ماہ تک جنرل عاصم منیر کے نام کے بغیر سمری بھیج کر ڈٹے کیوں رہے کیونکہ جنرل باجوہ عاصم منیر کی جگہ کسی اور کو آرمی چیف چاہتے تھے اور وہ نام جاوید چوہدری نے کالم میں نہیں لکھا کیونکہ لکھ دیتے تو جنرل باجوہ ریٹائرمنٹ کے بعد ایسا انٹرویو کراتے نہ ملاقات کا موقع ملتا لہذا اسے۔ ایمبیڈڈ جرنلزم۔ کی بہترین مثال کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ جس میں میڈیا کو ایک۔ ٹول۔ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنے اثر و رسوخ میں مخصوص حقائق دکھائے جاتے ہیں اور وہ سارے حالات کی۔ پیڈنگ۔ کرنے کی بجائے بتانے والے کی لائنوں پر چلتے ہوئے اسٹوری چھاپ دی جاتی ہے

ان حالات میں ایک بات حقیقت ہے کہ جنرل عاصم منیر کے آرمی چیف بننے کے مشکل فیصلے کے پیچھے ڈٹ جانے والی واحد شخصیت کا نام نواز شریف ہے جنہوں نے جنرل باجوہ کا دباؤ بھی برداشت کیا

عمران خان کی سیاست کا اولین مقصد اسٹیٹس کو کی کرداروں کا احتساب کرنا ہے یعنی کرپشن کے پیسے کی ریکوری اور ملک کے لئے کیے گئے کرپٹ فیصلوں کا حساب کتاب اور اس کے لئے نئے آرمی چیف کا بھی۔ لائیک مائنڈڈ۔ یعنی ہم خیال ہونا ضروری تھا لہذا آرمی چیف جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن کی آفر کی گئی تاکہ الیکشن کے بعد پورے مینڈیٹ کے ساتھ نیا وزیراعظم آئے اور نیا آرمی چیف تعینات کرے اور اس وقت یقینی طور پر الیکشن کرا دیے جاتے تو عمران خان کی مقبولیت کو کوئی شکست نہیں دے سکتا تھا لہذا یہاں بھی عمران خان کی حکمت عملی اگلے چند ماہ کے لیے غلط نہ تھی لیکن کالم میں اسے ایسے لکھا گیا جیسے عمران جنرل باجوہ کی قابلیت کے اسیر تھے یا خوامخواہ وہ انھیں اپنی رجیم چینج آپریشن کا ذمہ دار ٹھہرا کر میر صادق اور میر جعفر کے القابات سے نواز رہے تھے بلکہ وہ مستقبل کو دیکھ کر اپنی سیاسی راہوں کا تعین کرتے دکھائی دیے۔

فوج کے۔ ڈیکورم۔ کو توڑتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم ڈی جی آئی ایس آئی کو پریس کانفرنس کے لئے کیوں اور کس نے بھیجا کیا ترجمان پاک فوج ڈی جی آئی ایس پی آر کی بات پر عوام کو یقین نہ تھا؟

جاوید چوہدری کے کالم میں ایک اور اسٹوری نے قابل غور جگہ لی وہ تھی کہ سابق آرمی چیف جرنل باجوہ نے ملک محمد احمد کے ذریعے میاں نواز شریف کو بھی پیغام بھیج دیا کہ وہ اب آفرز کے باوجود ایکسٹینشن نہیں لینا چاہتے۔ اس میں بھی سیاق و سباق کی ضرورت ہے کہ پہلی بات یہ کہ کیا عمران خان کی یہ بات سچ ہے کہ جنرل باجوہ دونوں اطراف رابطے میں تھے اور کیا مریم نواز کا جانا اور اسحاق ڈار کا مقدمات ختم کر کے لندن سے واپس آنا انھیں رابطوں کی ایک کڑی تھی تو پھر نیوٹرل والی کہانی کہاں گئی؟

بہرحال جنرل باجوہ نے ملک محمد احمد کے ذریعے نواز شریف کو یہ پیغام پہنچا دیا کہ وہ ایکسٹینشن نہیں لے رہے سوال یہ ہے کہ جنرل باجوہ کو نواز شریف کو پیغام پہنچانے کی کیا ضرورت پیش آئی تھی کیا وہ بھی ایکسٹینشن کے حق میں تھے؟

نواز شریف جن کی حکومت رخصت کرنے اور انھیں سزا دلانے کے پیچھے ہمیشہ جنرل باجوہ کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا رہا۔ درحقیقت ان کا بیانیہ۔ ووٹ کو عزت دو ۔ اور۔ مجھے کیوں نکالا۔ صرف جنرل باجوہ کو ہی۔ بلیم۔ کرتا تھا لیکن جب وہ ریٹائرڈ ہوئے تو مریم نواز کا کوئی بیان سامنے آیا نہ نواز شریف نے ان کی کارکردگی پر کوئی سوال اٹھایا عوام کی نظروں سے ہٹ کر یہ سمجھوتے کب ہوئے؟

اگر باجوہ صاحب کو یہ لگتا ہے کہ ان کے خلاف ٹرینڈ بننے سے ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے تو انھیں اپنی طاقت میں کیے گئے فیصلوں پرایک دفعہ نظر دہرانا ہوگی۔ پاک فوج کا امیج کہاں سے کہاں پہنچا دیا گیا جتنا کھل کر فوج نے آپ کے دور میں طاقت کا استعمال کیا اتنا۔ ڈکٹیٹرشپس۔ آمریتوں کے ادوار میں بھی نہیں ہوا۔ پالیسیوں کے یوٹرن جنہیں چور بنا کر پیش کیا انھیں حکومت دے دی۔ ادارے اس حد تک کمزور کر دیے کہ پولیس افسران، عدلیہ اور بیوروکریٹس یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ہمیں اوپر سے آرڈر ہیں اور ہم جائز ناجائز کے لئے مجبور ہیں یہاں بھی ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ صحافیوں کے ذریعے ایسی کہانیاں پلانٹ کرنے سے کیا آپ کے چھ سالہ دور کے فیصلوں کے داغ دھل پائیں گے؟

آخر میں جاوید چوہدری صاحب کے کالم کے نیچے ترکی اور مراکش کے ٹوور کی پروموشن کے ذریعے ان کے اس بزنس کا بھی پتہ چلا تو سوچا کہ ساتھ جا کر اپنے اس کالم میں لکھے گئے سوالات پوچھنے کا موقع مل سکتا ہے لیکن دو ہزار یورو افورڈ کرنا میرے جیسے فل ٹائم صحافت کرنے والے بندے کے لئے ممکن نہیں اور ویسے بھی پتہ چلا کہ وہ پہلے ٹوور میں ساتھ جاتے ہیں جبکہ اس وقت۔ ریپیڈڈ ٹور۔ چل رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).