اسلام پورہ میں لٹکی سہراب سائیکل اور ہماری تباہی


دوسری جنگ عظیم کے بعد کوریا دو ریاستوں میں تقسیم ہوا جنوبی کوریا اور شمالی کوریا۔ تقسیم کے بعد سے ہی دونوں ریاستوں کے مابین تعلقات تناؤ کا شکار رہے اور یہ تناؤ 1950 میں کوریا جنگ کی صورت اختیار کر گیا جو کہ بیرونی مداخلت کی بدولت 1953 میں اختتام کو پہنچی۔ ساؤتھ کوریا نے کوریا جنگ کے بعد معجزاتی طور پر معاشی ترقی کی منازل طے کیں مگر شمالی کوریا آج بھی مشکل سے عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرتا ہے۔

خاردار تاروں کے ایک طرف جنوبی کوریا دنیا کی خوشحال ریاستوں میں سے ایک اور دوسری طرف شمالی کوریا غربت، مایوسی اور استحصال کی تصویر ہے۔

جنوبی کوریا نے ایسا کیا کیا جو شمالی کوریا نہ کر سکا؟

ایک کم عرصے میں سامسنگ، ہنڈائی، کییا اور ایل جی جیسی بیسیوں بڑی کمپنیاں جنوبی کوریا میں بنیں۔ جنوبی کوریا میں صنعت کاری کا آغاز 1960 کی دہائی میں شروع ہوا جسے حکومت سے خوب مدد ملی۔ حکومت نے صنعت کاری کی زبردست پالیسیاں بنائیں اور درآمدات پر خوب توجہ دی۔ جنوبی کوریا نے جاپان کی ترقی سے متاثر ہو کر تعلیم اور بنیادی ڈھانچہ میں سرمایہ کر کے دنیا کی بارہویں بڑی معیشت بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ کہا جاتا ہے کہ تعلیم کے شعبے میں انقلاب اور تعلیم یافتہ آبادی جنوبی کوریا کی معجزاتی ترقی کی بنیاد ہے۔ مختصراً کہا جائے تو جنوبی کوریا نے اپنے لوگوں پر سرمایہ کاری کی اور شمالی کوریا نے اپنی عسکری قوت اور ڈکٹیٹرشپ کو دوام بخشنے میں ساری توانائیاں صرف کر دیں۔

کسی دور میں ہم بھی تائیوان، ہانگ کانگ، سنگاپور اور جنوبی کوریا جیسا ایشیائی ٹائیگر بننے کے خواب دیکھتے تھے پھر نجانے کیا ہوا کہ ایشیائی ٹائیگر بننا تو دور کی بات ہم اپنی بقا کی جنگ لڑنے پر مجبور ہو گئے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ چکا ہے مگر ہماری عسکری اور سیاسی قیادت کوئی انقلابی اقدامات کرنے اور مشکل فیصلے لینے کی بجائے اپنی ساری صلاحیتیں اس بات پر مرکوز کیے ہوئے ہیں کہ ملک کی بربادی کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے۔

جنوبی کوریا کی معاشی ترقی اگر عجوبہ ہے تو ہماری معاشی تنزلی بھی کسی کارنامے سے کم نہیں۔ جنوبی کوریا جب شمالی کوریا کے ساتھ جنگ میں الجھا ہوا تھا، 1952 میں لاہور میں ایک کمپنی شروع ہوئی جس نے سہراب سائیکل بنانا شروع کی۔ اس وقت بھی فارن ایکسچینج کا کرائسس چل رہا تھا جس کی وجہ سے امپورٹ نہیں ہو پا رہی تھی کچھ لوگوں نے اس کرائسس کو موقع جانا اور لوکل سائیکل اور پارٹس بنانا شروع کیے ۔ نیلا گنبد لاہور کی مارکیٹ سے شروع ہونے والی کمپنی نے پاکستان میں سائیکل انڈسٹری میں ایسا نام پیدا کیا کہ سہراب کا نام آتے ہی آج بھی ذہن میں سائیکل کا نقش ابھر آتا ہے۔ ایک وقت میں یہ انڈسٹری ملک کی 80 فیصد سائیکلیں سپلائی کرتی تھی پھر چائنہ کی بنی سستی اور معیاری سائیکلوں نے سہراب کا بیڑہ غرق کر دیا۔ اب تو کہا جاتا کہ سہراب سائیکل کو میوزیم میں رکھنا چاہیے تاکہ نئی نسل جان سکے کہ ان کے باپ دادا کی یادیں جڑی ہیں اس سائیکل سے۔

ہمارے بزرگ بتا سکتے کہ شروع میں جب ان کی ٹانگیں گدی پر بیٹھ کر پیڈل تک نہیں پہنچتی تھیں تو تب وہ جس انداز میں سہراب سائیکل چلاتے تھے اسے قینچی سائیکل کہتے تھے۔ ہمارے حکمران آج تک ملک ایسے ہی چلا رہے جیسے قینچی سائیکل چلائی جاتی ہے معلوم نہیں ہمارا سیاسی نظام کب گدی پر بیٹھ کر سائیکل چلائے گا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ 50 کی دہائی میں بنی سائیکل کی سہراب کمپنی حکومت کی مدد اور توجہ کی بدولت آج ہنڈائی یا کییا جیسی گاڑیاں بنا رہی ہوتی اور سینکڑوں نجی صنعت کار ملک میں حکومتی سر پرستی میں صنعتیں لگاتے اور ملکی معیشت درآمدات کے سہارے ترقی کی منازل طے کرتی مگر 80 کی دہائی میں جب ایشیا میں صنعتی ترقی عروج پر تھی اور جنوبی کوریا ایشیائی ٹائیگر بن چکا تھا ہم اس وقت جہاد کے نام پر افغانستان میں ڈالر اور نیکیاں کما رہے تھے اور امریکہ کی مدد سے اس روس کی پسپائی کے دعویدار بنے پھرتے تھے جس روس سے ہم آج سستا تیل اور گیس حاصل کرنے کو ترس رہے ہیں۔

ہماری معیشت کی سائیکل چڑھائی سے متواتر یوں اتر رہی جیسے اس کے کتے فیل ہو گئے ہوں اور نہ اترائی ختم ہو رہی اور نہ بریک لگ رہی۔ اب ہم دنیا کو کہہ تو رہے کہ ”آجا تے بہہ جا سائیکل تے۔“ مگر اب کوئی بھی برادر یا کافر ملک ہماری اترائی کی طرف گامزن معاشی سائیکل پر بیٹھنے کو تیار نہیں۔

سائیکل بنانے سے کاریں بنانے تک کا سفر کوئی مشکل نہیں تھا مگر ہماری ترجیحات ہی کچھ اور رہی ہیں۔ جنوبی کوریا جیسی ریاستیں ٹیکنالوجی کا سہارا لے کر آج اگر ایشیائی ٹائیگر بن چکی ہیں تو اس میں تعلیم، ہنر اور عوام کی لگن کا ہاتھ ہے۔ جنوبی کوریا کی حکومت نے بلا امتیاز اپنی عوام پر سرمایہ کاری کی ان کو تعلیم دی، ہنر سکھایا، صنعت کاری کو فروغ دیا، صنعتی شعبے سے منسلک طبقے کو سہارا اور سرمایہ فراہم کیا مگر شمالی کوریا کی آمرانہ حکومت نے عسکری قوت کو بڑھانے پر زور دیا اور خطرناک ہتھیاروں کی دوڑ میں آگے نکلنے کی تگ و دو میں عوام کی فلاح کو یکسر نظر انداز کر دیا۔

ہم اگر ایٹمی طاقت بن سکتے ہیں تو ایشیائی ٹائیگر بھی بن سکتے ہیں۔ اگر ہائی ٹیک میزائل بنا سکتے ہیں تو جنوبی کوریا کی طرح ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی بھی کر سکتے ہیں۔ مگر ہم نے تعلیم و ہنر کو حقیر جانا۔ پہلے بھٹو دور میں مسیحی مشنری

تعلیمی ادارے حکومتی تحویل میں لے کر ملک میں معیاری تعلیم کا راستہ روکا گیا اور اس کے بعد ضیاء دور میں تعلیمی نصاب میں شدت پسندی اور انتہا پسندی کو فروغ دے کر تعلیمی نظام

کو ایسا اپاہج کیا گیا کہ آج تک اس کا علاج نہیں ہو پایا۔
ابھی بھی وقت ہے کہ ہم سوچیں کہ ہماری ترجیحات جنوبی کوریا جیسی ہیں یا شمالی کوریا جیسی۔
اگر کچھ لوگ 1952 میں معاشی مشکلات کو موقع جان کر مقامی وسائل کے سہارے سہراب سائیکل کی صنعت شروع کر
سکے تھے تو کیا آج کے معاشی مسائل میں ایسا ممکن نہیں؟

میرا ذاتی خیال ہے کہ آج ایسا ممکن نہیں کیونکہ عسکری اور سیاسی قیادت کی ترجیحات اور عوام کی ذہن سازی کی بدولت معاشرہ فکری جمود کا شکار ہو چکا ہے یہ فکری جمود مردہ قوموں کی نشانی ہے۔ فکری جمود کو توڑنے کے لیے تعلیم کے شعبے میں انقلاب ناگزیر ہے مگر سائنسی علوم اور جدت پسندی کو ہم کفر گردانتے ہیں۔

اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ
”آئین نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں ”

فکری جمود کی وجہ سے ہی ہماری ٹیکنالوجی سہراب سائیکل سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ ہمارے فکری جمود کا استعارہ ایک سہراب سائیکل کی شکل میں آج بھی لاہور کے اسلام پورہ کی فضاء میں لٹک رہا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments