برلن اور جرمنی کے سیاحتی مقامات کی جھلکیاں


کوڈام پر، جو مغربی برلن کا مین بلیوارڈ ہے، سیر کرنے کا مزہ ہی نرالا ہوتا تھا اور ابھی بھی باعث تفریح ہوتا ہے۔ یہ مغربی برلن کے قیصر ولیم میموریل چرچ نامی لینڈ مارک سے شروع ہوتا ہے اور تقریباً 4 کلومیٹر سیدھی سڑک ہے۔ قیصر ولیم چرچ کو، جو کیتھولکس کے بعد ، عیسائیوں کے دوسرے بڑے فرقے پروٹیسٹنٹس کی عبادت گاہ ہے، دوسری جنگ عظیم میں بہت نقصان پہنچا تھا لیکن حکومت برلن نے اس کی تعمیر نو کی بجائے، اس کے ساتھ ایک نیا چرچ تعمیر کر دیا تھا اس لئے یہ میموریل چرچ کہلاتا ہے۔

میمیوریل چرچ کو جب برلن حکومت مسمار کرنا چاہتی تھی تو برلن کے باشندوں نے اجتماعی طور پر اس کو مسمار نہیں ہونے دیا سب لوگ اس کی مزاحمت میں چرچ کے آگے آ کر کھڑے ہو گئے تھے۔ یورپین سنٹر، جو چرچ کے ساتھ والی 20 منزلہ خوبصورت عمارت ہے۔ اور چند سال پہلے چرچ کے پاس 2 مزید بلند عمارتوں کی، تعمیر نو ہوئی ہے

یورپین سینٹر میں ایک 13 میٹر اونچی فلوٹنگ ٹائم پانی کی گھڑی بھی ہے جو تین منزلوں پر واقع ہے۔ اور ایک خاص میکینزم کے تحت چلتی ہے اور اس پر وقت کو دیکھنے کے لئے خاصا دماغ لگانا پڑتا ہے

برلن میں ایک نہایت خوبصورت پارک ہے جو برلن کے ایک شلوٹن برگ کیسل نامی تاریخی عمارت، تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کو دیکھنے کے لئے آنے والے سیاح، پارک کی سیر کرنے کے ساتھ ساتھ، اس کیسل یعنی محل کے اندر جا سکتے ہیں۔ اس محل کی تعمیر میں مجھے ہمارے تاج محل کی مماثلت نظر آتی ہے۔ کیونکہ یہ محل بھی تاج محل کی طرح، پروشین بادشاہت کے کنگ فریڈریک نے، اپنی بیوی شارلوٹے کے لئے بنوایا تھا۔ اس کے اندر آج بھی ملکہ شارلوٹے کی استعمال شدہ برتن اور دیگر گھریلو چیزیں برائے نمائش موجود ہیں۔

ویسے بھی 1989 یعنی اتحاد جرمنی سے پہلے تک اس محل کے آس پاس مصری عجائب گھر سمیت بہت سے دوسرے میوزیم اور سیاحتی عمارات تھیں۔ اتحاد جرمنی کے بعد برلن کے تمام میوزیم اور سیاحتی عمارات کو ایک میوزیم آئی لینڈ نامی جگہ میں اکٹھا کر دیا گیا ہے ۔ یہ میوزیم آئی لینڈ سابقہ مشرقی برلن اور موجودہ مٹے یعنی ”درمیان“ نامی ضلع میں واقع ہے

Kaiser-Wilhelm-Memorial-Church-Berlin

سگمنڈزھوف ہوسٹل کے پاس ہی ٹئیر گارٹن نامی پارک ہے۔ یہ پارک، براڈنبرگر گیٹ سے زولوگشر گارڈن تک اور سٹراسے دئیر سترہ جون نامی سڑک کے دونوں طرف پھیلا ہوا ہے۔ اس پارک میں مزید چھوٹے چھوٹے خوبصورت پارک ہیں جن میں انگلش گارڈن اور چھوٹا ٹئیر گارٹن بہت مشہور ہیں۔ اس پارک میں، ہم عموماً، بچوں کو ساتھ لے جاتے تھے جہاں پر سگمنڈزھوف ہوسٹل کی دوسری فیملیز بشمول ارشاد فیمیلی، جاوید بھائی بمعہ بچوں کے وہیں آ جاتے تھے اور خصوصاً گرمی کے موسم میں سارا دن وہاں گزارتے تھے اور شام کو اکٹھا کھانا پکانا ہوتا اور رات گئے واپسی ہوتی تھی۔ اس پارک کے درمیان میں مصنوعی طور پر پانی اکٹھا کیا ہوا ہے جس سے پارک کی خوبصورتی کو چار چاند لگے ہوئے ہیں۔

ضلغ ویڈنگ، لیوپولڈ پلاٹس اور 4 کلومیٹر لمبی ملر سٹراسے نامی سٹرک کی وجہ سے نہ صرف برلن بلکہ جرمنی میں بھی مشہور ہے۔ ملر سٹراسے ایک بارونق اور نہایت خوبصورت سڑک ہے۔ اس سڑک کے پاس ایک طرف شلر پارک اور دوسری طرف فوکس پارک رہبرگے واقع ہیں۔ رہبرگے پارک میں بھی لوگ کرکٹ فٹبال وغیرہ کھیلنے آتے ہیں۔ کرکٹ صرف ٹینس بال سے کھیلا جاتا ہے ۔ آج بھی ایک پاکستانی کرکٹ ٹیم کا دفتر اور ٹریننگ وغیرہ، اسی پارک میں ہوتی ہے۔ رہبرگے پارک سے متصل ایک پلؤٹسن سے نامی جھیل ہے جو برلن کی لینڈوے نہر سے نکلتی ہے۔ یہ لینڈوے نہر اس علاقے کے دو مشہور دریاؤں، ہاول اورسپرے کو ملاتی ہوئی برلن شہر کے اندر سے گزرتی ہے

ہم عموماً بچوں کو اس جھیل کے کنارے اور پارک میں واقع ایک خوبصورت پلے گراؤنڈ میں لے کر جاتے تھے۔ پلؤٹسن سے سے کچھ نازی ازم کی خوفناک یادیں جڑی ہوئی ہیں۔ یہاں پر ایک پلؤٹسن سے میموریل ہے۔ ہٹلر کے زمانے میں یہاں ایک جیل بھی تھی جہاں 1933۔ 1945 کے دوران 2880 لوگوں کو پھانسی دی گئی تھی۔ جن میں نازی حکومت کے مخالفین، عیسائیوں کے صؤگن جہوواہ نامی گروپ ممبران، اور ہٹلر کو 20 جولائی 1944 کو قتل کرنے کی سازش میں ملوث لوگ بھی شامل تھے۔

ہٹلر کو قتل کرنے کی سازش کا سرغنہ جنرل گراف سٹاؤفن برگ تھا۔ جس کا تعلق ایک نہایت معتبر جرمن نوابی فیمیلی سے تھا۔ اس نے 1943 میں بھی ہٹلر کو قتل کرنے کا پلان بنایا تھا لیکن کوشش، 20 جولائی 1944 کو، کی تھی لیکن بدقسمتی یا ہٹلر کی خوش قسمتی سے سازش ناکام ہو گئی تھی اور اسی رات یعنی 21 جولائی کو جنرل سٹؤفن برگ کو بینڈلر بلاک میں، جہاں موجودہ مرکزی وزارت دفاع ہے، پھانسی دے دی گئی تھی۔

Reichstag-Berlin

میرا، ٹیکنیکل یونیورسٹی برلن میں زندگی کا خوبصورت ترین وقت، یعنی 1977 سے 1990 تک گزرا ہوا ہے۔ اس لئے میں اس یونیورسٹی پربھی تحریر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ یہ یونیورسٹی، یکم اپریل 1879 کو پہلی دفعہ وجود میں آنے کے بعد مختلف ادوار اور مختلف ناموں سے مشہور جانے جاتے ہوئے، دوسری جنگ عظیم کے بعد ، ضلغ شارلوٹن برگ کی سٹراسے دئیر سترہ جون نامی سڑک پر واقع ہے۔ سترہ جون 1953 کو مشرقی برلن کے عوام نے مشرقی برلن پر روسی قبضے کے خلاف بغاوت کی تھی جس کو مشرقی جرمنی کی حکومت نے روسی فوج کی مدد سے کچل دیا تھا اور بہت سے جرمن لوگ مارے گئے تھے۔

اس تاریخ سے پہلے اس سٹرک کا نام برلن سٹریٹ تھا۔ یہاں ایک بات قابل تحریر ہے کہ ضلغ شارلوٹن برگ، 1920 میں گریٹ برلن بننے سے پہلے، برلن کی کچھ ضلغ مثلاً سپانداؤ، کؤپنک وغیرہ بشمول شارلوٹن برگ، انڈیپینڈنٹ شہر ہوتے تھے۔ 2001 کے ضلغ ریفارم کے بعد برلن کے سابقہ 23 ضلغ کو ملا کر ان کی تعداد، آئینی تقاضے کی وجہ سے، 12، کر دی گئی تھی۔ ٹیکنیکل یونیورسٹی برلن کی مین اینٹرنس کے سامنے دائیں طرف ایک شارلوٹن برگ گیٹ نامی بہت بڑا دروازہ ہے۔ جو اس وقت کی ضلغ ٹیر گارڈن اور شارلوٹن برگ کو تقسیم کرتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ بہت کم لوگ اس گیٹ کا نام جانتے ہیں جبکہ برلن کے لینڈ مارک برانڈن برگر گیٹ دنیا کی مشہور ترین عمارات میں سے ایک ہے۔

یونیورسٹی کے بیشتر انسٹیٹیوٹ، ضلغ شارلوٹن برگ کے ارنسٹ روئٹر نامی مشہور چوک کے اردگرد ہی واقع ہیں۔ ارنسٹ روئٹر برلن کے پہلے سوشل ڈیموکریٹ مئیر تھے۔ جو نازی جرمنی کے ظلم و زیادتی سے بچنے میں کامیاب ہو گئے تھے اور انہوں نے 1945 تک ترکی میں بطور پناہ گزین رہائش رکھی تھی۔ ہٹلر کی، این۔ ایس۔ ڈی۔ اے۔ پی، نازی پارٹی، صرف خالص جرمن نژاد، نیلی آنکھوں اور آرین نسل کے لوگوں کو زندہ رہنے کا حق دینا چاہتی تھی باقی سب انسانوں جیسے سوشل ڈیموکریٹ، سوشلسٹ، سنٹی، روما، اپاہجوں اور خصوصاً یہودیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتی تھی۔ اسی لئے برلن کے ایک اور مئیر اور جرمنی کے مشہور چانسلر ولی برانٹ نے بھی نازی پارٹی سے بچ کر ناروے میں پناہ لی تھی۔

ٹیکنیکل یونیورسٹی برلن میں 90 تعلیمی شعبوں میں 35570 طلباء (بمطابق ونٹر سمیسٹر 2019 / 20 ) تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور کام کرنے والوں کی مجموعی تعداد 7830 ہے جن میں 366 پروفیسر بشمول۔ 40 جونئیر پروفیسر ہیں۔ اس تعداد میں 181 پرائیویٹ لیکچرار، 2653 سائنسدان اور 2244 جاب کرنے والے طلبا شامل ہیں۔ برلن کی چار یونیورسٹیوں میں، تیسری بڑی یونیورسٹی، ٹیکنیکل یونیورسٹی برلن، جرمنی کی 20 ٹاپ یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہے۔ جولائی 2019 کو ٹیکنیکل یونیورسٹی برلن کو ایکسیلینس یونیورسٹی ڈکلیئر کیا گیا تھا۔ ایک اضافی معلومات یہ کہ ٹیکنیکل یونیورسٹی میں نماز پڑھنے کے لئے بھی ایک کمرہ مختص ہے

Victory-Column-Berlin

فاؤن آئی لینڈ، موروں کے جزیرے میں ہم کئی بار جا چکے ہیں۔ جہاں، برلن کی مشہور جھیل وان سے کے اندر ایک تاریخی عمارت اور اس سے ملحقہ ایک بہت بڑے پارک میں مور ہی مور ناچتے، سوتے، چیختے چلاتے پھرتے رہتے ہیں۔ ہم پہلی دفعہ 1980 میں جاوید بھائی اور شکیل اعجاز مرحوم کے ساتھ گئے تھے۔ مجھے یاد آ رہا ہے کہ ایک دفعہ قادر مع بیگم اور ارشاد فیمیلی مع بیوی بچے، اور ہماری فیمیلی وہاں پارک میں بیٹھ کر پکنک منا رہے ہیں۔

انٹرنیشنل کانگریس سینٹر یعنی آئی۔ سی۔ سی۔ جو برلن موٹر وے کے شروع میں ہے اور جس کو اب موجودہ برلن کی لوکل گورنمنٹ مسمار کرنا چاہتی ہے، اس کے بننے کے بعد 1979 میں سابقہ کانگریس ہال کی اہمیت، بطور کانگریسی نمائشوں کے لئے، ختم ہو چکی تھی۔ کیونکہ اس کو صرف کلچرل تقریبات کے لئے مختص کر دیا گیا تھا۔ لیکن آج بھی سابقہ کانگریس ہال کی بناوٹ کی وجہ سے برلن کے باشندے اس کو کستوری مچھلی یا سیپ کا کیڑا کہتے ہیں۔ برلن موٹر وے کے شروع میں، 8 ، 3 کلومیٹر تک کے فاصلے کو آوس، جو جرمن زبان میں آٹوموبائل ٹریفک اینڈٹیسٹنگ کا مخفف ہے، کہتے ہیں۔ اس پر 1921 سے 1940 تک کار ریس ہوتی تھیں اور آج بھی آوس کے مغربی طرف پرانے آڈیٹوریم کی جگہ دیکھی جا سکتی ہے۔

آج کے ڈجیٹل دور کے برعکس، اس دور میں ٹیلیکمیونیکیشن سے متعلقہ تمام معاملات میں ٹیلیویژن اور ریڈیو ٹاور کا استعمال ناگزیر ہوتا تھا۔ آئی۔ سی۔ سی عمارت سے ملحقہ برلن کا بہت بڑا نمائشی میلوں کے لئے فئیر گراؤنڈ ہے جس کے وسط میں مغربی برلن کا ریڈیائی ٹاور ہے۔ جس میں کافی اونچائی پر ایک شاندار کافے ریسٹورنٹ ہے جہاں بعض لوگ اپنے شادی کے فنکشن بھی مناتے ہیں۔ ایک خاص موقع پر، ہم بھی اوپر ریستوران میں گئے تھے اور ہائی ٹی سے لطف اندوز ہوئے تھے

برلن کے ضلع مارسان، جو اب ڈبل نام کے ساتھ مارسان۔ ہیلس دورف کہلاتا ہے، میں ایک نہایت خوبصورت پارک ہے جہاں پر اتحاد جرمنی کے بعد ایک وسیع و عریض باغات دنیا نامی عجوبہ میں تمام دنیاکے پھولوں اور پودوں کو ایک جگہ پر اکٹھا کیا گیا ہے۔ یہ پارک اتنا بڑا ہے کہ ا س پارک کے ایک کنارے سے دوسرے تک جانے کے لئے گونڈولہ لفٹ تعمیر کی گئی ہے۔ جاپانی باغ، چائنیز باغ وغیرہ کے علاوہ وہاں ایک نہایت پر کشش اورینٹل باغ بنایا گیا ہے۔

Unter-den-Linden-Berlin

جس کی دیواروں پر قرآنی آیات تحریر ہیں۔ مجھے وہ باغ دیکھ کر خیال آیا کہ اگر یہ آیات کسی پاکستانی عمارتی دیوار پر لکھی گئی ہوتیں تو پاکستان میں، طوفان برپا ہو جاتا۔ کیونکہ قرآنی آیات ہم مسلمانوں کے لئے بہت مقدس ہیں کہ وہاں جرمنی کی طرح ان کو آرٹ نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس پارک کا تین اطراف سے داخلہ ہے۔ ضلع ویڈنگ سے مارسان بذریعہ کار تقریباً 40 منٹ لگتے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ برلن میں ہاکی ٹورنامنٹ کے دنوں میں، پاکستانی کمیونٹی نے پاکستانی ہاکی ٹیم کو، پارک ان نامی ہوٹل میں، ایک پرتکلف دعوت دی تھی۔ اس ہوٹل کا نام مختلف ادوار میں بدلتا رہا ہے۔ 1970 میں تعمیر کردہ، 37 منزلہ، 1012 بستروں والے، 125 میٹر اونچے ہوٹل میں مشہور ایکٹر شاہ رخ خان نے، فلم ڈان کی شوٹنگ کے دوران بنگی جمپ کی تھی۔ میں ہاکی ٹیم کے کھلاڑیوں کو، ایک دوست کی کار میں ان کے ہوٹل سے پارک ان تک لے کر گیا تھا۔ یہ ہوٹل برلن کی مرکزی ضلغ مٹے میں واقع ہونے کی وجہ سے مختلف میٹنگ اور شادی فنکشن کے لئے بھی مشہور ہے۔

مغربی برلن کی 2 بڑی امتیازی نشانیوں ؛ میموریل چرچ اور براڈنبرگر گیٹ کے بعد ، 1957 میں بننے والی سابقہ کانگریس ہال کی عمارت، جسے 1989 سے ہاؤس آف ورلڈ کلچرز کہتے ہیں، ایک نہایت خوبصورت جگہ ہے جہاں مرحوم صابری نے ایک ہفتہ ور پروگرام میں، جس میں ساری دنیا سے فنکار آئے ہوئے تھے، حصہ لیا تھا۔ وہیں پر میں اپنے انڈین دوست روی کے ساتھ وجنتی مالا کا کلاسیکل ڈانس پروگرام دیکھنے بھی گیا تھا۔ مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ وجنتی مالا نے اپنے 5 سالہ بیٹے کو تماشائیوں سے متعارف کرایا تھا۔ کوئی بھی گروپ یا فرد، اس ہال کو، اپنے کلچر پروگراموں کے لئے کرائے پر لے سکتا ہے۔ یہاں ہم نے بہت سے پروگرام دیکھے ہیں۔ 2015 میں، انڈیا کی مشہور سنگر آشا بھوسلے نے بھی یہاں ایک زبردست پروگرام کیا تھا ہمارے بیٹے شایان نے اس کا انٹرویو بھی کیا تھا۔

ہم 2019، میں، شایان سے ملنے میونخ بھی گئے تھے۔ ہم برلن سے میونخ بذریعہ ہوائی جہاز گئے تھے۔ لیکن ہم نے میونخ ائرپورٹ پر ایک کار کرائے پر لی تھی تاکہ ہمیں میونخ میں سیر وتفریح کے لئے ٹرانسپورٹ پروبلم نہ ہو۔ وہاں پہنچ کر شایان کے ساتھ، میونخ کے مشہور سیاحتی مقامات پر گئے تھے۔ میں اپنے میونخ میں طالبعلمی کے زمانے کی جگہوں پر بھی گیا تھا لیکن سب کچھ بدل چکا تھا۔ ظاہر ہے کہ 50 سال پہلے والے میونخ اور 2019 والے میونخ میں بہت فرق واضح تھا اور میں بہت سی جگہیں بھی بھول چکا تھا۔ میونخ سے برلن واپسی پر شایان بھی ہمارے ساتھ ہو لئے۔ میونخ ائرپورٹ پر کار واپس کرنے کے بعد ہم تینوں لفت ہنزا ائر لائن سے برلن واپس پہنچ گئے تھے۔

زندگی کے اس طویل سفر میں، بہت سے ایسے لمحات آئے تھے جب دل کرتا تھا کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کسی آئی لینڈ میں گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کر لی جائے۔ لیکن ”ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے“ کے مصداق، یہ ہو نہیں سکتا تھا۔ فیمیلی، بزنس کو یک دم چھوڑنا ممکن نہیں تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد میرے پاس نسبتاً زیادہ فارغ وقت ہوتا تھا۔ ہم ویک اینڈ پر عموماً، سارا دن برلن شہر سے باہر گزارتے تھے۔ ایک پنتھ دو کاج۔ لانگ ڈرائیو کے شوق کے ساتھ ساتھ نئی جگہیں بھی دیکھنے کو ملتی تھیں۔ جن میں پوٹسدام، وردا، وائی مار، اورانین برگ اور شویرین قابل ذکر ہیں۔ ان جگہوں کے علاوہ بھی بہت سے ایسی خوبصورت علاقے دیکھنے کو ملے ہیں

brandenburg-gate

مجھے پوٹسدام جانے کا کافی دفعہ اتفاق ہوا ہے۔ لیکن مجھے، 2011 کا، پاکستان سے برلن آئے ہوئے رشتہ داروں کے ساتھ، مشترکہ طور پر سینسوسی پارک میں جانا اور سیر کرنا یاد ہے۔ یہ ایک نہایت خوبصورت، قابل دید، بہت بڑا اور تین لیول پر محیط پارک پوٹسدام کا لینڈ مارک کہلاتا ہے۔

اس پارک کے اندر داخل ہونے سے پہلے ایک بہت بڑی پرانی تاریخی ونڈ مل یعنی ہوائی چکی ہے۔ پروشیا کے بادشاہ، فریڈرک ولیم اول کے دور میں لگائی گئی، ہالینڈ ملوں کی طرز پر بنائی ہوئی یہ مل، مختلف ادوار میں بوجہ جنگی تباہی، بار بار تعمیر ہوتی رہی ہے۔ 1995 سے یہ پبلک کے لئے کھول دی گئی ہے حتیٰ کہ یہاں کے آٹے کی روٹی بھی، سینسوسی پارک میں خریدی جا سکتی ہے۔ دوسرا، سیسیلین نامی مشہور پارک پوٹسدام کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتا ہے۔ پوٹسدام میں، پروشیا کے دارالحکومت ہونے کی وجہ سے نہایت خوبصورت عمارتیں تعمیر کی گئی تھیں۔ پوٹسدام جرمنی کے صوبے برانڈن برگ کا دارالحکومت بھی ہے

ایک ویک اینڈ پر، صرف ایک دن کے لئے، ہم جرمنی کے، مکلن برگ ویسٹرن پومرینیا کے دارالحکومت شویرین بذریعہ ٹرین گئے تھے۔ شویرین شہر میں، قلعہ شویرین، جو ایک خوبصورت قلعی جھیل پر 1160 میں تعمیر کیا گیا تھا، مکلن برگ کے نوابوں کی رہائش گاہ ہوتی تھی۔ اس شہر میں بھی ہمیشہ کی طرح ایک ویگن نما چھوٹی سی بس میں بیٹھ کر شہر کی سیاحت کی۔ جرمنی کے تمام صوبائی دارالخلافوں میں، یہ شہر سب سے چھوٹا ہے۔ ہم صبح سویرے برلن مین ریلوے سٹیشن سے یہاں آئے تھے اور آخری ٹرین سے واپس برلن پہنچے تھے۔

پوٹسدام سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر وردا نامی چھوٹا سا خوبصورت شہر ہے جو موسم گرما میں پھولوں کی نمائش کے لئے ساری جرمنی میں مشہور ہے۔ وہاں ہم اپنی کار میں پھولوں کو دیکھنے گئے تھے۔ یہاں ایک جرمن زبان کی بات تحریر کرنا چاہتا ہوں۔ جب کسی لفظ کے آخر میں ”آر“ لکھا ہوتا ہے تو وہ بولا نہیں جاتا۔ جیسے یہ شہر لکھنے میں ”وردر“ ہے۔ لیکن وردا بولتے ہیں۔

میں، برلن سے تقریباً 80 کلومیٹر دور، یہودیوں کی نسل کشی کے لئے بنائے گئے، ساکسن ہاؤسزن نامی کنسنٹریشن کیمپ کی مناسبت سے مشہور شہر، جسے اورانین برگ کہتے ہیں، اکیلا 2۔ 3 بار جا چکا تھا۔ لیکن کچھ مہمانوں کے ساتھ 2011 میں پھر جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں موجود میوزیم میں ہالوکاسٹ کی باقیات کی تصویریں دیکھ کر دل دہل اٹھتا ہے۔ یہ درندگی، جو ہٹلر کی نازی جرمنی نے یہودیوں کے ساتھ کی تھی، ایک رحم اور نرم دل انسان زیادہ دیر تک دیکھنے کی ہمت نہیں کر سکتا۔

6 ملین یہودیوں کی نسل کشی کے لئے، نازی پارٹی کے تحت، ایک سسٹم کے ذریعے، جرمنی کے بہت سے علاقوں میں، 1933 سے 1945 تک، 42000 جیلیں بنائی گئی تھیں۔ ان قیدیوں میں سے پھر بہت سے نازی مخالف، کمیونسٹس، سوشلسٹس، سوشل ڈیموکریٹس، سنٹی روما، ہم جنس اور اپاہجوں کو ایسے کیمپوں، جنیں گیس چیمبر بھی کہتے ہیں، میں بھیجا جاتا تھا جہاں اذیت ناک موت ان کا انتظار کرر ہی ہوتی تھی۔

گوئٹے اور شلر کے تاریخی اور جرمنی کے مشہور شہر وائی مار جانے کے لیے، بھی ایک پورے دن کا پلان بنایا گیا تھا۔ ریل کا سفر انتہائی خوش گوار اور کسی قسم کے تناؤ کے بغیر ہوتا ہے اس کے برعکس بذریعہ ذاتی کار، بہت سی باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سفر کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے ہم وائی مار بھی، برلن کے خوبصورت مین ریلوے اسٹیشن سے وہاں پہنچے۔ نسبتاً چھوٹا شہر ہونے کی وجہ سے تمام شہر، پیدل چل کر دیکھا تھا۔ خوبصورت تاریخی عمارتوں کے علاوہ شلر اور گوئٹے کی وہ تمام جگہیں، جہاں یہ دونوں، نہ صرف جرمنی کی بلکہ مشہور زمانہ ثکافتی شخصیات، نے اپنی زندگی گزاری تھی، دیکھنے کو ملی تھیں۔ وائی مار، جرمنی کے صوبے تھیورنگ کا چوتھا بڑا شہر ہے۔

وائی مار شہر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ 1919 سے 1933، یعنی پہلی جنگ عظیم کے خاتمے سے اقتدار ہٹلر تک کے دورانیے کی جرمن حکومت کو وائی مارا ریپبلک کہا جاتا ہے۔ کیونکہ پہلی دفعہ نیشنل اسمبلی کا اجلاس اس شہر میں ہوا تھا۔

برلن میں تین رصدگاہیں یعنی آبزرویٹری ہیں جہاں پر سیاروں کو دیکھنے کے لئے فلکیاتی مشینیں نصب ہیں۔ مغربی برلن کے سابقہ ضلع سٹیگلٹس، جو اب سٹیگلٹس۔ سیلندورف ڈبل نامی ضلع کہلاتا ہے، میں ایک بہت بڑا پلانیٹاریم ہے جہاں میں متعدد بار جا چکا ہوں۔ سابقہ مشرقی برلن کے ضلع پرینسلاؤر برگ کے پلانیٹاریم میں، سیاروں کے متعلق، ڈاکومنٹری انجوائے کر چکا ہوں۔ ضلع تریپتور، جس کا موجودہ ڈبل نام تریپتور۔ کؤپنک ہے، میں واقع تیسری مشہور آبزرویٹری میں، بمعہ فیمیلی گئے تھے۔ یہاں کھلے پارک میں ایک اونچے چبوترے پر فلکیاتی مشین لگی ہوئی ہے۔ جہاں ہم نے ایک سپیشل سیمینار میں دلچسپ اور نئے نئے سیاروں کو دوربین کی مدد سے دیکھا تھا۔

یہ آبزرویٹری ایک بہت بڑے تریپتور پارک میں واقع ہے جہاں ایک مزید قابل دید، برلن میں مشہور زمانہ، رشین یادگاری فرضی مقبرہ ہے جس کا افتتاح، 80 ہزار رشین سپاہیوں کی تعظیم میں 8 مئی 1949 کو کیا گیا تھا۔ یہاں 7000 رشین سپاہی مدفون ہیں۔ برلن میں مزید تین ایسی یادگاری فرضی مقبرے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مزید 13 ہزار سپاہی کسی خاموش، انجانی جگہ پر بھی مدفن ہیں۔ ہر سال 9 مئی کو 1945 کے جنگی خاتمے کو منانے کے لئے، ان یاد گاروں پر اتنے زیادہ پھول چڑھائے جاتے ہیں جو کسی دوسرے موقع پر نظر نہیں آتے ہیں۔

گیارہ لاکھ آبادی والے شہر، لینن گراڈ، جس کا اب پھر پرانا نام سینٹ پیٹرزبرگ ہے، کا جرمن فوجوں نے کافی دنوں تک محاصرہ کیے رکھا تھا، جو جنگ کے خاتمے پر اٹھایا گیا تھا۔ ایک یاد گار، برلن کے شمال میں ایک دور دراز واقع بکھ یعنی بک نامی علاقے میں، اور دوسری پانکو ضلع میں ہے۔ جبکہ تیسری یادگار برلن کے عین مرکز ضلع ٹیر گارڈن، موجودہ مٹے میں، برینڈن برگر گیٹ کے پاس ہے۔

یہاں ایک سیاسی آگاہی قابل تحریر ہے کہ ویسے تو رشین کی حکومتی صوابدید صرف مشرقی برلن پر ہی تھی۔ لیکن استثنائی طور پر، مغربی برلن میں واقع، اس تیسری یادگار کی انتظامی معاملات، رشین حکومت کے پاس تھے اور یہاں پر بکنگھم پیلس کی طرح رشین سپاہیوں کی تعیناتی اور روزانہ کی بنیاد پر گارڈ کا تبادلہ، سیاحوں کے لئے ایک قابل دید نظارہ ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ دوسری استثناء، رشین حکومت، کی، تینوں مغربی ”حاکم“ اتحادیوں کے ساتھ، مغربی برلن میں واقع، اتحادی ائر کنٹرول کونسل، میں شمولیت تھی

ایک دفعہ میں، فیمیلی کے ساتھ کار چلا کر جرمنی کے صحت افزا مقام ہارس کے خوبصورت شہر گوسلار گیا تھا۔ 3۔ 4 دنوں کے لئے ہوٹل میں بکنگ کروائی تھی۔ گوسلار شہر کے قدیمی علاقے میں بہت خوبصورتی ہے۔ اکثریتی یورپین سیاح اس علاقے کے پہاڑوں پر سکیئنگ کرنے جاتے ہیں۔ گوسلار برلن سے تقریباً 260 کلومیٹر اور اڑھائی گھنٹے کی کار ڈرائیو پر ہے۔ نہ تو جاتے ہوئے سفر کا دورانیہ اور نہ ہی وہاں کے قیام کے واقعات یاد ہیں۔ البتہ ہارس سے برلن واپسی پر ایک نہایت ناخوشگوار واقعہ پیش آیا۔

موٹر وے پر کار چلاتے ہوئے موٹر آئل ختم ہو گیا۔ میں نے سوچا تھا کہ آنے والے پٹرول سٹیشن تک کار چلانے میں کوئی پروبلم نہیں ہو گی لیکن میرا اندازہ غلط نکلا اور موٹر وے پر ہی کار نے چلنے سے انکار کر دیا تھا۔ موٹر وے کے پاس ایک گاؤں میں، ایک جرمن آٹو ورکشاپ سے رابطہ کیا تو ورکشاپ کے مالک نے بھاری قیمت کے عوض ہماری کار کو اپنی کار کے پیچھے باندھ کر برلن میں رویال کار ورکشاپ تک پہنچایا تھا۔ ہم بذریعہ ریل گاڑی برلن پہنچے تھے۔ مرسیڈیز گاڑی کا انجن بالکل تباہ ہو چکا تھا۔ انجن کی مینٹیننس پر بھی بہت پیسے لگے تھے۔

یہاں ایک بات یاد آئی ہے کہ اتحاد جرمنی تک، انڈر گراؤنڈ ٹرین نمبر 6 اور 8، مغربی برلن کے آخری اسٹیشنوں کے بعد ، جب مشرقی برلن کی حدود میں داخل ہوتی تھیں تو ان کو، مشرقی برلن کے بند کیے گئے اسٹاپوں پر رکنے کی اجازت نہیں تھی جب تک یہ ٹرینیں مغربی برلن کی سرحد، ضلغ کرؤز برگ، میں داخل نہیں ہوتی تھیں۔

پوٹسداما پلاٹس کے پاس چند ایک نئی بلند عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں۔ 1996 میں جرمنی کی مرسیڈیز کار کمپنی نے 85 میٹر اونچاڈیبیز ٹاور بنایا جسے اب ایٹریم ٹاور کہتے ہیں۔ 103 میٹر اونچے کولہوف نامی ٹاور میں یورپ کی تیز ترین لفٹ لگی ہوئی ہے۔ جرمن ریلوے ٹاور کے ساتھ ایک بائس ہائیم نامی ٹاور بھی نیا بنا تھا۔ اس کے قریب ایک نہایت خوبصورت مال آف برلن ہے جب کہ سڑک کے نیچے تہ خانے میں ایک مزید شاپنگ مال بھی ہے۔

پوٹسداما پلاٹس کا علاقہ تاریخی اعتبار سے معلومات کا خزانہ ہے۔ لیکن میں تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔ اس علاقے کی اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی تصاویر سے موجودہ پوٹسداما پلاٹس کا موازنہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اتحاد جرمنی کے فوراً بعد یہاں کی تعمیر نو شروع ہو گئی تھی۔ کافی سالوں سے یہاں مشہور زمانہ برلن فلم فیسٹیول لگتا ہے۔ جہاں ہمارے بچے ہمیشہ جاب بھی کرتے تھے۔

پوٹسداما پلاٹس میں ٹاور کی تعمیر کے موقع پر پہلے سے موجود، ایک ایسپلاناڈے نامی عمارت رکاوٹ بن رہی تھی۔ تو برلن کے عوام کو ایک کبھی نہ بھولنے والا نظارہ دیکھنے کو ملا۔ اس عمارت کو اپنی اصلی حالت میں بنیادوں سمیت، کرین کے ذریعے اٹھا کر چند میٹر دور لے جایا گیا تھا۔

برلن کے مشہور زمانہ پوٹسداما پلاٹس یعنی پوٹسداما ایوینیو، 18 ویں صدی سے، مختلف ادوار، مختلف ناموں اور عظیم جنگوں کے تجرباتی واقعات کے ساتھ، اب بھی اپنی آب و تاب کے ساتھ موجودہ جگہ پر واقع ہے۔ دیوار برلن کی تعمیر سے اتحاد جرمنی تک یہ مغربی اور مشرقی برلن کے درمیان ایک سرحدی علاقہ تھا۔ لیکن یہاں سے کسی قسم کی کوئی آمدو رفت نہیں تھی کیونکہ دیوار برلن، ضلغ کرؤز برگ سے شروع ہو کر، سابقہ آنہالٹا بان ہوف نامی مشہور ریلوے اسٹیشن سے ہوتی ہوئی، برانڈن برگر گیٹ تک جاتی تھی۔

یہاں پر بھی دیوار برلن کی باقیات دیکھنے کو ملتی ہیں۔ آج بھی، ایسٹ برلن ریلوے اسٹیشن، جو سابقہ مشرقی برلن کے فریڈرک ہائین، اور موجودہ، فریڈرک ہائین۔ کروئز برگ نامی ضلع، کے پاس 1360 میٹر لمبی دیوار برلن کی باقیات دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جہاں سیاح، دیوار برلن پر کی ہوئی، نہایت خوبصورت پینٹنگ دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ فریڈرک ہائین میں ایک فوکس پارک نامی بہت بڑا اور خوبصورت عوامی پارک ہے۔ جس کے شروع میں ایک پریوں کی کہانی نامی چشمہ ہے جہاں نوجوان جوڑے جاتے ہیں اور موج مستی کرتے ہیں۔ یہ پارک سیر و تفریح کے لئے ایک اعلیٰ جگہ ہے۔ اس کے پاس ایک قدمس نامی عربین ریستوران میں ہم جاتے رہتے ہیں۔ ویسے تو اور بھی بہت سے مشہور ترکش، بوسنیا کے، اور عربی ریستورانوں میں ہمارا، خصوصاً اس وقت جانا ہوتا ہے جب کوئی باہر سے ہم سے برلن میں ملاقات کے لئے آتا ہے۔

مال آف برلن سے چند میٹر کے فاصلے پر وہ جگہ بھی دیکھنے کو ملتی ہے جہاں ہٹلر نے برلن کی پسپائی کے بعد خود کشی کی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تاریخی جگہ رہائشی عمارتوں میں ہے۔ اور چند سال پہلے تک اس بنکر یعنی حفاظتی تہ خانے کا کسی کو بھی علم نہیں تھا۔ اور آج بھی یہ، اکثریتی سیاحوں کو جان بوجھ کر نہیں دکھایا جاتا۔ صرف ایک چھوٹی سی تختی پر یہ تاریخی حقائق تحریر ہیں۔ یہاں ساتھ ہی ہولوکاسٹ میموریل ہے۔ برانڈ برگر گیٹ کے پاس ہی برطانوی، فرانسیسی، امیریکن اور روسی سفارت خانے واقع ہیں۔

ایک دفعہ میں نے، کویت سے یہاں سیاحتی دورے پر آئی فیمیلی کو، یہودیوں کے ہولوکاسٹ میموریل کے متعلق بتایا تو فیمیلی نے ناگواری سے کہا تھا۔ ”مائی فٹ“ برلن کے تاریخی اور سیاحی مقامات میں سے ایک سیگے سوئیلے نامی نہایت خوبصورت چبوترہ، جو برلن کے ایک مصروف ترین چوراہے کے درمیان میں واقع ہے۔ اس کی چوٹی پرایک وکٹوریہ نامی، پری نما، سنہری رنگوں میں لیس مورتی ہے۔ اس گولڈنے ایلزے مورتی کے پاس ایک جنگلہ ہے جس پر پہنچنے کے لئے 250 کے قریب سیڑھیاں چڑھنا پڑتی ہیں۔ کوئی لفٹ نہیں ہے

اس مورتی کا کچھ حصہ کافی سالوں تک، فرانسیسی حکومت کے پاس تھا اور جس کو فرانسیسی صدر متراں نے واپس کیا تھا۔ اس چبوترے کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ یہ مورتی بمعہ جنگلہ، پہلے جرمنی کے فیڈرل اسمبلی ہال، ’رائخس تاگ‘ کے قریب تعمیر کی گئی۔ لیکن ہٹلر کے حکم پر، 1938 میں اس کو وہاں سے اٹھوا کر موجودہ جگہ پر منتقل کیا گیا تھا

برلن کے دوسرے مشہور تاریخی نشانوں میں سے، رائخس تاگ، جہاں جرمنی کے مرکزی پارلیمانی اراکین، اس ملک کے قوانین بناتے ہیں، بھی ایک شاندار اور قابل دید عمارت ہے۔ پاؤل والوٹ نے 10 سال کے عرصے میں، 1894 میں اس کی تعمیر مکمل کی تھی۔ اسی دور میں سب چھوٹی چھوٹی جرمن ریاستوں نے مل کر جرمن مملکت کی بنیاد ڈالی تھی۔ دوسری جنگ عظیم میں اس عمارت کو بھی برلن کی دوسری عمارتوں کے ساتھ ساتھ بہت نقصان پہنچا تھا۔ آنجہانی کرسٹو اور جینی کلاؤڈے آرٹسٹ جوڑے نے دنیا کی مختلف جگہوں اور عمارتوں کی طرح، 1995 میں، پوری رائخس تاگ عمارت کو باہر سے پلاسٹک میں لپیٹ کر ایک عجیب سحر انگیز ماحول پیدا کیا تھا۔ جسے انسان الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ اس لپٹے ہوئے اسمبلی ہال کی عمارت کو 24 جون سے 7 جولائی تک دیکھا جا سکتا تھا۔ نہ صرف برلن میں رہنے والے، بلکہ برلن کی سیاحت پر آئے ہوئے کسی بھی باشندے نے، اس کو دیکھنا، مس نہیں کیا۔ اس کے بعد مشہور زمانہ نارمن فورسٹر نے 1999 میں اس کی تعمیر نو کی تھی جس میں پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر سے ایک گلاسی چبوترا بنایا گیا۔ سیاحوں کے لئے یہاں اوپر کھڑے ہو کر نیچے، ایوان کا نظارہ نہایت قابل دید ہوتا ہے۔

سیگے سوئیلے، گروس سٹرن یعنی بڑا ستارہ نامی چوراہے پر واقع ہے۔ یہاں سے گزرنے والی شمالی روڈ صدارتی محل سے ہوتی ہوئی ایک تاریخی جیل تک جاتی ہے جو دراصل ایک زیرالتوا تحقیقات کی جیل ہے جہاں اتحاد جرمنی کے بعد مشرقی جرمنی کے تمام سرکردہ لیڈروں کو رکھا گیا تھا اور بعد میں ان پر ہیومن رائٹس الزامات کے تحت مقدمات بھی بنے تھے۔ اس سے ملحقہ عمارت میں برلن کی کریمنل کورٹ بھی ہے

جنوبی روڈ مغربی برلن کے ڈاؤن ٹاؤن، جہاں برلن زوو، کوڈام وغیرہ واقع ہیں، جاتی ہے۔ ارنسٹ روئٹر پلاٹس سے شروع ہونے والی، سٹراس دئیر 17 جون نامی سڑک، براڈنبرگر گیٹ تک جاتی ہے۔ گروس سٹرن سے برانڈن برگر گیٹ تک اس سڑک پر عموماً، فٹ بال ٹورنامنٹ، میراتھون، لو پریڈ وغیرہ جیسے فیسٹیول کے موقع پر پبلک ویونگ کا انعقاد ہوتا رہتا ہے۔ برازیل میں ہونے والے کارنیوال کے طرز پر، برلن کی ضلغ کروئز برگ میں کارنیول دئیر کلچر کی پریڈ بہت مشہور ہے۔

کروئز برگ ضلع کا نام، وکٹوریہ پارک میں واقع ایک چھوٹی سی پہاڑی، کروئز برگ کی مناسبت سے ہے۔ اس خوبصورت پارک میں ایک نہایت خوبصورت آبشار کے ساتھ ایک چھوٹا سا زو، یعنی چڑیا گھر بھی ہے۔ اس کے علاوہ وہاں پر انگوروں کی بیلیں بھی ہیں جن سے ہر سال وائین بھی کشید کی جاتی ہے جو صرف اس ضلع کی انتظامیہ کے لئے مختص ہے

ہمارے گھر کے پاس ایک گذنڈ برنن سینٹر نامی بہت بڑا شاپنگ مال ہے۔ جس کے پاس سیاحوں کے لئے ایک نایاب برلن انڈر ورلڈ نامی، انڈر گراؤنڈ سرنگ ہے جو دوسری جنگ عظیم کے دوران ہمبولٹ ہائین نامی پارک میں واقع مشہور بنکر یعنی حفاظتی پناہ گاہ سے جا ملتی تھی۔ اب سیاحوں کے لئے صرف اس سرنگ میں جنگی باقیات دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اور ہمیشہ کے لئے بند کیے گئے بنکر کے اوپر ایک چھوٹی سی مصنوعی پہاڑی بنا دی گئی ہے جہاں لوگ تفریح اور پکنک منانے کے لئے جاتے ہیں۔ اس پہاڑی کے ایک طرف ایک مصنوعی دیوار پر اوپر چڑھنا، یعنی کلائمب گیم کھیلنا بھی کچھ لوگوں کا محبوب مشغلہ ہے۔ موسم گرما میں اس پارک میں ایک روزن گارڈن نامی حصے میں مختلف گلاب کے پھولوں کی وجہ سے ایک پرسکون ماحول ہوتا ہے۔

گزنڈ برنن کے متعلق قابل تحریر یہ ہے کہ 1760 میں تعمیر شدہ، لوئیزن نامی حمام کو گذنڈ برنن یعنی صحتی چشمہ کہا جاتا تھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments