گینگ ریپ، تشدد اور سمگلنگ کا جھوٹا الزام جس نے ایک پاکستانی سمیت کئی افراد کی زندگی اندھیر کی


ایلینور ولیمز
محمد رمضان سمیت چند پاکستانی اور ایک سفید فام برطانوی شہری گینگ ریپ، تشدد اور انسانی سمگلنگ کے جھوٹے الزامات کا شکار ہوئے۔ اگرچہ اب تین برس بعد عدالت نے انھیں بری تو کر دیا ہے لیکن اس الزام نے ان کی زندگیاں بدل کر رکھ دی ہیں۔

یہ لگ بھگ تین سال پہلے کی بات ہے جب ایلینور ولیمز نامی لڑکی نے الزام عائد کیا کہ وہ ایک گرومنگ گینگ (کم عمر لڑکیوں کو جنسی استحصال کی غرض سے استعمال کرنے والے گروہ) کا شکار بنیں اور یہ کہ اُن کے ساتھ متعدد بار ریپ کیا گیا۔

لڑکی کی طرف سے یہ الزام سامنے آنے کے بعد اُن کے آبائی شہر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور وہاں احتجاج ہوئے تھے۔ لیکن بعد میں ایلینور ولیمز کو جھوٹ بولنے، عدالت کو گمراہ کرنے اور پوری کہانی خود سے گھڑنے جیسے مختلف الزامات میں مجرم قرار دیا گیا۔

تین سال قبل ایلینور ولیمز نے سوشل میڈیا پر جو اپنی خوفناک کہانی سنائی تھی وہ تیزی سے وائرل ہو گئی۔

اُن کی عمر اس وقت 19 سال تھی اور اس نوجوان لڑکی نے دعویٰ کیا تھا کہ اسے انگلینڈ کے شمالی علاقے میں ’برسوں تک‘ جنسی تعلقات کے لیے ایک ایشیائی گینگ (جس میں پاکستانی نژاد افراد بھی شامل تھے) نے استعمال کیا جس نے انھیں منشیات کی لت لگائی، ان پر تشدد کیا، انھیں بلیک میل کیا اور انھیں ہتھیاروں سے ڈرایا دھمکایا۔

اس کہانی نے کیمربریا میں ان کے آبائی علاقے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، پولیس پر دباؤ ڈالا گیا اور انصاف کے حصول کے لیے بہت سے افراد متحرک ہوئے۔

مگر اب ایک عدالت نے قرار دیا ہے کہ 19 سالہ لڑکی کے جنسی استحصال کی غرض سے بیرونِ ملک سمگل ہونے کی کہانیاں اور اُن کے زخمی ہونے کی تصاویر سب جھوٹ تھیں۔

ان کے فیس بک اکاؤنٹس پر شیئر کی جانے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا تھا کہ وہ زخمی ہیں اور ان تصاویر کو ہزاروں افراد نے دیکھا تھا۔ وہ تمام تصاویر اصلی اور زخم اصلی تھے مگر وہ زخم اپنے چہرے پر ایلینور ولیمز نے خود ہتھوڑی کے وار کر کے ڈالے تھے۔

اپنے یہ جھوٹ فیس بک پر پوسٹ کرنے سے مہینوں قبل وہ پولیس کو ایک اور بھی تفصیلی کہانی سنا رہی تھیں، جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ درحقیقت وہ گروہ جس کا وہ شکار ہوئیں وہ ’ریپسٹ، جنسی سمگلر اور مسلح قاتل تھے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ان میں سے ایک شخص نے انھیں ایمسٹرڈیم سمگل کیا تھا، انھیں ایک جسم فروشی کے اڈے پر کام کرنے پر مجبور کیا اور انھیں غلاموں کی نیلامی میں بیچ دیا تھا۔

مگر ان کے فون کالز اور بینک ریکارڈز سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دوران وہ بیرو میں ہی موجود تھیں اور شاپنگ اور بار بی کیو کرنے میں مشغول تھیں۔

ایک اور جھوٹ بولتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ایک ایشیائی منشیات فروش نے انھیں ایک سے زیادہ مردوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم نہ کرنے پر مارنے اور سمندر میں پھینکنے کی دھمکی دی تھی۔

الینورز ولیمز نے دعویٰ کیا کہ انھیں بلیک پول میں ایک ہی رات میں متعدد مردوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کیا گیا، لیکن سی سی ٹی وی فوٹیج سے ثابت ہوا کہ وہ شاپنگ کر رہی تھیں اور انھوں نے وہ رات اپنے ہوٹل کے کمرے میں اکیلے گزاری تھی۔

انھوں نے جن لوگوں پر الزام لگایا تھا ان میں سے کچھ کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ایک شخص پر فرد جرم بھی عائد کی گئی تھی اور انھیں جیل میں 10 ہفتے کے ریمانڈ پر بھیجا گیا تھا۔ تاہم سب کا کہنا ہے کہ الینورز کے بے بنیاد الزامات سے ان افراد کی زندگیاں برباد ہو گئی ہیں۔

اب اس کے جھوٹے دعوؤں کے منظر عام پر آنے کے تین برس بعد ایک عدالت نے 22 سالہ ولیمز کو 22 مختلف الزامات میں گمراہ کرنے کا مجرم پایا ہے۔

ایلینور ولیمز

عدالت کو بتایا گیا کہ انھوں نے اپنے چہرے اور جسم پر ہتھوڑی کی مدد سے خود چوٹیں لگائیں

پاکستانیوں پر الزام

یہ ایک غیر معمولی کیس تھا۔ کمبریا میں 2020-21 میں، قانون کو گمراہ کرنے کے 46 جرائم رپورٹ ہوئے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں ریپ، جنسی حملوں اور سمگلنگ کے 1,177 واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔

یہ مارچ 2020 کی بات ہے جب کیمبریا کے مغربی سرے پر واقع چھوٹا سا شہر بیرو کورونا وائرس کی پہلی لہر کے لاک ڈاؤن کے دوران زندگی کا احساس پیدا کرنے کی کوشش میں تھا۔

یہ لوگ زیادہ تر گھروں میں بند تھے اور ان میں سے زیادہ تر کی توجہ سوشل میڈیا پر تھی۔ ایسے میں الینورز ولیمز کی جانب سے پوسٹ کردہ مواد کو جس نے بھی دیکھا پریشان ہو گیا۔ جس کے بعد بہت سے لوگ مشتعل ہو گئے۔ 

ان کے مقدمے کی سماعت متعدد گواہوں سے ہوئی جنھوں نے بتایا کہ بیرو میں ’ہر کوئی‘ اس کی کہانی سے کیسے واقف تھا۔

انھوں نے کہا کہ ان کے ساتھ بدسلوکی کرنے والے ’زیادہ تر پاکستانی مرد تھے‘ جو ’بُرے لیکن چالاک آدمی‘ تھے۔

لیکن ولیمز نے اپنی کہانی کو مزید بڑھاتے ہوئے لکھا کہ ’میں بیرو میں اکیلی لڑکی نہیں ہوں جس کے ساتھ یہ سب کچھ ہوا ہے یا جو اس سب سے گزری ہے۔‘

ان کے جھوٹ سے انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کو بھی تحریک ملی۔

اس کے بعد بیرو میں ایسے احتجاجی مظاہرے ہوئے جہاں لوگ ریٹیل پارکس میں سماجی فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے ریلیوں کے لیے اکٹھے ہوئے اور انھوں نے اپنی کاروں میں بیٹھ کر ایک ساتھ ہارن بجائے تھے۔

کچھ لوگ اس سے بھی آگے بڑھ گئے اور بیرو کے پولیس سٹیشن اور مقامی اخبار، دی میل کے دفاتر کے باہر احتجاج کیا۔

انھوں نے احتجاج میں یہ دعویٰ کیا کہ قصبے میں گرومنگ گروہوں کے مسئلے کے بارے میں کچھ نہیں کیا جا رہا ہے۔

انتہائی دائیں بازو کے بلاگرز نے ان مظاہروں کو فروغ دیا اور بعض میں اس کی آرگنائزر کے دعوت نامے نے بنا بھی اس میں شرکت کی۔

ان میں سب سے زیادہ مقبول اسٹیفن یاکسلے لینن تھے، جو اپنے تخلص ’ٹومی رابنسن‘ سے مشہور تھے۔

ولیمز کے اہل خانہ نے فیس بک پر لکھا کہ ’وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ (ٹومی) اس میں شامل ہوں‘، لیکن اس نے ان لوگوں میں سے کچھ سے بات کی تھی جن پر ولیمز نے الزام لگایا تھا اور اس وقت کی ایک ویڈیو رپورٹ میں ٹومی رابنسن نے کہا تھا کہ اسے ’متضاد بیانات‘ سننے کو ملے جس کی انھیں ’امید نہیں تھی۔‘

ایلینور ولیمز

یہ الزام لگنے کے بعد پاکستانی نژاد محمد رمضان کے گھر کی کھڑکیاں توڑ دی گئیں، اُن کے کاروبار اور ان کی آئس کریم وین پر حملہ کیا گیا

متاثرین کون کون تھے؟

محمد رمضان بیرو میں ایک معروف تاجر ہیں وہ ولیمز کے نامزد ملزمان میں سے ایک تھے۔

انھوں نے بتایا کہ کس طرح وائرل فیس بک پوسٹس کے بعد مہینوں میں، ان کا شہر ’انتشار سے فقط ایک قدم دور‘ تھا۔

انھیں 2019 میں اس وقت گرفتار کیا گیا جب ولیمز نے پولیس کو بتایا کہ وہ ان کے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں میں سے ایک تھے اور جنھوں نے اس وقت سے ان کا جنسی استحصال شروع کر دیا تھا جب وہ 12 سے 13 سال کی تھیں۔

جیسے ہی یہ افواہ پھیلی، ان کے گھر کی کھڑکیاں توڑ دی گئیں، ان کے کاروبار کے احاطے اور ان کی آئس کریم وین پر حملہ کیا گیا اور گلی میں انھیں اکثر زبانی بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا۔

جارڈن ٹرینگوو بھی ولیمز کے متاثرین میں سے ایک تھے لیکن دوسروں کے برعکس اس پر عائد کردہ الزامات کی بنیاد پر فرد جرم عائد کی گئی تھی اور بری ہونے سے قبل انھوں نے 10 ہفتے جیل میں ریمانڈ پر گزارے۔

انھوں نے  جیل میں ’ایک حقیقی پیڈو فائل‘ کے ساتھ ایک ہی قید خانے میں وقت گزارا جس نے اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’بیرو اتنا چھوٹا شہر ہے اور ایک بار یہاں کچھ کہا جائے تو یہ ساری زندگی آپ کے ساتھ رہتا ہے۔‘

ایلینور ولیمز

جورڈن کا کہنا ہے کہ ویلیمز کے ان پر لگائے گئے جھوٹے الزامات سے ان کا نام بدنام ہوا

جھوٹے اور غیر مصدقہ الزامات

تفتیش کے بعد پولیس نے انکشاف کیا کہ ایک سال کی طویل تحقیقات کے بعد بیرو میں کام کرنے والے گرومنگ گینگ کے خلاف دعوؤں کی ’تصدیق نہیں ہو سکی۔‘

ایسا لگتا تھا کہ معاملہ اس گھمبیر اور تفصیلی کہانی کے بالکل برعکس ہے جو ولیمز نے فیس بک پر بتائی تھی۔

انھوں نے لکھا تھا کہ کس طرح ان سے بدسلوکی کرنے والوں نے ان کی پسلیاں توڑ دی تھیں، ان کے چہرے کی ہڈیاں توڑ دی تھیں، ان کے کان کاٹے، ان کا گلا کاٹ دیا تھا، ان کی چھاتیوں کو کاٹنے کی کوشش کی تھی، ان کی جلد میں الفاظ تراشے، ان کے جسم پر نشان لگائے، انھیں ایش ٹرے کے طور پر استعمال کیا تھا، ان کی کہنی نکل گئی، ’تشدد سے جسم پر نیل پڑ گئے۔‘

انھوں نے کہا کہ ان آدمیوں نے انھیں اس قدر منشیات دی تھیں کہ وہ ’تقریباً ہیروئن کی عادی بن گئیں‘ اور ’مجھے برہنہ کر دیا، مارا پیٹا اور مجھے بیچ راستے میں پھینک دیا۔‘

پولیس کے بیان کے بعد بیرو اور اس سے متصل علاقوں میں ولیمز کے حامیوں بڑھتے گئے۔

ان کے ٹرینڈ، ان کے حق میں ویڈیوز اور ہیش ٹیگز آن لائن نمودار ہونے لگے۔ بیرو میں پوسٹر لگ گئے اور پیسے اکٹھے ہوئے۔ ’گیٹ جسٹس فار ایلی‘ (ایلی کے لیے انصاف) کے لیے ایک آن لائن فنڈ ریزنگ مہم نے 22000 پاؤنڈ سے زیادہ رقم اکٹھی ہوئی۔

احتجاج جاری رہا جس میں پریسٹن کراؤن کورٹ کے باہر ایک احتجاج بھی شامل ہے جب وہ اپنے بے قصور ہونے کی درخواست داخل کرنے گئیں۔

ان  کے خلاف مقدمہ 2021 سے تاخیر کا شکار ہونے بعد بالآخر اکتوبر 2022 میں شروع ہوا۔ ان کے الزامات کا شکار افراد بھی اپنی گرفتاری کے بعد تین سال سے اس انتظار میں تھے۔

ولیمز نے اپنی ضمانت کی شرائط کی خلاف ورزی کے بعد ایک سال سے زیادہ جیل میں بھی گزارا تھا۔

استغاثہ کے وکیل جوناتھن سینڈی فورڈ کے سی نے بتایا کہ وہ ’جھوٹ بولنے کی عادی‘ ہیں۔

انھوں نے اپنے دفاع میں بتایا کہ ان کے زیادہ تر الزامات سچے تھے، سوائے کچھ کے جو ان سے بدسلوکی کرنے والوں نے انھیں گھڑنے پر مجبور کیا تھا۔

انھوں نے خود سے ’بدسلوکی کرنے والوں‘ کی جانب سے خود کو پیغامات بھیجنے کے لیے دو فون استعمال کیے تھے، اور انھوں نے اپنے سنیپ چیٹ نمبرز کے نام تبدیل کیے تھے تاکہ یہ ظاہر ہو کہ وہ انسانی اسمگلروں سے بات کر رہی ہیں۔

انھوں نے بیرو میں پولیس افسران اور لوگوں کی اچھی فطرت کا فائدہ اٹھایا جنھوں نے ان کے پریشان کن دعوؤں کو اہمیت دی۔

سی سی ٹی وی، بینک ریکارڈ، فون ریکارڈز اور سوشل میڈیا کی تلاش کے ثبوت کے ساتھ ان کے بہت سے الزامات کو آسانی سے غلط ثابت کر دیا گیا۔

عدالت کو بتایا گیا کہ انھوں نے ایک پولیس انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ انھوں نے سمگل کیے جانے اور ریپ کے بارے میں جھوٹ بولا کیونکہ پولیس افسران نے انھیں کہا تھا کہ وہ ان کی کہانی کی تصدیق کے لیے فلائٹ ریکارڈ کی جانچ کر سکتے ہیں۔

ان کے آبائی شہر میں رہنے والوں کے لیے سب سے زیادہ چونکا دینے والا یہ انکشاف تھا کہ وہ اُن تکلیف دہ زخموں کی ذمہ دار خود تھیں جو انھوں نے اپنی فیس بک پوسٹس پر ڈالی تھیں۔

جاسوسوں نے ان کے خون سے رنگا ہوا ایک ہتھوڑا برآمد کیا تھا، جو انھوں نے کچھ دن پہلے خریدا تھا اور ایک پیتھالوجسٹ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان کی چوٹیں خود لگائی گئی ضربیں تھیں۔

ایلینور ولیمز

'میری زندگی  واپس لوٹ رہی ہے‘

ایک سوال جو اس مقدمے میں شامل نہیں تھا کہ انھیں اس کی ترغیب کہاں سے ملی۔ ایک پولیس انٹرویو میں ایک افسر نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ صرف فورس کی توجہ حاصل کرنا چاہتی تھیں۔

لیکن ان کے کہانیوں سے متاثر ہونے کے بارے میں قیاس آرائیاں عروج پر ہیں۔

عدالت میں سینڈفورڈ نے بتایا کہ ان کے کچھ دعوؤں اور لیام نیسن کی فلم ’ٹیکن‘ اور بی بی سی کے ڈرامہ ’تھری گرلز‘ کی کہانیوں میں مماثلت پائی جاتی ہے۔

محمد رمضان کا خیال ہے کہ ان پر الزامات عائد کرنے والی خاتون نے ہالی ووڈ کی تھرلر فلم ’گان گرل‘ کی کہانی کے پلاٹ کا کچھ حصہ اٹھا لیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ بہت ساری فلموں کی کہانیاں اکٹھی کی گئیں اور ان میں میرا نام شامل کر دیا گیا، کیوں؟ اس کی کیا وجہ ہے؟ یہ صرف مجھے حیران کر دیتا ہے۔ یہ خوفناک ہے۔‘

رمضان، ٹرینگو اور دیگر بے گناہ مرد جن پر ولیمز  نے الزامات لگائے یہ ان کی زندگی کے ایک خوفناک باب کا خاتمہ ہے۔

تین سال تک ایک تاریک اور مکمل طور پر فرضی ماضی کا شکار رہنے کے بعد رمضان نے مجھے بتایا کہ وہ مستقبل کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

’میں اب اپنی زندگی کی طرف لوٹ رہا ہوں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments