ابدی بہار کے خواب اور ماحولیاتی تباہی


تم نے اپنے خالی لفظوں سے میرے خواب اور میرا بچپن چرایا ہے۔ لوگ تکلیف میں ہیں۔ لوگ مر رہے ہیں۔ پورا ماحولیاتی نظام تباہ ہو رہا ہے۔ دنیا معدومیت کی جانب بڑھ رہی ہے۔ مگر تم صرف دولت اور ابدی معاشی ترقی کے خواب دیکھ رہے ہو۔ یہ الفاظ سویڈن کی سولہ سالہ ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ کے ہیں جس نے ستمبر 2019 میں اقوام متحدہ کے ماحولیاتی سربراہی اجلاس میں شریک عالمی رہنماؤں سے خطاب کرتے ہوئے معاشی ترقی کی ابدی بہار کے خواب دیکھنے والوں کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے ایک نئی ماحولیاتی تحریک کا آغاز کیا تھا۔ اس تحریک کا مقصد طاقتور ملکوں کی قیادت کو یہ احساس دلانا تھا کہ وہ دنیا کے قدرتی ماحول کی خرابی کی ذمہ دار ہے۔

چین کی قیادت بھی عرصہ دراز سے ایسی ابدی ترقی کے خواب دیکھ رہی ہے جس کی کوئی مثال نہ ہو۔ حالانکہ یہ پہلے ہی ترقی کے ایک متاثر کن دور سے گزر رہا ہے۔ اس کے کسی بھی معاشی مرکز کو دیکھ لیں عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ کن منگ شہر کو ہی لے لیں۔ یہ چین کے صوبہ یونان کا دارالحکومت ہے اور اپنی خوشگوار آب و ہوا اور سال بھر کھلنے والے پھولوں کی وجہ سے ابدی بہار کے شہر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ چوبیس سو سالہ تاریخ کے ساتھ یہ کسی زمانے میں شاہراہ ریشم کا گیٹ وے کہلاتا تھا۔ اس شہر نے تاریخ کے کئی ادوار میں تبت، میانمار، ہندوستان اور اس سے بہت آگے تک کی ریاستوں کو تجارت کی سہولت فراہم کی۔

چونے کے پتھر جیسی نادر معدنیات کے ذخیرے پر آباد کن منگ اب بے مثال معاشی نمو کے بل بوتے پر حیرت انگیز تہذیبی و تمدنی ترقی کی منازل طے کرتا ہوا ایک مثالی شہر بن چکا ہے۔ موجودہ دور میں یہ بلند و بالا عمارتوں، کشادہ سڑکوں، روشنیوں، وسیع پارکوں، آبشاروں، جھیلوں، خوبصورت ساحلی پٹی اور تیزی سے ترقی کرتی معیشت کی وجہ سے بہت نام کما چکا ہے۔ اسے اگر چین کی حیرت انگیز اور خوابناک ترقی کے ایک نمونے کے طور پر دنیا کے سامنے رکھا جائے تو یہ بجا طور پر اس اعزاز کا مستحق ہے۔

گزشتہ کئی دہائیوں سے چین کی قیادت نے اقتصادی ترقی کو اپنے واحد مقصد کے طور پر آگے بڑھایا ہے۔ اگرچہ اس بے نظیر ترقی سے اس نے اپنے لاکھوں شہریوں کو غربت سے نکالا ہے۔ مگر اس کی سب سے زیادہ قیمت قدرتی ماحول نے ادا کی ہے۔ لہٰذا آزاد و غیر جانبدار ماحولیاتی اداروں، کارکنان اور مبصرین کو چین کی جانب سے ماحولیاتی تحفظ پر توجہ اور خاص طور پر اس حوالے سے ایک قائدانہ کردار ادا کرنے کی امنگ کا اظہار ایک خوشگوار حیرت کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ اسی تناظر میں دسمبر 2022 میں چین کے خوبصورت شہر کن منگ میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام دنیا بھر کے ممالک کی چوٹی کی قیادت نے ماحولیاتی اور حیاتیاتی تنوع کو درپیش مسائل کی گتھی سلجھانے کے لیے کاپ 15 سربراہی ملاقات کرنا تھی۔ یہ سربراہی اجلاس گزشتہ دو سال سے کورونا کی وبا کی وجہ سے ملتوی ہو رہا تھا۔

ماحولیاتی اور حیاتیاتی تناظر میں اس سربراہی اجلاس سے جتنے بڑے فیصلوں کی توقع کی جا رہی تھی اس لحاظ سے یہ شہر عالمی میڈیا کی نظروں میں بہت پہلے سے آ چکا تھا۔ تاہم فطرت اپنے انداز سے دنیا کو چلانا چاہتی ہے اور کبھی کبھار انفرادی اور اجتماعی خوابوں کی تعبیر میں حائل بھی ہوجاتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اگر انسانی آبادیاں قدرتی ماحول اور کائنات میں فطرت کے بنائے ہوئے اصولوں سے ہٹ کر فیصلے کرنے لگیں تو یہ بستیاں قانون قدرت کے نرغے میں بہت جلد آجاتی ہیں۔ دنیا کے کئی نامور سائنس دانوں نے اس بارے میں دلچسپ تحقیق کی ہے کہ کورونا کی وبائی بیماری کیسے شروع ہوئی۔ انہوں نے یہ بھی سراغ لگایا ہے کہ اس وبا کا تعلق چین کے صوبے ووہان کے ایک بڑے بازار سے ہے جہاں کئی اقسام کے زندہ جانور بھی فروخت کیے جاتے تھے۔

جنوری 2021 میں جب دنیا کے ایک سو سے زاید سائنسدانوں، محققین اور وائرس پر کام کرنے والے ماہرین سے پوچھا گیا کہ کیا کورونا وائرس کا مکمل خاتمہ ممکن ہے۔ تو ان میں سے تقریباً 90 فیصد کا خیال تھا کہ یہ آنے والے برسوں تک عالمی آبادی کو جھنجھوڑتا رہے گا۔ چین کے ساتھ بھی وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ 2022 کی حیاتیاتی تنوع سربراہی کانفرنس یہاں سے محض اس لیے کینیڈا کے شہر مونٹریال منتقل کی گئی کہ چین کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے لگائی گئی پابندیاں ہٹانے کے لیے تیار نہیں تھا۔

اقوام متحدہ کے بڑے ذیلی ادارے جب بھی کسے بڑے عالمی مدعے پر اکٹھے ہوتے ہیں تو عالمی رہنماؤں، وزرا، ماہرین، اکابرین اور فیصلہ سازوں کو اس بیٹھک کے دوران کانفرنس سے جڑے بے شمار پروگراموں کے انعقاد کے لیے میزبان شہر کی تہذیبی، تمدنی، سیاسی اور سماجی ترقی سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔ چین کے لیے بھی یہ ایک نادر موقع تھا کہ وہ نہ صرف ماحولیاتی حوالے سے ہونے والی عالمی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے اپنا ماحولیاتی ایجنڈا اور موقف دنیا کے سامنے رکھتا بلکہ اپنی ترقی اور معاشی کامیابی کو ایک مثال کے طور پر عالمی قیادت کی نظروں میں لے کر آتا۔

صنعتی و معاشی ترقی اور موسمیاتی تبدیلی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے موضوعات ہیں۔ اور موجودہ دور میں ان دونوں پر بحث زور پکڑ رہی ہے۔ ماحولیاتی ماہرین کا ایک بڑا طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ چین اور امریکا دنیا کا قدرتی ماحول منتشر اور پراگندہ کرنے والے امیر ممالک میں سرفہرست ہیں۔ اگرچہ گلوبل گرین ہاؤس گیس کے بڑھتے ہوئے اخراج میں معاونت کے لیے امریکا کسی حد تک عالمی کوششوں کا حصہ بنتا چلا آ رہا تھا کیونکہ یہ خود بھی اس کے منفی اثرات سے شدید متاثر ہے۔

تاہم ماضی قریب تک چینی قیادت کی ترجیحات میں عالمی ماحولیاتی ایجنڈا بہت آگے نہیں تھا۔ حالانکہ یہ دنیا کے ان امیر ترین ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی مالیات کے مقابلے میں فوجی اور صنعتی صلاحیت کی بہتری کے لیے کئی گنا زیادہ دولت خرچ کر رہا ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے حوالے سے یہ دنیا کے دس بڑے ممالک میں شامل ہے۔

چین ترقی کی جس ابدی بہار کے خواب دیکھ رہا ہے اس کے لیے اسے دنیا کے کروڑوں انسانوں کے ساتھ ساتھ حیاتیاتی منظر سے جڑے ان گنت اجسام نامیہ اور جانداروں کی زندگی، ترقی، بڑھوتری اور نمو کے خواب پورے کرنا ہوں گے۔ چین جیسے امیر ممالک کی ابدی بہار اور لازوال معاشی ترقی کی سوچ کے نتیجے میں ہونے والے لاتعداد فیصلوں نے جہاں کروڑوں زندگیوں کو بہتر کیا ہے، وہیں یہ فیصلے ان گنت حیاتیات سے زندگی کی امید بھی چھین رہے ہیں۔ چند ملکوں کے ابدی ترقی کے خواب کروڑوں انسانوں کی زندگی اجیرن بنا رہے ہیں، لاکھوں سانسیں کٹھن ہو رہی ہیں اور لاتعداد زندگیاں دشوار ہو چکی ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments