جب امریکی حکومت زرد صحافت کے آگے ڈھیر ہو گئی


بنجمن فرینکلن نے کہا تھا کہ ”اپنے کام سے کام رکھنا حقیقی امریکی منشور ہے“ ۔ اس حقیقی امریکی منشور کو عدم مداخلت کی لبرل پالیسی کہا جاتا تھا اور امریکہ کے اعلان آزادی سے لے کر پہلی جنگ عظیم تک امریکہ اسی پالیسی پر کاربند رہا۔ 1898 کی امریکہ اسپین جنگ کے وقت سے اس پالیسی میں تبدیلی آنا شروع ہوئی جو کہ پہلی جنگ عظیم کے وقت تک مکمل طور پر تبدیل ہو گئی اس تبدیلی کی داستان نہایت دلچسپ بھی ہے اور لکھنے لکھانے سے وابستہ افراد کے لیے اس مثبت بھی موجود ہے

اس جنگ کی بنیادی وجہ یہ بنی کہ امریکی نے بھی کا ایک جہاز ہوانا میں ایک واقعے میں تباہ ہو کر سمندر کی تہہ میں چلا گیا۔ اس واقعے کا الزام اسپین پر لگا اسپین اس بات کو سمجھتا تھا کہ امریکہ ایک ایسی طاقت بن چکا ہے کہ جس سے بگاڑ مناسب نہیں۔ اسپین نے بار بار اس امر کا اعادہ کیا کہ وہ آئندہ ایسے اقدامات بروئے کار لائے گا تاکہ دوبارہ ایسا واقعہ پیش نہ آئے اس وقت امریکی منصب صدارت پر ریپبلکن پارٹی کے ولیم مکینلی فائز تھے۔ وہ جنگ سے بچنا چاہ رہے تھے عدم مداخلت کی لبرل پالیسی کو قائم رکھنا چاہتے تھے۔ مگر اپوزیشن ڈیموکریٹک پارٹی نے ان کو اس حوالے سے مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیا کہ وہ امریکی مفادات کا تحفظ نہیں کر رہے ہے۔

صدر ولیم پر یہ دباؤ ڈالنے میں امریکی میڈیا اپوزیشن ڈیموکریٹک پارٹی کا ہمنوا تھا۔ ایسی ایسی خبریں اور تجزیے اخبارات کی زینت بن رہییں تھیں کہ جن سے پورے ملک میں جنگی فضا قائم ہو گئی۔ حقائق کو ایسے مسخ کر کے پیش کیا جا رہا تھا کہ حقیقت سات پردوں میں چھپ گئی۔ اس مہم کی قیادت ولیم ہرسٹ اور جوزف پولٹرز کر رہے تھے۔ بالآخر اس میڈیا مہم کے آگے امریکی حکومت سرنگوں ہو گئیں اور امریکہ کی عدم مداخلت کی لبرل پالیسی کا خاتمہ ہونے لگا امریکہ نے اسپین کو الٹی میٹم دیا کہ وہ اس کے بحری جہاز پر حملے کے مجرموں کو سزا دے اور آئندہ ایسے اقدامات کو نہ ہونے دیا جائے ورنہ کیوبا کو خالی کر دیا جائے۔

اسپین کے پاس ایسی ذلت آمیز دھمکی کے بعد کوئی چارہ کار نہ بچا اور اس نے جنگ کا اعلان کر دیا جو کہ امریکی میڈیا مہم کا اصل ہدف تھا۔ چند ماہ جنگ جاری رہی اسپین شکست کھا گیا اور اس کے بعد پیرس امن معاہدے کی رو سے اسپین نے کیوبا، گوام، فلپائن اور پیرتوریکو کو چھوڑ دیا جو پھر خود امریکی حلقہ اثر میں آ گئے اور اس کے بعد پھر امریکی مداخلت کی ایک نہ رکنے والی تاریخ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس جنگ کی بنیادی وجہ جو میڈیا مہم بنی اس کے بطن سے ہی زرد صحافت کی اصطلاح برآمد ہوئی ایسی زرد صحافت کے جس نے پھر دنیا بھر کے نقشے پر ان گنت واقعات ثبت کیے۔

ایسا نہیں ہے کہ امریکہ میں اس پالیسی کی تبدیلی میں مزاحمت نہیں کی گئی اور اس کے ذریعہ جن خطرات سے امریکہ بذات خود دوچار ہو سکتا تھا ان سے امریکہ کو محفوظ رکھنے کی خاطر جد و جہد نہیں کی گئی۔ امریکہ کو اپنی پالیسی تبدیل نہ کرنے کی غرض سے ایک تنظیم اینٹی امپیریلسٹ لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جس میں مارک ٹوون جو بعد میں امریکی نائب صدر بھی رہے، امریکی معروف کاروباری شخصیت ایڈورڈ ایٹکنسن اور ییل یونیورسٹی کے نامور پروفیسر ولیم گراہم سمر جیسے سر بر آوردہ اشخاص شامل تھے۔

اس تنظیم نے اپنے منشور کا اعلان ان الفاظ میں کیا تھا کہ ”ہم سمجھتے ہیں کہ امپیریل ازم کی پالیسیاں آزادی سے متصادم ہے اور فوجی مقاصد رکھتی ہے یہ ایک ایسی برائی ہے جو ہماری آزادی کی دشمن ہیں“ ۔ ان افراد کا تذکرہ اس لئے کیا کہ معاشرے کا باشعور طبقہ ہمیشہ آنے والے خطرات کو بھانپتا ہے اور اس کے مقابلے میں اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے اور مخالفت کی پروا نہیں کرتا ہے۔

پروفیسر ولیم گراہم سمر نے اس پالیسی کے امریکہ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے کی پیشن گوئی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”وہ کیسے دن ہوں گے جب ہماری موجودہ خوبیاں ختم ہو جائے گی اور ہم ان قدیم زوال پذیر اقوام کی طرح ہو جائیں گے؟ جواب ہے، جنگ، ملکی قرضے، ٹیکسوں کی بھرمار، سیاسی عیاریاں، اپنے دائرہ کار میں وسیع و عریض حکومت، ظاہری نمود و نمائش، بڑی افواج، شاہانہ اخراجات، بددیانت سیاست اور امپیریل ازم”

اور امریکہ ان تمام حالات کا حقیقت میں شکار ہو گیا اور اس کی وجہ یہ بنی کہ حکومت اپوزیشن کا دباؤ تو برداشت کر سکتی تھی مگر زرد صحافت کا دباؤ برداشت کرنا اس کے لئے ممکن نہیں تھا۔ اگر ہم وطن عزیز اور اس کے مسائل کا گہرا مشاہدہ کرے تو ہم واضح طور پر محسوس کریں گے کہ ہمارے بھی بہت سے مسائل کی وجہ صحافت میں بدعنوانی یا زرد صحافت ہی ہے اور اگر ہم نے اس پر قابو نہ پایا تو ایسی صورت میں ہی معاشرہ بری طرح تنازعات کا شکار ہوتا چلا جائے گا سوشل میڈیا بھی دراصل پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی پرچھائیاں ہی لے کر چلتا ہے۔

اس صورت حال پر قابو پانے سے میری یہ مراد ہرگز نہیں ہے کہ اس میں ریاست کو براہ راست ملوث کیا جائے بلکہ ابھی ہمارے درمیان ایسے اہل قلم موجود ہیں کہ جو اپنے نظریات کے سبب سے جیلوں، ہتھکڑیوں تک سے آشنا رہے ہیں۔ ان بزرگوں کی مشاورت سے اس مسئلہ کے تدارک کے لئے کوئی حل تجویز کرنا چاہیے ورنہ حقائق کو مسخ کرنے کا سلسلہ معاشرے کو مزید توڑ پھوڑ کا شکار کردے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments