مصری ادیب احسان عبدالقدوس


عرب دنیا میں آج گوگل ڈوڈل کا اعزاز مصری افسانہ نگار، مصنف، ادیب، اور صحافی کے طور پر نام بنانے والے احسان عبدالقدوس کے نام کیا گیا ہے۔ احسان عبدالقدوس مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں یکم جنوری سنۂ 1919 میں پیدا ہوئے، وہ برطانوی قبضے کے خلاف قومی مزاحمت کا دور تھا، یہ معروف اسٹیج ڈرامہ فیملی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے، ان کی والدہ فاطمہ الیوسف لبنانی نژاد تھیں، جن کا اس سے قبل اسٹیج پر ایک ممتاز کیریئر تھا۔

فاطمہ الیوسف ”روز الیوسف“ میگزین اور ”صباح الخیر“ میگزین کی بانی ہیں۔ فاطمہ الیوف کا شمار ان پہلے عرب ناول نگاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے عرب میں ناول نگاری کی۔ بچپن سے ہی احسان القدوس کا پسندیدہ مشغلہ پڑھنا تھا، گیارہ سال کی عمر میں اس نے مختصر کہانیاں اور کلاسیکی نظمیں لکھنا شروع کر دیں۔ اگرچہ عبدالقدوس ایک متمول خاندان میں پیدا ہوا تھا، لیکن اس کی پرورش اشرافیہ کی روایات کے بجائے دیہی علاقوں میں ہوئی۔

اس کا دادا ”شیخ احمد رضوان“ نوجوان احسان عبدالقدوس کو گرمیوں کی چھٹیاں دیہی علاقوں میں گزارنے کے لیے لے جاتا تھا، اس طرح اسے اس فنی ماحول سے دور رکھا جس میں اس کے والدین شامل تھے، احسان القدوس کے والد محمد عبدالقدوس ایک مصری تھیٹر اور فلم اداکار تھے احسان القدوس کے والد نے انہیں قانون میں کیریئر بنانے کی تحریک دی۔

احسان عبدالقدوس نے 1942 میں لاء اسکول سے گریجویشن کیا اور بطور وکیل کام کیا، وہ اپنے کیرئیر کے آغاز میں ایک مشہور مصری وکیل ایڈورڈ قوسیری کی قانونی فرم کا ٹرینی تھا۔ بعد میں وہ روز الیوسف میں بھی ایڈیٹر تھے جسے ان کی والدہ فاطمہ الیوسف (عرف روز الیوسف ) نے قائم کیا تھا، بعد میں احسان عبدالقدوس نے اپنے ادبی کیرئیر پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے اپنے قانون کا کیریئر چھوڑ دیا۔ احسان نے روز الیوسف میگزین کے چیف ایڈیٹر کی ذمہ داری سنبھالی۔

جب احسان القدوس 26 سال کے تھے، میگزین ان کی والدہ نے شروع کیا تھا۔ اس میں احسان القدوس نے مدیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا، لیکن ”روز الیوسف میگزین“ میں زیادہ دیر نہیں رہے اور اس کے بعد اپنا استعفیٰ پیش کر دیا، اس کے بعد انہوں نے سنۂ 1966 سے سنۂ 1968 تک اخبار الیوم کے چیف ایڈیٹر کا عہدہ سنبھالا اور پھر وہ سنۂ 1971 سے سنۂ 1974 تک ایڈیٹر انچیف کے ساتھ صدر بورڈ آف ڈائریکٹرز کے عہدے پر تعینات ہوئے، کچھ سالوں بعد وہ ”اخبار الاخبار“ میں ایک ممتاز صحافی بن گیا، جہاں اس نے آٹھ سال کام کیا۔ اس کے بعد احسان القدوس نے ”الاحرام اخبار“ میں کام کیا اور اس کے چیف ایڈیٹر بن گئے۔

احسان عبدالقدوس اکثر اہم شخصیات کو تنقید کا نشانہ بناتا تھا جس کی وجہ سے اسے اپنے پورے صحافتی کیرئیر میں تین بار قید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ فلسطین کی جنگ کے دوران فوجیوں کو ناکارہ اسلحہ فراہم کرنے میں حکومت کے کردار کو بے نقاب کرنے والے مضامین لکھ کر ابتدائی شہرت حاصل کی جس کی وجہ سے انہیں قید کیا گیا تھا۔ حالانکہ فلسطین پر اپنی واضح پوزیشن کے باوجود، وہ اپنی کہانیوں میں یہودیوں کے لیے ہمدرد تھا، اس کا اندازہ ان کے دو ناولوں کی کہانیوں سے ہوتا ہے ”یہ مشکل اور مغرور تھا“ اور ”مجھے یہاں اکیلا مت چھوڑو۔“

دوسری بار احسان عبدالقدوس کو سنۂ 1954 میں ایک مضمون لکھنے کے بعد دوبارہ جیل بھیج دیا گیا، جس کا عنوان تھا،  ”الجماعۃ الصیرۃ الطیحکم مصر“ (خفیہ معاشرہ جو مصر پر حکمرانی کرتا ہے )، جس نے مارچ کے بحران میں ناصر کی سازشوں کا انکشاف کیا تھا، اس وقت مصری حکومت نے احسان عبدالقدوس کو پھانسی دینے کا فیصلہ بھی جاری کیا تھا۔ احسان عبدالقدوس مصری معاشرے میں خواتین کو قربانی کی علامت سمجھتا تھا یہی وجہ ہے کہ سعد زغول کی فینمٹ تحریک کا بھی حصہ رہا اور خواتین ہی احسان عبدالقدوس کی ادبی تخلیقات کا مرکزی موضوع تھیں۔ احسان عبدالقدوس کے کاموں نے مصر میں روایتی تصورات میں تبدیلی لانے میں اور اثر انداز ہونے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ احسان عبدالقدوس اپنے ادبی کاموں کے برعکس ذاتی زندگی میں ایک بقدامت پسند انسان سمجھا جاتا تھا لیکن عوامی طور پر وہ ایک مزاحمتی شخصیت کے طور پر جانا جاتا تھا۔

عبدالقدوس ایک قابل ادیب تھے، احسان عبدالقدوس نے 49 ناول پر فلمیں بنیں، ، 5 ناول جو ڈرامہ بنائے گئے، 9 ناول جو ریڈیو سیریز کے لیے ڈھالے گئے، 10 ناول جو ٹیلی ویژن کے لیے ڈھال گئے اور اس کے علاوہ بھی 56 دیگر کتابیں لکھیں۔ ان کے رومانوی ناولوں اور مختصر کہانیوں کی تعداد تقریباً بیس جلدوں پر محیط ہے۔ اپنی تحریروں میں احسان عبدالقدوس نے مصری اور عرب خواتین پر زور دیا کہ وہ عوامی زندگی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔

عرب کے شاید بہت ادیبوں کو یہ اعزاز ملا ہو گا جن کے ناولوں کا انگریزی، فرانسیسی، یوکرینی، چینی اور جرمن زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے۔ صدر جمال عبدالناصر نے انہیں مصر کا اعلی اعزاز ”وسام الاستحقاق من الدرجة الاولى“ دیا تھا۔ اس کے علاوہ صدر محمد حسنی مبارک نے سنۂ 1990 میں ”وسام الجمہوریة“ اعزاز سے نوازا تھا۔ سنۂ 1973 میں ”میرا خون، آنسو اور مسکراہٹ“ My Blood، My Tears، My Smile کے لیے احسان عبدالقدوس کو اعزاز دیا گیا اور سنۂ 1975 میں ”The Bullet is Still in my Pocket“ کے لیے بہترین فلمی کہانی کا انعام بھی دیا گیا۔

نوٹ : ویسے تو احسان عبدالقدوس کا یوم پیدائش یکم جنوری سنۂ 1919 ہے، اور احسان عبدالقدوس 12 جنوری سنۂ 1990 کا فالج کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوا تھا، مگر گوگل ڈوڈل نے ان کا دن آج اس لئے منایا ہے کیونکہ 4 جنوری کو احسان عبدالقدوس کا معروف ناول ”I Do Not Sleep“ کا پہلا وسیع پیمانے پر انگریزی ترجمہ شائع ہوا تھا جو احسان عبدالقدوس کو دنیا سے متعارف کروا گیا۔

ریفرنسز: بمع ویکی پیڈیا بہت سارے اخبارات کی معلومات کی بنیاد پر لکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments